ایمیزون:مختصر تجزیہ۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

پچپن لاکھ مربع کلومیٹر پہ مشتمل عظیم ایمیزون بارش کا جنگل شمال مغربی برازیل کے زیادہ تر حصے پر پھیلا ہوا ہے۔مزید حصے کولمبیا ، پیرو اور دیگر جنوبی امریکہ کے ممالک تک پھیلا ہوئے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا بارشوں کا یہ جنگل ، حیاتیاتی تنوع کے لئے مشہور ہے، یہ طاقتور اور عظیم دریا ایمیزون سمیت ہزاروں ندیوں کا گھر ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سیکنڈ میں پچپن لاکھ گیلن پانی اس جنگل سے نکل کر سمندر میں گرتا ہے، انیسویں صدی کے فن تعمیر کے حامل برازیل کے شہر ماناؤس اور بیلم، پیرو کے ایککوٹس اور پورٹو مالڈوناڈو اسی دریا کے کنارے آباد ہیں، دنیا بھر میں بارشی جنگلوں کا رقبہ اسی ایک جنگل کے رقبے جتنا ہے، دنیا بھر سورج کے طلوع ہونے کا دلکش ترین منظر اور خوبصورت ترین پرندوں کا نظارہ بھی اسی جنگل میں کیا جا سکتا ہے،مختلف قسم کے پچیس لاکھ حشرات الارض، سوا چار سو سے  زائد دودھ دینے والے جانداروں کی اقسام، تیرہ سو سے زائد پرندوں کی اقسام، تین سو اسّی اقسام کے رینگنے والے جانداروں اور چار سو سے زائد ایسے جانداروں کی اقسام جو پانی و خشکی میں برابر جیتے ہیں، کا گھر ، ایمیزون کا جنگل اس زمین پہ فطرت کا حسین شاہکار ہے۔ انسانی آبادی انتہائی بھاری مقدار میں چاکلیٹ ، کالی مرچ ، انناس ، کیلے ، ٹماٹر اور چاول سمیت کئی کھانے کی اشیاء اسی جنگل سے لے رہی ہے. پانچ سو کے قریب انسانی قبائل بھی اس جنگل میں صدیوں سے رہ رہے ہیں، کچھ قبائل تو ایسے بھی ہیں جن کا بیرونی دنیا سے کبھی واسطہ نہیں رہا،گرین ایناکونڈا، بلیک کییمین، زہریلی ڈارٹ مینڈک، بل شارک اور برازیل کی زہریلی آوارہ مکڑیاں اس جنگل میں دنیا کے خطرناک ترین جانداروں میں شمار ہوتے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگل میں چار سو ارب کے قریب درخت موجود ہیں۔

خلا سے لی گئی مختلف سیٹلائٹ تصاویر میں ایمیزون کے اوپر اڑتے ہوئے دھویں اور معلق ذرات کی تہیں دیکھی جا سکتی ہیں، اوسیلاٹ، پیکیریوں، آرماڈیلووں اور دیگر متعدد قسم کے جانداروں کے خاتمے کی فیلڈ فوٹوز اتنی وائرل ہوگئیں کہ وہاں کی سول سوسائٹی خوف میں مبتلا ہو گئی اور دنیا بھر میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم مظاہرین کے مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں، جنگل کی سفاکانہ اور مسلسل کٹائی ایک الگ مسئلہ کا روپ اختیار کر چکی ہے، ایمیزون میں حالیہ تیزی سے آگے بڑھنے والی آگ کو جان بوجھ کر زراعت سے وابستہ سرمایہ داروں نے سویا بین کے کاشتکاروں کی مدد سے شروع کیا ہے، جو جنگلات کے  کٹاؤ اور حیاتیاتی تنوع کے ضیاع کے بھی ذمہ دار ہیں۔

بےشک گزشتہ صدی کے آغاز کے مقابلے میں اس مرتبہ آگ کے واقعات کی تعداد کم ہے،لیکن مسئلہ کچھ دوسرا ہے، جنگل میں قدرتی طور پر آگ کو نم کرنے کے لیے  کافی مقدار میں نمی اور درختوں کی بڑی بڑی چھتری کی وجہ سے زیرزمین نمی بھی موجود ہوتی ہے۔مسئلہ یہ ہوا کہ درختوں کی تیز کٹائی وہاں خشکی کا سبب بن رہی ہے، جبکہ جنوبی نصف کرہ میں خشک موسم کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔

گزشتہ آٹھ ماہ میں برازیل کی حکومت نے جتنی بھی پالیسیاں بنائی ہیں وہ سب کی سب ایمیزون کی تباہی کو مزید تیز کر رہی ہیں، مشہور فلسفی کارل مارکس نے بجا طور پر لکھا تھا کہ “پیسے کو ہر چیز کی خود ساختہ قیمت بنا دیا گیا ہے، لہذا اسی پیسے نے انسانی اور فطرتی دونوں دنیاؤں کو اپنی مخصوص (خودساختہ) قیمت کے بہانے سے لوٹ لیا ہے”۔۔فرانس، جرمنی اور ناروے لمبے عرصے سے برازیل کو ایمیزون کے تحفظ کے نام پہ مالی امداد دے رہے ہیں، لیکن درحقیقت ان ممالک کے سامراجی سرمایہ دار جنگل میں موجود سونے اور کئی دیگر قیمتی دھاتوں کی لوٹ مار میں مصروف ہیں،یہی لوگ یہاں کی قدرتی حیات کی تباہی کےبھی ذمہ دار ہیں،فرانس نے تو جنگل سے وسائل کی لوٹ مار کے دوران جنگل کو ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا کہ کئی ماحولیاتی این جی اوز اور وہاں کی عوام نے بھرپور مظاہرے کیے جس کے نتیجے میں فرانس کو 2015ء کے بعد سے ابھی تک وہاں ‘کاروبار’ کی اجازت نہیں ملی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سرمایہ دارانہ نظام میں ناگزیر طور پر دولت اور ذرائع پیداوار کی زیادہ تعداد کم ہاتھوں چلی جاتی ہے ، اسی طرح زمین کی زیادہ سے زیادہ نجکاری کے نتیجے میں مقامی برادریوں اور لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے،اگر ایمیزون میں سرمایہ دارانہ نظام کو اپنی خوبصورت ترین شکل میں بھی لاگو کیا جائے تب بھی جنگلات کے رقبے پر مستقل تجاوزات انسانیت کے لئے تباہ کن ثابت ہوں گے، اگر حیاتیاتی توازن اور مختلف جاندار ختم ہو گئے تو پائیدار انسانی ترقی بھی ناممکن ہو جائے گی، آگ کے واقعات دن بدن آگ کی طرح پھیلیں گے، کیونکہ سرمایہ داری کی منافقت اور ہوس بھی دن بدن بڑھ رہی ہے، اگر یہ حکمران واقعی ایمیزون کو بچانا چاہتے ہیں تو ترقی کے نام پہ جنگل کی زمین کو تیزی سے سرمایہ داروں کو بیچ کیوں رہے ہیں؟ اگر حکمران درختوں کی کٹائی روکنا چاہتے ہیں تو سرمایہ داروں کو درختوں کی کٹائی کی اجازت کس نے دی ہے؟ یہ جنگل میں موجود کئی قبائل، ثقافتوں اور زبانوں کی تباہی کے بھی ذمہ دار ہیں،پیراگوئے، ارجنٹینا اور بولیویا میں جنگلات کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جا رہ ہے، وہاں بھی زراعت سے وابستہ سرمایہ دار اور حکمران ٹولہ اس تباہی کا ذمہ دار ہے، پاکستان میں بھی جنگلات کی مسلسل تباہی کے پیچھے ٹمبر مافیا کا سرمایہ دار اور حکمران ٹولہ ہی ہے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply