فیض،کشمیر اور آج۔۔۔ انعام رانا

(فیض امن میلہ لندن میں پڑھا گیا)

حاضرین گرامی،
ہمارے آج کے تینوں شعرا فیض، کیفی اور ایاز میں ایک شئے مشترک ہے۔ ان تینوں کی آوازیں ظلم و استبداد کے خلاف متحرک رہیں۔
آج سوئے اتفاق ایک ایسا دن ہے جس نے جبر اور ظلم کی بنیاد رکھی۔ آج، چھبیس اکتوبر ہے، جب مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستانی قبائلیوں کے حملے سے گھبرا کر افراتفری میں کشمیر کا الحاق ہندوستان سے کر دیا۔ 72برس قبل آج ہی کے دن اٹھائے ہوئے قدم نے کشمیری قوم کو تقسیم کیا اور انکی آزادی کو قید کر لیا۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ پچھلے 82دن سے ہندوستان کے زیرِانتظام کشمیر میں عوام اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہیں کہ ان کی آزادی کے تابوت میں ایک فاشسٹ حکومت نے پانچ اگست کو اپنے تئیں آخری کیل ٹھوک دیا۔ دوسری جانب پاکستانی کشمیر میں بھی آزادی کی آواز اٹھانے والوں پر پولیس نے چار دن قبل شدید لاٹھی چارج کیا۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے درمیان کامریڈ نور ظہیر موجود ہیں۔ کامریڈ نور نے کشمیر کی صورتحال کو پہلے بھی اور حالیہ دنوں میں بھی خود دیکھا اور یقیناً وہ زمینی حقائق پہ زیادہ بہتر بات کریں گی۔

میں یہاں ہمارے محبوب فیض کے کشمیر سے متعلق ایک حل کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ فیض صاحب نے شمیم احمد شمیم کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر پہ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہاں اس انٹرویو سے کشمیر سے متعلق مختصر حصہ پیش کرتا ہوں۔

وہ کہنے لگے
“ آپ کو معلوم ہے کہ شیخ صاحب (شیخ عبداللہ ) نے میرے نکاح پڑھا  ہے ، اور نکاح نامے پر صادق صاحب، بخشی صاحب اور ڈاکٹر نور حسین، کے ایچ خورشید کے دستخط گواہوں کی حیثیت سے ثبت ہیں۔ اس لحاظ سے میرا نکاح نامہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
آپ آخری بار کشمیر کب گئے تھے؟ میں نے دریافت کیا

میں آخری بار ۱۹47 میں گیا تھا۔ 15 اگست کو جب ملک تقسیم ہوا تو میں وہیں تھا۔ میں 24 اگست کو سرینگر سے چلا تھا۔ کشمیر کا جھگڑا شروع ہو گیا تھا جو سلجھنے کے بجائے روز الجھتا ہی جا رہا تھا۔

آپ کے خیال میں اس الجھن کا کیا حل ہو سکتا ہے؟ میرے اندر کے اخبار نویس نے مجھے پوچھنے پر مجبور کر دیا۔
بھئی! مسئلہ اتنا الجھا ہوا ہے کہ اس کا کوئی آسان حل تجویز کرنا بڑا مشکل ہے۔ بدقسمتی سے دونوں طرف سے ایکسٹریم پوزیشن لی گئی ہیں اور نتیجہ یہ کہ بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو سلجھانے کے امکانات روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں انتہاپسندی میں ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتی ہیں۔ ان حالات میں کوئی حل تجویز کرنا بے معنی بھی ہے اور مشکل بھی۔ ایک بات ہو سکتی تھی کہ دونوں حکومتیں اپنے موقف پر قائم رہنے کے بعد بھی باہمی گفت و شنید کا سلسلہ جاری رکھ سکتی تھیں۔ جس طرح چینی اور امریکی شدید اختلافات کے باجود وارسا میں ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان اور پاکستان بھی کسی غیر جانبدار ملک میں مفاہمت اور مصالحت کی کوششیں جاری رکھ سکتے تھے۔

لیکن موجودہ پوزیشن یہ ہے کہ پاکستان کہتا ہے کہ کشمیر کا جھگڑا حل کرو۔ ہندوستان کہتا ہے کہ کشمیر کا کوئی جھگڑا ہے ہی نہیں۔ اصل جھگڑے کے وجود سے انکار کرنا غلط ہے اور میں نے ہندوستان میں اکثر دوستوں سے یہ کہا کہ یہ پوزیشن غلط ہے۔ ابھی ہندوستان میں اپنے مختصر سے قیام کے دوران بعض دوستوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کو مطمئن کریں گے۔ وہ کہنے لگے پاکستان پھر بھی مطمئن نہ  ہو گا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان پھر مطمئن نہ  ہو گا۔ لیکن پھر پاکستان کے موقف میں پہلے  جیسی قوت باقی نہ  رہے گی۔

مجھے محسوس ہوا کہ فیض کے دل میں کشمیر کا درد ہے۔ ان کی زبان سے میں نے کشمیر کے متعلق ایسی بات سُنی جو کسی دوسرے پاکستانی سے نہیں سُنی۔ کہنے لگے:
کشمیر کا بہترین حل یہ ہے کہ دونوں ممالک کشمیر کو الگ چھوڑ دیں اور کشمیر ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے دونوں ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ بالآخر یہی ہو گا۔ لیکن بڑی خرابی کے بعد۔ آپ لوگوں کو دونوں طرف سے یہی مطالبہ کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سو حاضرین گرامی، آج اس تاریخی پلیٹ فارم سے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں کشمیر کی عوام کو اپنی قسمت اور اپنی آزادی کا فیصلہ خود کرنے دیں خواہ وہ ایک خودمختار کشمیر ہی کیوں نہ ہو۔ ان پہ روا رکھے گئے ہر ظلم کو فورا ً بند کریں۔ہندوستان کی جانب سے 82 دن سے جاری ظلم فوراً بند کر کے شہری اور سیاسی آزادیاں بحال کی جائیں۔
کشمیر زندہ باد، آزادی پائندہ باد!

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply