ادبی فائل/دوزخی(پہلی قسط،الف)۔۔۔مشرف عالم ذوقی

’آپ سیدھے جہنم میں جائیں گے‘
’تمہاری جنت میں تو جانے سے رہا۔‘
’لیکن ڈرہے۔ آپ جہنم سے بھی نکال دیئے جائیں گے‘
’پھر تمہاری دنیا میں واپس آجاؤں گا۔‘

تیس اکتوبر صبح کے ۵ بجے۔ پرانی عادت ہے۔ ۔فریش ہونے کے بعد کچھ دیر تک ٹی وی پر خبریں سنتا ہوں۔ پھر اخبار کے آنے کا انتظار کرتا ہوں۔ اس وقت ٹی وی پر ایک چہرہ روشن ہے۔ مگر میری آنکھیں دھند میں اتر چکی ہیں۔ یادوں کی ہزار پرچھائیاں ہیں جو اس وقت میری آنکھوں کے آگے رقص کررہی ہیں۔۔

شام ۳ بجے۔ لودھی روڈ کا شمسان گھاٹ۔ یہاں میڈیا اور راجندر یادو سے محبت کرنے والوں کی ایک بھیڑ جمع ہے۔ آنکھیں اشکبار ہیں۔ بھیڑ میں منوبھنڈاری بھی ہیں۔ یادو جی کی شریک حیات۔ زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ تو رہا مگر منوجی نے یادو جی کی زندہ دلی، آزاد زندگی سے گھبرا کر اپنی الگ دنیا آباد کرلی۔ یہ دنیا اخباروں رسائل میں نظر آتی تھی۔ منوجی کی آپ بیتی میں اکثر یادو جی کی خبرلی جاتی تھی۔ مگر مجھے یاد ہے۔۔۔۔ شاید ہی یادو جی نے کبھی منوجی کے خلاف کوئی لفظ بولا ہو۔ یہ رشتوں کے احترام کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ تھا جسے وہ کبھی توڑ نہیں پائے۔ میں نے پلٹ کر منوجی کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں گزری ہوئی یادوں کا سیلاب آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا۔

شمسان گھاٹ میں ایک چبوترہ ہے۔ چبوترے پر سفید کپڑوں میں ایک سرد جسم کو آخری سفر پر بھیجنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ پجاری شلوک پڑھ رہا ہے۔رچنا (یادو جی کی بیٹی) کے ہاتھوں میں ایک گھڑا ہے اور رچنا کے ساتھ، یادو جی کے ساتھ ہمیشہ رہنے والا وہ نیپالی لڑکاکشن بھی ہے، اس وقت وہ بیٹے کا فرض انجام دے رہا ہے۔ عام طور پر آخری رسوم میں بیٹیوں کو شریک نہیں کیا جاتا۔۔میں ارچنا کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کررہاہوں۔ وہ گھڑے کو لے کر چبوترے کے چاروں طرف گھوم رہی ہے۔ پجاری شلوک کا پاٹھ کررہے ہیں۔ ارچنا رکتی ہے۔۔ اور گھڑے کو چبوترے پر توڑ دیتی ہے۔ میرے ساتھ کھڑے ہوئے آچاریہ سارتھی کہتے ہیں۔ گھڑے کو توڑے جانے کا مطلب ہے، اب یہ دنیا وی رشتہ اس لمحہ سے ختم ہوگیا۔

میں دیر تک شمسان میں رہا۔ چتا سے آگ کے شعلوں کے تیز ہونے تک۔۔ وہاں موجود ہر کوئی رو رہا تھا۔ان میں وہ لوگ بھی تھے جو زندگی بھر یادو جی کے معترض رہے مگر یہ یادو جی کی شخصیت کا ہی ایک پہلو تھا کہ میں نے انہیں کبھی کسی کے خلاف بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔

وہ سب کے دوست تھے اوریہ کہنا مشکل تھا کہ وہ سب سے زیادہ کس کے قریب ہیں۔ کوئی بھی ان سے آسانی سے مل سکتا تھا۔ وہ کسی کو بھی اجنبی نہیں سمجھتے تھے۔ ہنس کے دفتر میں آنے والا اجنبی بھی ان کا دوست ہی ہوتا تھا۔ وہ زور سے  ٹھٹھا لگا کر  ہنستے تھے اورایسا بہت کم ہوتا جب ان کے چہرے پر تشویش یا الجھن کے بادل ہوتے تھے۔ کم ازکم میں نے دِلی آنے کے بعد تک کسی بھی ملاقات میں ان کے چہرے پر ایک شکن تک محسوس نہیں کی۔ وہ مجھے پیار سے کبھی شیطان کبھی جن کہتے تھے۔ میں ایک ہفتہ بھی نہیں ملتا تو ان کا فون آجاتا۔ فون اٹھاتے ہی پہلا جملہ ہوتا۔ کہاں ہو شیطان۔ پھر دوسرا جملہ ہوتا۔ آجاؤ۔۔ ِدلی کی اب تک کی زندگی میں اس زندہ دل چہرے کو دیکھتے ہوئے بس ایک ہی آواز اندر سے اٹھتی تھی۔۔ عشق نے شرح عشق کو بلندیوں سے ہمکنار کیا۔۔ یہ ان کی گفتگو کا کمال تھا کہ چھوٹی عمر سے بڑی عمر کی عورتوں تک سب ان سے عشق میں مبتلا تھیں اور ہر عشق ایک نئی کہانی کے دروازے کھول دیتا۔ پھر اخبار کے اخبار رنگ جاتے۔ ایک سے بڑھ کر ایک سرخیاں۔ اور یہ کہنا مشکل تھاکہ ان خبروں کامزہ کون لے رہا ہے۔ اخبار والے یا خود یادوجی۔ سونی سنگھ سے لے کر جیوتی کماری تک جو بھی ان سے ملا ، کہانیوں کے آسمان روشن ہوگئے۔ ہندی کی خواتین افسانہ نگاروں میں وہ کشن کنہیا کی طرح مقبول تھے۔ اور یادوجی کی خوبی یہ تھی کہ وہ کچھ بھی چھپا کر رکھنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کہانیاں تھیں جوان کے ذکر کے ساتھ بنتی چلی جاتی تھیں۔ وہ ان کہانیوں پر دل کھول کر ہنسا کرتے اورمزے لیا کرتے۔

یادو جی اپنا جنم دن دھوم دھام سے منایا کرتے تھے۔ اس دن سب سے دلچسپ ہوتاتھا انہیں قریب سے دیکھنا۔ وہ گوپیوں کے درمیان ہوتے تھے۔ ان کے چاروں طرف رادھا اورگوپیاں ہوتی تھیں۔ انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ہوتی تھی کہ کون ان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہے۔ وہ جینا جانتے تھے۔ اور زندگی کو اپنی شرطوں پر جیتے تھے۔ شاید اسی لیے منوجی سے شادی کے بعد وہ اس بندھن کو زیادہ دنوں تک نبھا نہیں سکے۔ یہ محبت کی شادی تھی۔ آگرہ کا دل پھینک شاہ زادہ اورادب میں بلندیوں کے نئے آسمان کو چھونے والی منو بھنڈاری۔ اوریہ وہ دور تھا جب کملیشور، راجندر یادو اور موہن راکیش کی تکڑی، مشہورتھی۔ ان میں موہن راکیش پہلے چلے گئے۔ پھر کملیشور بھی چلے گئے۔ لیکن راجندر یادو اپنی بیباک طبیعت اور زندہ دل قہقہوں کے ساتھ ہندی ادب کی نہ صرف رہنمائی کرتے رہے بلکہ ایک ساتھ پانچ نسلوں کی رہبری کا سفر بھی ان کے نام ہی منسوب رہا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب ہندی کہانی دھند میں کھو چکی تھی۔ 80 کے آس پاس بڑے نام خاموش ہوگئے تھے۔ یہ راجندر یادو ہی تھے جنہوں نے پریم چند کے ہنس کو زندہ کیا۔ اور ہنس کی اشاعت نے نہ صرف اس خاموشی اور خلاءکو پُر کیا بلکہ نئے افسانہ نگاروں کی ایک ایسی فوج تیار کی کہ اس کے بعد ہندی فکشن نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ اور نئی نسل کے بے شمار ناموں تک یہ راجندر یادو اور ہنس کا ہی کرشمہ تھا کہ اس نے سوئے ہوئے ہندی ادب میں جان پھونکنے کا کام کیا تھا۔ ہنس کے ساتھ اکچھرپرکاشن کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ کچھ کتابیں شائع کی گئیں مگر جلد ہی یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی ہنس کو ایک ٹرسٹ کی شکل دے دی تھی۔ وہ ہنس کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ ادئے پرکاش، شیومورتی، سنجیو، اکھیلیش، ہندی کہانی کے افق پر جگمگاتے ان ستاروں کی تلاش میں راجند ر یادو کا ہی حصہ تھا۔

ادب کا ایسا کمٹمنٹ ایسا جنون شاید آنکھیں کھولنے کے بعد میں نے کہیں اورنہیں دیکھا۔ انہوں نے زندگی کا سکھ چین کھویا۔ رشتوں کی پراوہ نہیں کی۔ گھر ہوتے ہوئے بھی ساری زندگی بے گھر رہے۔ منوجی شریک حیات تھیں اور ساتھ ہی ہندی فکشن کا ایک معتبر نام بھی۔ یہ رشتہ کسی طرح انیس سو پچانوے تک نبھایا گیا۔ پھر منوجی اپنی بیٹی کے ساتھ الگ ہوگئیں۔ یادو جی زندگی میں کبھی بھی ان رشتوں کے لیے جذباتی نہیں ہوئے مگر مجھے یاد ہے۔۔۔۔ دوسال قبل ایک ملاقات میں انہوں نے کہاتھا، وہ اپنی بیٹی کے ساتھ بھی کچھ نہیں کرپائے۔ مگر یہی بیٹی، ارچنا یادو آخری سفر میں ایک بیٹے کا فریضہ انجام دے رہی تھی اور بقول ارچنا یادو، میرے ڈیڈی میرے آئیڈیل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک زندگی ان رشتوں کو سمجھنے کے لیے کم ہوتی ہے۔۔ آخری کچھ برسوں میں یادو جی منوجی کے قریب آگئے تھے۔ رشتوں کا احساس زندہ ہوگیاتھا۔ مگر یادو جی کے ساتھ چلنے والی رومانی کہانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ بیٹی کی شادی کے موقع پر ہندوؤں میں کنیا دان کی رسم ہوتی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ سماج کے زور دیئے جانے کے باوجود راجندر یادو اس رسم میں اس لیے شریک نہ ہوئے کہ ان کا کہنا تھا، کہ کنیا کادان نہیں کیا جاتا۔ بیٹی تو آنکھوں کا تارہ ہوتی ہے۔ اوراسی کا دوسرا پہلو دیکھیے کہ یہی کنیا (رچنا یادو) آخری سفر میں بیٹے کا رول نبھاتی ہوئی اشکبار آنکھوں سے اپنے باپ کو الوداع کہہ رہی تھی۔

84سال کی کی زندگی ملی تھی راجندر یادو کو۔ اس لمبی زندگی میں جس طرح انہوں نے ادب کی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ دلی آنے کے بعد میرا بیشتر وقت ان کے ساتھ گزرا ہے۔ میں نے اردو اور مسلمانوں کے لیے ان کے اندر کے درد اور جذبے کو قریب سے محسوس کیا ہے۔ راجندر یادو نے باضابطہ اردو زبان کی تعلیم لی تھی اور انتقال سے قبل تک انہیں اردو پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی تھی۔ ان کے رسالہ ہنس میں اردو کو خصوصی طور پر ترجیح دی جاتی تھی۔ وہ ساری زندگی اردو سے قریب رہے۔ جب نامور جی نے اردو کی مخالفت میں ’باسی بھات میں خدا کا ساجھا‘مضمون ہنس میں لکھا تو اردو کی حمایت میں اس وقت کے تمام بڑے لکھاڑی ایک منچ پر آگئے تھے۔ وہ اکثر مجھ سے اردو اور پاکستا نی تحریروں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔ پھر کہتے تھے، فلاں  تحریر میرے رسالہ میں دے دو۔ ہنس میں میری تحریروں کو بھی وہ مسلسل شائع کرتے رہے۔ بلکہ جب راجندر یادو نے ایک خصوصی شمارہ اصغر وجاہت کے ساتھ مسلمانوں پر شائع کیا تو اس میں ایک بڑی ذمہ داری مجھے بھی سونپی گئی۔ بعد میں وہ حصہ کتابی شکل میں راجکمل پرکاشن سے شائع ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے۔ مجھے یاد ہے، جب نفرتیں ملک کی تقدیر بن گئی تھیں۔ انتخاب ہونے والا تھا، تو پریشانیوں کے باوجود وہ مسلسل میٹنگس کررہے تھے۔ ان کے ساتھ ہندی کے مشہورنقاد نامور جی اور ہندی کے تمام بڑے ادیب بھی شامل ہوتے۔ میں بھی ان محفلوں میں شریک رہا۔ مجھے اس وقت کا انکا چہرہ اب تک یاد ہے۔ وہ کہا کرتے کہ فرقہ واریت کو روکنا ہے۔ یہ ہندستان میں نفرت اور زہر پھیلا رہی ہے۔ جس زمانے میں اسامہ بن لادین نے دہشت گردی کی نئی مثال قائم کی، انہوں نے ہنس میں ایک خطرناک اداریہ لکھا۔ اگر اسامہ دہشت گرد ہے تو پہلا دہشت گرد ہنومان جی تھے۔ انہوں نے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسامہ نے اپنے کام کو ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔ ہنومان جی نے بھی لنکا میں آگ اسی ارادے سے لگائی۔ اسامہ امریکہ گیا تو ہنومان جی نے لنکا کا انتخاب کیا۔ دہشت گردی کی شروعات ہنومان جی سے ہوئی۔ اس اداریہ کا شائع ہونا تھا کہ ہندی ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ فرقہ پرست طاقتوں نے ان پر دنیا بھر کے مقدمے کردیئے۔ ہنس کے دفتر میں ان پر حملہ بھی ہوا۔ مجھے یاد ہے۔ شاید دن کے بارہ بج رہے تھے۔ ان کا فون آیا۔ ذوقی، کہاں ہو۔ جہاں بھی ہو جلدی آجاؤ۔ میں ہنس کے دفتر گیا تو چاروں طرف پولیس ہی پولیس تھی۔ لیکن اس پولیس چھاؤنی میں بھی ایک آزاد بادشاہ اپنے قہقہے بکھیر رہاتھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply