سنگ مزار /گی دَ موپاساں (2،آخری حصّہ)۔۔مترجم : محسن علی خاں

یکدم اُس کے جسم میں جنبش ہوئی جیسے بید کے درخت کو ہوا چیرتی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اب رونا شروع کر دے گی۔ پہلے وہ آہستہ سے رونا شروع ہوئی ، پھر اپنی گردن اور شانوں کو ہلاتے ہوۓ اونچی آواز میں رونے لگ گئی۔

اچانک اُس نے اپنی آنکھوں سے اپنے ہاتھ ہٹا لیے۔ اس کی دل آویز آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ اُس نے حیرت زدہ ہو کر خود پر نظر دوڑائی، جیسے کسی خواب سے بیدار ہوئی ہو۔ جب اُس نے میری طرف دیکھا تو نادم ہوتے ہوۓ اپنے چہرے کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا۔ پھر اُس نے سسکیاں بھرتے ہوۓ اپنا سر سنگ مرمر پر جھکایا اور اپنی پیشانی اُس پر ٹِکا لی۔ اُس کا باریک نقاب اس کے محبوب کی قبر پر تازہ ماتمی علامت بن کر پھیل گیا۔ میں نے اُس کی آہ سُنی، وہ ساکن ہوگئی اور نیم بے ہوشی کے عالم میں اُس کے رُخسار سنگ مرمر کی صلیب پر ڈھلک گئے۔ میں تیزی سے اُس کی جانب بڑھا، اس کے ہاتھوں کو تھپتھپایا اور آنکھوں کے پیوٹے پر گرم سانس دیتے ہوۓ میری نظر قبر کے کتبے پر پڑی جس پر لکھا تھا،
“ یہ میرین انفنٹری کے کپتان لوئی تھیوڈر کیریل کا مرقد ہے۔ جو دشمن کے ہاتھوں ٹونکین میں مارا گیا تھا۔ اس کی روح کے لیے دُعا کر دیں“۔

وہ چند مہینے پہلے مرا تھا۔ میں آنسوؤں کو دیکھ کر متاثر ہوا اور اپنی توجہ مکمل طور پر خاتون کی طرف مبذول کر لی۔ وہ دونوں کامیاب رہے۔ خاتون ہوش میں واپس آگئی۔ میں اُس کے سامنے بہت متحرک ہو گیا۔ میں شکل صورت میں بھی اچھا ہوں، ابھی چالیس کا بھی نہیں ہوا ہوں۔ میں نے اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے شائستگی اور احساس تشکر دیکھا۔ بہتے ہوۓ آنسوؤں کے ساتھ اُس نے مجھے اپنی داستان سنائی۔ بے ربط بات کی صورت میں، پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان وہ مجھے بتا رہی تھی کہ کپتان کیسے ٹونکین کے محاذ  پر مارا گیا تھا۔ جب کہ اس کی شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا۔ اُن کی محبت کی شادی تھی۔ یتیم ہونے کی وجہ سے اُس کا جہیز بھی بہت کم تھا۔

میں نے اسے دلاسہ دیا اور اس کی اشک جوئی کرتے ہوۓ اسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں مدد دی۔ پھر میں نے کہا؛
“یہاں مت ٹھہریں، آئیں چلیں۔”
“میں چل نہیں سکتی۔” وہ بڑبڑائی۔
“میں تمھاری مدد کروں گا۔”
“شکریہ جناب۔ آپ بہت مہربان ہیں۔ کیا آپ بھی یہاں کسی کی قبر پر حاضری دینے آئے تھے؟”
” جی ہاں میڈم ”
” کسی دوست کی؟”
” جی ہاں میڈم ”
“اپنی بیوی کی؟”
“نہیں اپنی دوست کی۔”
“محبت تو ہر قانون سے بالاتر ہے۔ انسان اپنی دوست سے بھی اتنی محبت کرسکتا ہے جتنی اپنی بیوی سے”۔
“جی بالکل میڈم”۔
ہم ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ وہ میرے بازو کے سہارے قبرستان کے راستوں پر چل رہی تھی۔ جب ہم قبرستان سے باہر آۓ وہ چلتے ہوۓ لڑکھڑا گئی۔
” مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں بیمار ہو جاؤں گی “۔
” کیا آپ میرے ساتھ کہیں جانا پسند کریں گی، تاکہ کچھ کھا پی لیا جاۓ؟”
” ضرور جناب ”
مجھے ایک ریستوران کا علم تھا، جو اُن جگہوں میں سے ایک تھا جہاں مردوں کے عزیز و اقارب تدفین کے بعد غم مٹانے جاتے تھے۔ ہم اُس ریستوران کے اندر چلے گے۔ میں نے اُسے گرم چاۓ کا ایک کپ پلایا جس سے اُس میں بھرپور توانائی دکھائی دی۔ اُس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اُس نے اپنی زندگی کے متعلق بتانا شروع کیا۔ یہ بہت دُکھ کی بات ہے، شاید اس سے بڑا کوئی دُکھ نہیں کہ انسان دن رات اپنے گھر میں، اپنی ذات میں تنہا ہو۔ اُس کے پاس کوئی دوست نہ ہو جس پر اعتماد کرتے ہوۓ وہ اس پر اپنا پیار نچھاور کر سکے، اُسے اپنی قربت کا احساس دلا سکے۔
اس کی پُرخلوص باتیں مجھے بہت متاثر کر رہی تھیں۔ میں یہ سب سُن کر جذباتی ہو گیا تھا۔ وہ نوجوان تھی، شاید بیس سال کی ہو گی۔ میں نے اُس کی تعریف کی جو اُس نے خوش دلی سے قبول کر لی۔ جب کافی وقت گزر گیا تو میں نے اُسے ٹیکسی پر گھر تک چھوڑنے کی دعوت دی۔ اُس نے میری دعوت قبول کر لی اور ہم ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ ہم ایسے ساتھ مل کر بیٹھے تھے کہ ہمارے  جسم ایک دوسرے  کا لمس محسوس کر رہے تھے ۔
جب ٹیکسی اس کی بلڈنگ کے آگے رکی تو وہ آہستہ سے بولی،
“میں چوتھی منزل پر رہتی ہوں، میں اتنی طاقت محسوس نہیں کر رہی کہ تنہا اوپر جا سکوں۔ آپ کا رویہ میرے ساتھ بہت اچھا ہے۔ کیا آپ سہارا دے کر مجھے دروازے تک چھوڑ آئیں گے؟ ”
میں نے بہت شوق سے یہ بات قبول کر لی۔
وہ بمشکل سانس لیتے ہوئے میرے ساتھ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
دروازے پر پہنچ کر اُس نے مجھ سے کہا:
” آپ کچھ دیر کے لیے اندر تشریف لے آئیے، تاکہ میں آپ کا شکریہ ادا کر سکوں “۔
حیرانی کی کیفیت لیے میں اندر داخل ہو گیا۔
اُس کی رہائش گاہ میں ہر چیز مناسب قیمت تھی، لیکن سادگی اور سلیقہ مندی سے رکھی ہوئی تھی۔
ہم ایک چھوٹی نشست پر ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ اُس نے دوبارہ اپنی تنہائی کا ذکر چھیڑ لیا۔

اس نے اپنی خادمہ کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی، تاکہ وہ مجھے مشروب پیش کرے۔ وہ نہیں آئی۔ میرے خیال میں وہ گھر کی صفائی والی ملازمہ ہو گی جوصبح کے اوقات میں آتی ہو گی۔ میں بہت خوش تھا۔
اُس نے اپنے سر کی پوشاک اتار لی اور میری طرف اداۓ دلبری سے دیکھنے لگ گئی۔ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایسی محبت کی دعوت تھی کہ میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے اُسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اُس کی بند ہوتی پلکوں پر بوسے دینے شروع کر دیے۔ وہ میری آغوش سے آزاد ہوتے ہوۓ بولی، بس کیجیے، بس کیجیے نا۔
تب میں نے اُس کے لبوں پر اپنے لب رکھ کر بوسہ لیا۔ اُس نے اپنا وجود مجھے سونپ دیا۔ ان پُر جوش لمحات کے بعد جب ہماری نظریں ملیں تو محسوس ہوا کہ ٹونکین میں مارے جانے والے کپتان کی یاد مدھم پڑ گئی ہے۔ میں نے دیکھا اب اُس کے ذکر پر اس کے چہرے کے تاثرات بہت کمزور اور پھیکے ہیں۔ اس بات نے مجھے تسلی دی۔
میں اُس کی دلجوئی کرنے لگ گیا اور کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد میں نے کہا:
“آپ رات کا کھانا کہاں کھاتی ہیں؟”
“ساتھ والے چھوٹے سے ریستوران میں۔”
“بالکل تنہا؟”
“جی ہاں، کیوں؟”
“آج میرے ساتھ کھائیں گی؟۔”
“کہاں؟”
“بلیوارڈ کے ایک عمدہ ریستوران میں۔”
وہ کچھ ہچکچا رہی تھی۔ میں نے اصرار کیا۔ اُس نے میری دعوت قبول کر لی۔ خود سے معذرت کا انداز اپناتے ہوۓ اس نے کہا میں اکیلی ہوں۔ بالکل تنہا ہوں۔ پھر وہ کہنے لگی مجھے کوئی کم شوخ لباس پہننا چاہیے اور اپنی خواب گاہ میں چلی گئی۔ جب واپس آئی تو سرمئی وکٹورین لباس پہنے ہوۓ تھی۔ وہ بہت پروقار، پُرکشش اور گُل اندام حسینہ لگ رہی تھی۔ اس کا مطلب وہ قبرستان اور شہر کے لیے مختلف لباس رکھتی تھی۔

کھانا بہت لذیذ تھا۔ اُس نے ہلکی زرد جھاگ والی شراب پی، جس نے اُس میں نکھار اور زندگی کی رمق پیدا کر دی۔ ہم واپس گھر آگئے۔ قبرستان میں شروع ہونے والی یہ محبت تین ہفتے تک جاری رہی۔ لیکن جیسے ہم ہر چیز سے اُکتا جاتے ہیں، خاص طور پر خواتین سے۔ میں نے بھی اُس سے ایک ناگزیر سفر پر جانے کا بہانہ بنایا۔ اُس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں جلد واپس آؤں گا اور آتے ہی اُس سے ملوں گا۔ ایسا لگ رہا تھا اُسے مجھ سے محبت ہو گئی ہے۔

زندگی کی مصروفیت نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کر لی تھی۔ یہ تو ایک ماہ پہلے کی بات ہے کہ مجھے اپنی قبرستان والی محبوبہ کا خیال ستا رہا تھا۔ بلاشبہ میں اُسے بھولا نہیں تھا۔ اُس کے دوبارہ خیال نے مجھے اُس کا پراسرار انداز یاد کروا دیا، جیسے کوئی مبہم نفسیاتی مسئلہ ہو یا کوئی ایسا ناقابل فہم سوال جس کا جواب کسی مخمصے میں ڈال دیتا ہے۔

ایک دن مجھے نہیں معلوم کیوں میں یہ سوچ کر موماخت کے قبرستان چلا گیا، کہ شاید آج بھی اُس حسینہ سے ملاقات ہو جاۓ گی۔ میں وہاں کافی دیر پھرتا رہا، مجھے کوئی جاننے والا نہیں ملا۔ لیکن وہ لوگ ضرور وہاں تھے جنہوں نے ابھی تک مرنے والوں کے ساتھ اپنا تعلق بحال رکھا ہوا تھا۔
ٹونکین میں مرنے والے کپتان کی سنگ مرمر سے بنی قبر پر کوئی سوگوار نہیں تھا، نہ ہی کوئی پھول یا گلدستہ رکھا ہوا تھا۔
لیکن جب میں اس شہر خموشاں کی دوسری سمت گیا اچانک وہاں ایک چوراہے کی تنگ راہ گزر پر گہرے غم میں ڈوبے ہوۓ دو فرد مجھے اپنی طرف آتے دکھائی دیے۔ ایک عورت اور ایک مرد تھا۔ اوہ، یہ کیا غضب ہو گیا۔ جب وہ میرے قریب پہنچے میں نے پہچان لیا۔ یہ تو وہی حسینہ تھی۔
اُس نے مجھے دیکھا، وہ شرمندہ دکھائی دے رہی تھی۔ تنگ راہ گزر کی وجہ سے وہ چھوتی ہوئی میرے قریب سے گزری اور اپنی آنکھوں کے خفیف اشارے سے مجھے کہا کہ میں انجان بنا رہوں۔ اُس کی آنکھیں یہ پیغام بھی دے رہی تھیں، کہ میرے محبوب میری زندگی میں واپس لوٹ آؤ۔
وہ تقریباً پچاس سال کا ایک نفیس، وضع دار اور بڑے فوجی اعزاز کا حامل شخص تھا۔ اور میری طرح اُس حسینہ کو اپنے بازؤوں کے سہارے قبرستان سے باہر لے جا رہا تھا۔

آخر اس ملاقات کا کیا مطلب تھا؟ قبرستان کی اس شکاری حسینہ کا اصلی چہرہ کیا ہے؟
میں خود سے یہ سوال کرتے ہوۓ حیرانی کے عالم اپنے راستے کی طرف چل پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا وہ ایک عام سی لڑکی تھی جو قبرستان میں افسردہ آدمیوں کی تلاش میں جاتی تھی جو کسی خاتون، بیوی یا محبوبہ کا سوگ منانے آتے تھے اور نہ مٹنے والے پیار کی یاد اُن کو پریشان رکھتی تھی۔
کیا پتہ وہ منفرد ہو؟ ہو سکتا ایسی اور عورتیں بھی ہوں؟ شاید پیشہ ور طوائفیں ہوں؟ کیا یہ عورتیں قبرستان میں بھی اپنے جسم کی نمائش کرتی ہوں گی جیسے اپنی گلیوں میں کرتی ہیں؟
یا صرف یہی حسینہ کسی ایسے گہرے فلسفے سے متاثر تھی جو قبرستان جیسی جگہوں میں یادوں اور محبت کو فروغ دینے کے خیال پر مبنی ہو؟
میں تو صرف یہ جاننا پسند کروں گا کہ اُس مخصوص دن وہ کس کی بیوہ بنی ہوئی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply