گلبدین خان صاحب ۔۔سکندر پاشا

گلبدین خان صاحب رہتے تو وہ ہماری گلی کے آخر میں ہیں اور ہم ان سے اتنا ہی دور رہتے ہیں جتنا ایک پڑوسی کے شریر بچوں سے رہنا چاہیے، اور ان کے بچے واقعی بہت شریر ہیں۔خان صاحب ہم سے ہماری دینداری کی وجہ سے محبت کرتے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ کہ ہمارے دوست ہمیں “دینداری کا لبادہ اوڑھے سیکولر و لبرل مولوی” کہتے بھی ہیں اور دو چار دوست تو غیبت بھی اسی نام سے کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر ہم واقعی بزعم یاراں بدل گئے ہیں۔

کیا کیجیے  کہ ہر بشر اپنے من میں ایک دنیا آباد کیے  رکھتا ہے اور ہم بھی اپنی  ایک چھوٹی سی دنیا کے تاحیات مالک ہیں۔ جس سے ہم بھی لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہم اپنے دوستوں کو کھٹکتے ہیں۔

خان صاحب کا تعلق ہمارے پڑوسی ملک سے ہے، خاندانی طور پر اپنا حسب و نسب مرحوم محمود عزنوی سے جوڑتے ہیں، “جبکہ محمود عزنوی جہاد کے میدان میں بہادری دکھاتے تھے لیکن خان صاحب نے اپنی بہادری بچوں کی پیدائش کے میدان میں دکھائی ہے، اس لئے اب تک حیات چار بیویوں کے شوہر اور اکتیس بچوں کے اکیلے باپ کہلاتے ہیں”۔ فوت شدہ ایک بیوی کا ہمیں فقط علم ہے۔

سوویت یونین نے جب ۱۹۷۹ میں افغانستان پر یلغار کی تو اسی وجہ سے خان صاحب نے پاکستان ہجرت کی، جوان بیوی اسی یلغار کی نذر ہوگئی اور انیس سال کی عمر میں اپنے دو بچوں کے ہمراہ یہاں تشریف لائے۔ اپنے لئے سب سے محفوظ جگہ کوئٹہ کو پایا تو دس سال وہیں اقامت اختیار کی اور پھر ہجرت در ہجرت کرکے کراچی تشریف لائے۔

بہت خوشی سے رہ رہے ہیں، افغانستان میں خاندانی طور پہ سرمایہ دار تھے، جنگ کے بعد حالات بگڑے لیکن وقت کے ساتھ خود کو بدل لیا، اب بھی اچھے خاصے سرمایہ دار ہیں۔

کوئٹہ میں پہلی بیوی کے غم میں زیادہ عرصہ نہیں رہے اور جلد ہی دوسری اور دو سال بعد تیسری شادی رچا لی، “کوئٹہ کے دس سالہ ہجرت کے دوران وہ نکاح میں شریک دو بیویوں سمیت گیارہ بچوں کے سرمایہ دار والد کہلانے لگے”۔

بچے زیادہ تھے تو ماہانہ بجٹ کا نوے فیصد خرچ ہوجاتا، بقول موصوف کے کہ بھائیوں کو حسد ہوا تو مجھے الگ کر دیا اور ہجرت کرکے ۱۹۸۹ میں کراچی آئے جہاں اب تک مقیم ہیں۔

ہم نے پوچھا: خان صاحب ۱۹۸۸ میں تو سویت یونین کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا، آپ بجائے افغانستان ہجرت کرنے کے مزید دور کراچی کیوں ہجرت کرگئے۔؟

کہنے لگے: افغانستان واپس جاکر ایک نئی زندگی شروع کرنے میں خاصی مشکلات ہوتیں اس لئے سوچا کراچی کا رخ کیا جائے، پیچھے جانے کے بجائے آگے بڑھا جائے اور آج ایک اچھی پوزیشن پہ اس لئے ہوں کہ مستقبل کا سوچا تھا اور ماضی کی غلطیاں دہرانا چھوڑ دی تھیں، “لیکن آج بھی دل افغانستان کے لئے دھڑکتا ہے”۔

کراچی کی آب و ہوا سے مانوس ہوتے خان صاحب کو عرصہ گزرا لیکن بچوں کی پیدائش میں کوئی رکاوٹ نہ ہوئی اور وہ اپنے میدان میں ہر سال نہیں تو دوسرے سال ضرور کامیابی کا ایک جھنڈا گاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

وسیع پیمانے پر کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں، گویا کہ ہر میدان میں وسیع “تجربہ” رکھتے ہیں۔
گزشتہ کل ہمیں طلب کیا، در پہ حاضر ہوئے تو دسترخوان مختلف کھانوں سے سجا ہوا تھا۔ ہم نے خوشی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ پیدائش ہماری انیس سو اکسٹھ (۱۹۶۱) کی ہے اور آج ہم اکسٹھ برس کے ہوگئے ہیں۔ سوچا اس خوشی میں آپ کو شریک کیا جائے۔

ہمیں کھانے کو اشارہ کیا اور  خان صاحب دھیمے سے لہجے میں بولے کہ “مولوی صاحب۔۔ آج اگر ہم محبت میں کامیاب ہوتے تو ہمارے اکتیس کے بجائے اکسٹھ بچے ہوتے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

قہقہہ لگا، کھایا، پیا اور ہمیں گھر کو رخصت کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply