• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فوج اور حکومت سے توقع عبث ، صرف ٹائم پاس جاری ہے۔۔۔۔عارف مصطفٰی

فوج اور حکومت سے توقع عبث ، صرف ٹائم پاس جاری ہے۔۔۔۔عارف مصطفٰی

کیا یہ وقت بھی آنا تھا کہ لوگ اب منہ بھر بھر کے کہہ  رہے ہیں‌ کہ تاریخ میں پہلی بار بھارت امریکہ اور پاکستان ایک ہی پیج پہ آچکے ہیں اورکشمیر کے معاملے میں جو ہونا تھا وہ اندر خانے مل ملا کے ہو چکا ہے اور باقی یہ سب جو بیرونی آنیاں جانیاں ہیں صرف نمائشی ہیں اورمحض ڈھکوسلہ  ہیں اور اسی لیے اب وہ نوبت بھی بالآخر آہی گئی ہے کہ مصلحتوں کا شکار ہوئی پاک فوج اور بیرونی آقاؤں کے اشارے پہ ناچتی حکومت سے توقع لگانا قطعی عبث ہوچلا هے ۔ کیونکہ کشمیر کے معاملے میں دو ٹوک عملی اقدام میں بیحد تاخیر سے وهاں زمینی حقائق بڑی تیزی سے تبدیل ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ عملی صورتحال یه هے كه چونکہ کشمیر کے معاملے میں بھارتی جارحیت اور اسكی قابضانہ حکمت عملی کو کسی نے بھی نہیں روکا اور نه هی کسی نے اسکا ہاتھ پکڑنے كی كوئی سنجیده و بامعنی كوشش كی ، چنانچہ لگتا یہ ہے کہ برصغیر میں کھیلا گیا اسکا یہ نیا کھیل اب اپنے مرحلہء تکمیل کو آن پہنچا ہے اور اسی لیے امریکی صدر ٹرمپ نےكھل كر یه کہنا ضروری سمجھا هے كه ’’ اب کشمیر کے معاملات میں بہتری آرہی ہے اور پہلے جیسا تناؤ باقی نہیں رہا ہے اور مزید بہتری کے لیے وہ پاکستان اور بھارت کو پھر سے ثالثی کی پیشکش کرتے ہیں ‘‘ ـ۔۔ واقفان حال جانتے هیں كه ماضی قریب میں انکی ثالثی کی پیشکش بھارت کو ہلا شیری دینے کا سبب بنی تھی اور اب یقیناًانكی نئی پیشكش کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اپنے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کرلیے ہیں چنانچہ اب آپکی خواہش کے عین مطابق معاملات کو یہیں پہ اپنی چھتری تلے جماؤ دیے دیتے ہیں ۔۔۔

یاد رکھیے کہ یہ سائنس کا اصول اور تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی آگ خواہ کتنی ہی بڑی اور شدید کیوں نہ ہو اگر اسے ایندھن نہ ملے تو بالآخر آہستہ آہستہ بجھ ہی جاتی ہے اور اسی طرح کوئی گھاؤ خواه کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، گزرتے وقت كے مرهم سے رفتہ رفتہ بھر ہی جاتا ہے تو اگر كشمیر كے كیس میں اس اصول كا اطلاق نه هو تو یه بڑی حیرت كی بات هوگی۔۔۔ اور اب جبكه بھارت میں كشمیركے زبردستی كیے گئےانضمام كو پورے 36 روز گزرچکے ہیں‌ اور اس جنت ارضی کہے جانے والے خطے كو ایك بڑی جیل میں بلكه عقوبت خانے میں تبدیل كردیئے جانے كے اس طویل دورانیےكے تناظر میں وهاں كچھ بھی هوسكتا هے اور کچھ عجب نہیں کہ بیرونی دنیا کی لاتعلقی سے کشمیری بھی دھیرے دھیرے مایوس ہوکر اگر پھر سے اسی پرانی مصالحانہ ڈگر پہ ہی نہ لوٹ جائیں‌ کہ جس پہ وہ ستر سال سے چلتے چلے آرہے تھے اور جسكے وه اب عادی بھی هوچلے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب یعنی انضمام کے بعد کی پوزیشن پہ بھی صبر کرلیں کیونکہ تمام کشمیری قیادت اور ہزاروں نوجوانوں‌کی گرفتاری کے بعد سے اس تمام عرصے میں انکے اندر سے اب تک مزاحمت کی کوئی ایسی بڑی شکل بھی دیکھنے میں نہیں آسکی کہ جو انکے غم و غصے کو کسی فیصلہ کن مرحلے تک پہنچاسکے ۔

ہمیں یہ سامنے کی حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ نتیجہ خیز مزاحمت ایک خاص سرکش خمیر سے پنپتی ہے جبکہ طبعی طور پہ بطور قوم ، کشمیری امن پسندی ، عاجزی و انکسار کا پیکر ہیں اور یوں جارح سے نبرد آزمائی کے لیے درکار اس خاص جوہر سے وہ تقریباً محروم نظر آتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ قطعی جہادی و حربی مزاج نہ رکھنے کے باعث انہیں کسی عہد میں بھی کبھی بطور جنگجو نہیں دیکھا گیا اور اسی سبب وہ افغانوں ، ترکوں اور الجزائریوں وغیرہ سے مختلف تاریخ کے حامل ہیں کہ جنہوں نے چند ہی برسوں میں دو بدو جنگ کرکے جارح کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کردیا جبکہ کشمیری المیہ اب گھسٹتے و رینگتے ہوئے پون صدی کی عمر کا ہوچلا ہے اور حالات کے جبر کے زیر اثر انکے جو تھوڑے بہت استثنائی لوگ مزاحمت کی تاب رکھتے بھی تھے انکی بڑی تعداد یا تو شہید کی جاچکی ہے یا پابند سلاسل ہے – بھارتی تسلط سے شدید نفرت کے باوجود ، تقسیم ہند کے وقت سے اب تک وہ بے عملی کا شکار رہے ہیں اور بطور قوم زیادہ تر وقت سوتے اور کبھی کبھی تھوڑی سی دیر کے لیے جاگتے چلے آئے ہیں اور انکی یہ بے عملی اور دوسروں پہ انحصار کرنے کی عادت فطری طور پہ روایتی جہادی مزاج کے حامل گروہوں کو انکے قریب آنے اور وہاں برسر پیکار ہونے سے روکتی ہے کیونکہ جہاد اور مزاحمت کا بنیادی چشمہ توہمیشہ مقامی سرزمین ہی سے اگتا اور پھلتا پھولتا ہے اور بلاشبہ دیگر ہمدرد خارجی قؤتیں خواہ کتنی ہی جنگجو کیوں نہ ہوں ، اپنی اصل طاقت تو وہیں کی مقامی زمین سے ہی حاصل کرتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخی طور پہ کشمیریوں کی مزاحمت کا شجر ہمیشہ باہر سے آئی کھاد کا منتظر رہا ہے اورانکی اس نیم غنودہ فطرت اور بیرونی قؤتوں پہ انحصار کی عادت نے انہیں بڑا نقصان پہنچایا ہے کیونکہ بیرونی جہادی بھی یکسو ہوکے انکا ساتھ نہیں دے سکے ۔۔۔ تاہم کشمیریوں کی عادت و مزاج خواہ کچھ بھی ہو لیکن تقسیم ہند کے بعد سے انکی عظیم ترین اکثریت خود کو بھارتی قوم کا حصہ باور نہیں کرتی کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ کے منظور کردہ آزادی ایکٹ میں طے کیے گئے تقسیم ہند کے قانونی اصول اور تاریخی عوامل کی روشنی میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت پہ مشتمل یہ خطہ بھارت کا جز و بنایا جا ہی نہیں سکتا لہٰذا یہ واضح طور پہ پاکستان کا حصہ ہے اور یوں یہ تشکیل پاکستان کے ضمن میں تکمیل کا نامکمل ایجنڈہ ہے چنانچہ پاکستان کی حکومت اور فوج خود کو اس سے لاتعلق رکھ ہی نہیں سکتی ۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری سمت سے عملاً سوائے زبانی جمع خرچیوں اور بھڑک دار بیانات داغنے کے ، اورمزید کچھ نہیں کیا گیا بلکہ اسکے برعکس ہم تو نہایت بزدلی و بیشرمی سے انکی عملی مدد کرنے کو بھی شجر ممنوعہ ہی سمجھتے رہے ہیں اور یہ جو آزاد کشمیر کا حصہ ہمارے پاس آسکا ہے وہ بھی 1948 میں قبائلیوں کی مسلح جدوجہد کی وجہ سے ہے گویا ہماری سیاسی و عسکری اشرافیہ عملاً کل بھی کشمیریوں سے دغا کرتی رہی ہے  اور اب بھی یہی کررہی ہے ۔۔۔ لیکن ادھر عوام بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ دریں حالات ، اب حکومت اور فوج سے توقع کرنا عبث ہے اور جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا اور لائن آف کنٹرول کو 1948 کے قبائلی مارچ کی مانند روند ڈالنے کے سوا مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں رہ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اہل علم اور صاحبان فکر و نظر اس حقیقت کو خوب سمجھتے ہیں کہ یہ جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس معاملے کو اٹھانے کی بات ہے اسکی حیثیت فریب نظر سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ تو ٹائم ضائع کرکے معاملےکو طاق نسیاں پہ رکھ دینے کی ایک کوشش ہے ورنہ تو یہ مسئلہ تو وہاں 70 برس قبل ہی اٹھایا جاچکا ہے اور یہی نہیں بلکہ 2 قراردادیں بھی منظور کی جاچکی ہیں جو کہ ردی کی ٹوکری میں پڑی سسک رہی ہیں ۔۔۔ سچ یہ ہے کہ اس معاملے میں ویسے تو اب عملی حقائق کے مدنظر نئی قرارداد کی منظوری ممکن ہی نہیں لیکن اگر جیسے تیسے کرکے سال ڈیڑھ سال میں یہ قرارداد پاس ہو بھی ہوگئی تو اب کےبھی زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ردی کے اس ڈھیر میں آپ ایک اور قرارداد کا اضافہ کراپائیں گے۔۔۔ ورنہ ان قراردادوں پہ عمل درآمد کروانے کی قؤت و صلاحیت نہ آپ میں پہلے تھی اور نہ ہی اب ہے – آپ محض تماشے بازی میں ٹائم پاس کررہے ہیں ورنہ 5 اگست کی شام ہی سے بھارت سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کرچکے ہوتے اور اسکی ہوائی ٹریفک کےلیے اپنی فضائی حدود بھی کب کی بند کی جاچکی ہوتیں مگر اب 36 روز بعد بھی آپکا وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اس جملے سے آگے بڑھ کے نہیں دیتا کہ ‘ اب بھی بھارت باز نہ آیا تو ہم اسکے لیے اپنی فضائی حدود بند کرسکتے ہیں ۔۔۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہماری انتظامی اشرافیہ یہ سب اس لیے کرپارہی ہے کیونکہ بخوبی جانتی ہے کہ پاکستانی قوم زود فراموش ہے اور کچھ وقت یونہی گزرگیا تو پھر کیسا کشمیر اور کہاں کا کشمیر ۔۔۔ پھر لے دے کے بس کشمیری قہوہ پی پی کے بھارت کو کوسا کریں گے اور ہماری کشمیر کمیٹی ہندؤں کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی رقت آمیز دعائیں کیا کرے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply