اُمِّ فیصل (8)۔مرزا مدثر نواز

آج کی نئی نسل کپڑوں کی سلائی سے تو بخوبی واقف ہے لیکن شاید کڑھائی اور کروشیے کے کام سے آگاہی نہ رکھتی ہو۔ نوّے کی دہائی تک جو لڑکی سلائی‘ کڑھائی و کروشیے کا کام جانتی‘ وہ نہایت ہی عقلمند و سگھڑ تصور کی جاتی تھی۔ ماضی میں دوپٹوں‘ چارپائی و بیڈ کی چادروں‘ تکیے کے غلافوں وغیرہ پر دکانوں سے اپنی پسند کے نقش و نگار نیل کے ساتھ کچھ ملا کر بنائے گئے محلول سے چھپوائے جاتے اور اس سارے عمل کو لیکنا کہا جاتا۔ اس کے بعد لکڑی کے ایک فریم میں کپڑے کے نقش و نگاروالے حصّے کو لگایا جاتا اور مختلف رنگوں کے دھاگوں کو سوئی کے ساتھ لگایا جاتا جسے کڑھائی کہا جاتا ہے۔اب یہ تمام کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ہم نے کالج تک ہاتھ سے بنے ہوئے دستانے‘ سویٹر‘ جرسی اور ٹوپی کا استعمال کیا۔ مختلف رنگوں والے اون‘ پشم کے دھاگے جو گولے کہلاتے ہیں اور آج بھی ڈھونڈنے سے مل جاتے ہیں‘ خریدے جاتے اور پھر سلائیوں کے ذریعے مختلف ڈیزائنوں کے سویٹر اور جرسیاں بنائی جاتیں۔ اس کے علاوہ باریک دھاگے سے کروشیے کے ساتھ ٹوپیاں اور مختلف قسم کے غلاف تیار کیے جاتے۔ محلے کی عورتیں جب اکٹھی بیٹھی ہوتیں تو اکثر باتوں کے ساتھ ساتھ ہاتھوں سے سلائیاں یا کروشیا چل رہا ہوتا۔ سردیوں کی طویل راتیں بھی ان کاموں کے لیے نہایت مناسب ہوتیں۔ لیڈیز کے بیگز میں اکثر سلائیاں یا کروشیاضرور ہوتا‘ جونہی فارغ وقت ملتا تو اس کو ان کاموں میں صَرف کیا جاتا۔

کروشیا کا ذکر آئے اور مجھے بے بے یا دادی مریم یاد نہ آئے‘ یہ نہیں ہو سکتا۔ دادی مریم ہمارے محلے کی ایک نیک‘ پارسا‘ ٹھنڈے مزاج اور اعلیٰ و اچھے اخلاق کی مالک خاتون تھی۔ میں نے کبھی بھی ان کی طبیعت میں اکتاہٹ و بیزاری و غصہ نہیں دیکھااور ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ہی دیکھی۔ ہر کسی سے ایسے ملنا اور اتنے پیار سے حال احوال پوچھنا کہ مخاطب کی طبیعت خوش ہو جاتی۔ حسد و بغض و ناگواری کا تو نام و نشان بھی نہیں تھا‘ اگر کسی رشتہ دار و محلے دار نے کبھی سخت بات کہہ بھی دی تو ہنس کر نظر انداز کر دینا۔ دادی مریم کے پاس زیادہ تر پلاسٹک کی ایک ٹوکری ہوتی جس میں اون‘ پشم کے گولے‘ سلائیاں اور کروشیا ہوتا‘ جہاں بھی کسی کے پاس محلے میں بیٹھنا تو سلائیوں یا کروشیے کا کام شروع کر دینا اور ساتھ میں اپنی مزاح والی باتوں سے دوسری خواتین کو ہنساتے رہنا۔ محلے کے بزرگوں سے لے کر چھوٹے بچوں تک کو شاید ہی کوئی اتنی اہمیت دیتا ہو۔ محلے میں کسی کی شادی ہوتی تو ان کی خوشی میں خوش ہونا اور عورتوں والے حصے میں شادی کے گانے گاتے رہنا۔ ان کی زندگی میں ان کا گھر تمام رشتہ داروں کا مرکز ہوتا اور مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا۔ بیماری میں بھی کسی کے ہاتھ پیغام بھجوانا کہ دادی کو آ کر مل جاؤ‘ جب ملنے جانا تو خوش ہوتے رہنا اور پرانی باتیں سناتے  رہنا اور ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنا۔ دادی مریم جیسی طبیعت والے لوگوں کی بدولت محلے میں ایک رونق ہوتی ہے اور محلے داروں میں پیار و محبت کی فضا قائم رہتی ہے لیکن افسوس کے ساتھ اب ایسے لوگ معاشرے میں دن بدن کم ہو رہے ہیں۔

؎ ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے (امیر مینائی)
ہاجرہ کی عمر بیوگی کے وقت 27یا 28سال ہو گی۔ عین جوانی میں بیوہ ہونے کا دکھ کوئی دوسرا محسوس نہیں کر سکتا۔ ہاجرہ نے دوسری شادی کرنے کی بجائے اپنی زندگی بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ باپردہ خاتون ہونے کی بدولت ذرائع آمدن کے لیے اس نے سلائی‘ کڑھائی اور کروشیا کا کام شروع کر دیا۔ کئی دفعہ گھر کا کرایہ‘ یوٹیلٹی بلز‘ بچے کی پڑھائی اور کچن کا خرچہ پورا کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن رازق کائنات کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دیتاکیونکہ وہ ہمیشہ محنت کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے نہ کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر معجزوں کا انتظار کرنے والوں کا۔
؎ توکّل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
انجام اس کی تیزی کا مقدّر کے حوالے کر

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply