• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فوج کبھی نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان دو لخت ہو۔۔۔عبدالحنان ارشد

فوج کبھی نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان دو لخت ہو۔۔۔عبدالحنان ارشد

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مطالعہ پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے- جنرل یحٰی کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی ہوس نے ملک کو دولخت کر دیا تھا- جنرل یحٰی خان نے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جنرل یحٰی نے اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اور پاکستان کو بچانے کے لیے جھکنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر بھیج دیا گیا۔ جس کو آج بھی بنگال کے لوگ قسائی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

یحٰیی خان نے مشرقی پاکستان جا کر وہاں حالات بہتر کرنے کی بھی کوشش کی۔ جس میں شیخ مجیب سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ باقی بنگالی سیاسی جماعتوں سے خصوصاً مولانا بھاشانی سے‏‎‌‍ ملاقاتیں شامل تھیں۔ یہاں یہ بات غور کرنے والی ہے کہ ہمارے فوجی بھائیوں نے شیخ مجیب کو ایک انقلابی لیڈر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مشرقی پاکستان کے لوگ مجیب کو ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے، لیکن مغربی پاکستان کی کسی جماعت کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے تھے۔ یحٰیی خان نے شیخ مجیب کے چھ نکات ماننے کا بھی واضح اشارہ دے دیا تھا۔ (آج ہم کہتے ہیں مجیب الرحمن غدار تھا۔ اُس نے اپنے چھ نکات پیش کئے تھے۔ ہمارے لوگوں کو اُن نکات میں سے بغاوت کی بو آنے لگ گئی تھی۔ کیا اٹھارویں ترمیم کے بعد ہم تقریباً تقریباً اُس کے پیش کردہ نکات کوہی نہیں مان چکے؟)- لیکن پاکستان کے انقلابی لیڈر کہلائے جانے والے محترم بھٹو صاحب کو یہ کسی طرح بھی منظور نہیں تھا، جن کا ساتھ جنرل پیرزادہ، جنرل حامد اور جنرل عمر دے رہے تھے۔ یہ چند جرنیل تھے جو یحٰیی خان پر لگاتار مشرقی پاکستان میں آپریشن کے لیے پریشر ڈال رہے تھے- یحٰی خان نے جب بھٹو کو چین بھیجا کہ وہاں سے کچھ مدد حاصل کی جائے تو چین سے پیغام آیا آپ لوگ آپریشن نہ کریں یہی آپ کے مفاد میں بہتر رہے گا اور اسی صورت چین آپ کی مدد کر سکے گا۔ بھٹو صاحب نے واپس آکر اطلاع دی، چین آپریشن کی صورت میں ہماری مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ بھٹو صاحب کی اس بات نے یحٰیی خان کو آپریشن کے متعلق سوچنے کا جواز فراہم کردیا۔ یہی بھٹو صاحب چاہتے تھے۔ اگر کسی کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا آخری ذمہ دار قرار دے کر لعن طعن کی جانے چاہیے تو وہ بھٹو کے سوا کوئی دوسرا شخص نہیں ہونا چاہیے۔

فوج کبھی نہیں چاہتی تھی کہ پاکستان دو لخت ہو اور نہ ہی دو لخت کرنے کا کبھی تصور کیا تھا۔ اور اسی کے پیش نظر انہوں نے علیحدگی پسند ساری تحریکوں کو کچلنے کے لیے اور اپنی انا کی تسکین کے لیے بغیر کسی نتیجہ اخذ کیے رات کے اندھیرے میں 24 مارچ کی درمیانی شب فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ڈوریاں تو بہت پہلے سے آ چکی تھیں، اب تو صرف رکھ رکھاؤ ہی چل رہا تھا، یہ تعلق ایک کچے دھاگے کی مانند تھا دونوں سروں کو کو‎‌ئی   بھی کھینچ کر  کبھی بھی الگ کر سکتا تھا۔
اس اندھا دھند کارروائی نے پاکستان کی بنیادوں پر کلہاڑی چلا دی تھی۔ اور اس آپریشن کے بعد مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ نہیں رہ سکتا تھا۔ 25 مارچ سے شروع کیے جانے والے اِس آپریشن میں دو راتوں کے دوران ہزاروں لوگوں کو بے رحمی اور درندگی سے داعی اجل کے حوالہ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے طالب علم جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ فوج ڈھاکہ کی سڑکوں پر گشت کرتی پھرتی تھی۔جس پر بھی شک گزرتا اسے بے دردی سے مار دیا جاتا تھا۔

فوج کے یہ فرزانے ہر صورت وطن بچانا چاہتے تھے،اور اسِ امر کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی مختصر عقل کے مطابق آپریشن والا قدم اٹھایا تھا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے فوج کا کام سیاست کرنا نہیں ہوتا۔ کیونکہ عقل و دانست والے فیصلے کرنا اِن کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان کا کام بیرکوں میں ہی ہے نہ کہ ملکی سیاست پر دخل انداز ہونا۔ لیکن اتنے تلخ واقعات پیش آنے کے باوجود ان کے کانوں پر جوں ریگنے کا نام نہیں لے رہی۔

آخر کار اگرتلہ سازش کیس (کچھ دستاویزات کہتی ہیں شیخ مجیب اگرتلہ سازش میں شامل تھا اور کچھ دستاویزات کے مطابق شیخ مجیب کو پھنسایا گیا تھا) سے شروع ہونے والا ہنگامہ آخر جنرل نیازی کے ریس کورس میں دستخط سے دم توڑ گیا۔ اور پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں جنرل نیازی کو ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے۔ لیکن میرا ماننا ہے جنرل نیازی کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ یا تو وہ اپنے جوان مروا لیتا یا ملک کو خفت کا شکار کر لیتا۔ اور اس نے ہتھیار ڈالنا بہتر جانا، جو کہ ایک بہتر حکمتِ علمی مانی جا سکتی ہے، کیونکہ ایک لاکھ سپاہی کا جنگ میں مارا جانا عام بات نہیں تھی، وہ بھی پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کے لیے- ایک لاکھ پاکستانی فوج، پانچ لاکھ ہندوستانی فوج اور دو لاکھ بنگالی جنگِ آزادی کے مجاہدین کےنرغے میں آِچکی تھی۔ سپاہیوں کا حوصلہ پست ہو چکا تھا،ان میں لڑنے کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ رسد و سامان کی سپلائی لائینیں کٹ چکی تھی۔ بھارت فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی عائد کر چکا تھا، ایسے میں پاکستان کو  جنگی سپلائی کے لیے لمبے راستہ استعمال کرنا پڑ رہا تھا جبکہ بھارت دس منٹ کی مسافت پر رسدوسپلائی مہیا کیے ہوئے تھا۔ ایسے میں جنگ لڑنا بیوفوقی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔

بنگلہ دیش اصل میں 26 مارچ 1971 کو دورانِ جنگ میجرضیاء الرحمن کے اعلان کے بعد ہی وجود میں آ گیا تھا۔جنگ بنگلہ دیش کے اندر لڑی جا رہی تھی اور مجیب نگر کی عبوری حکومت نے اپنا ہیڈ کوارٹر بالی گنج کلکتہ میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔یہ سارا معاملہ قدرے ناموافق اور عقل سے بعید نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: فوجی قیادت میں صرف جنرل ییی خان کو شمار کرکے لعن طعن نہ کیا جائے۔ فوجی قیادت میں جنرل پیرزادہ، جنرل حامد اور جنرل عمر کو بھی شمار کرکے ایک ساتھ گالیاں دی جائیں۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply