کراچی کے بلدیاتی نہیں بد نیتی انتخابات/شیخ خالد زاہد

پاکستان مسلسل مسائل در مسائل میں ڈول رہا ہے اور کوئی بھی مسئلہ  دوسرے مسئلے سے وزن میں کم نہیں ہے ، یہ کہہ کر بھی جان چھڑائی جاتی رہی ہے کہ بھلا ہمارا کیا لینا دینا، یہ وہ جملہ ہے جس کی مرہون منت ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملک خداداد پاکستان دیوالیہ ہونے کے درپے ہے ۔ شاید پاکستان پہلے کتنی ہی دفعہ دیوالیہ ہوتا رہا ہوگا لیکن پاکستان کا مطلب کیا ؟لا اِلٰہ اِلااللہ کی وجہ سے باقاعدہ ایسا نہیں ہوسکا ۔ بد قسمتی سے ہم نے کبھی بھی سبق نہیں سیکھا ،ہم وہی کرتے گئے جو ہمارے آباءو اجداد کرتے آرہے تھے یعنی بھلا ہمارا ان سب باتوں سے  کیا لینا دینا ۔ اللہ نے پاکستان کی لاج رکھی ہوئی ہے جس کی گواہی یہ ہے کہ پاکستان اتنے بدترین رہنماؤ ں کے ہوتے ہوئے بھی   آج ایٹمی طاقت بنا ہُوا ہے اورکسی بیرونی طاقت کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے ۔

قدرت نے عوام کو کئی بار مواقع فراہم کیے کہ وہ اس بدبو دار نظام کو بدل لے ، اب نظام کو بدلنے کیلئے سب سے پہلے علم کی فراوانی کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ ہمارے نوجوان ان ملکی رہنما وَں کی تقلید سے آزادی حاصل کریں اور ایک ایسے نظام کی عملداری کیلئے جدوجہد کریں جس کی بدولت انصاف کا بول بالا ہو سکے اور نبی پاک ﷺ کے آخری خطبے کو بطور اقتدار   منشور بنایا جائے ۔ یہاں یہ بات لکھنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں گوکہ اس سے پیشتر بھی کئی مضامین میں یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی پاک ﷺ کا آخری خطبہ ہر مسلمان پر واجب قرار پائے کہ وہ ناصرف اسے یاد کرے بلکہ اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور جو کوئی اس سے بھٹکے اسے ریاست قرار واقعی  سزا دے ۔

ایک بہت ہی خوش آئند عمل ،آج ہمارے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جارہاہے ساتھ ہی ہمارے پیارے نبی ﷺ کے آخری خطبے کو بھی باقاعدہ نصاب کا حصّہ بنایا جائے تاکہ ہم مسلمان اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے والے رہنماؤں کی تربیت کریں ناکہ بھیڑچال چلنے والے انسان کہ جنہیں دنیا کی آسائشوں کے حصول کیلئے علم سے رغبت پیدا کی جاتی رہی ہے ۔

ایک طرف تو عام انتخابات کرانے پر زور دیا جارہا ہے، جوکہ تاحال کارگر ثابت ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ،اس کے برعکس گزشتہ دنوں جو تازہ پیشرفت ہوئی ہے پنجاب اسمبلی کا تحلیل ہونا  بھی ممکن ہے، آج بلوچستان اسمبلی بھی تحلیل ہوجائے جسکے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی میں موجودہ وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے جا رہی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ موجودہ حکومت کا سفر یہیں پر تمام ہوجائے اسکے بعد ایک بار پھر تحریک انصاف اقتدار میں آجاتی ہے تو کیا عمران خان صاحب اسمبلی تحلیل کریں گے یا اقتدار میں رہتے ہوئے صدارتی نظام نافذ کرینگے اور پاکستان کے پہلے با اختیار صدارتی نظام کے صدر تعینات ہوجائیں گے گو کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے لیکن عمران خان صاحب کی آئینی ٹیم یقیناً  اس پر بھرپور کام سرانجام دے رہی ہوگی ۔ سندھ پر وفاق کی توجہ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے کہ انکے اتحادیوں کی حکومت اس صوبے میں ہے اور یہاں بھی حالات سنگین ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے فیصلے تاریخی ہونگے کہ وہ کس طرف اور کس نظرئیے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ نظام کی تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے کیونکہ موجودہ نظام اتنا گل سڑچکا ہے کہ اب اس نظام میں چلنے والوں کو بھی اس میں سے تعفن اٹھتا دکھائی دے رہا ہے ۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات  ایک طویل انتظار کے بعد اچانک سے ہوگئے ، صبح   انتخابات کی تاریخ تھی اور شہر کراچی میں بلکہ سندھ بھر میں گمان کیا جارہا تھا کہ یہ انتخابات بھی رات کے کسی پہر میں ملتوی کردیے جائیں گے ۔ شاید اسی گمان کو لے کر متحدہ قومی موومنٹ اور اسکے اتحادیوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا یہ بالکل ویسا ہی ہُوا جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی تھی ۔ متحدہ قومی موومنٹ کو باقاعدہ ایک منظم حکمتِ  عملی کے تحت بندگلی میں لایا گیا اور شہرکراچی کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعت کو دودھ میں سے مکھی کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا گوکہ بظاہر دکھائی دے رہا تھا کہ اس مرتبہ کراچی والے کوئی نیا تجربہ کرنے کا ٹھان چکے ہیں ۔ یہاں متحدہ کی سیاسی حکمت عملی ابھی واضح ہونا باقی ہے بہت ممکن ہے کہ بڑے میدان کیلئے چھوٹے میدان کی قربانی دی گئی ہو لیکن سیاست میں سارے میدان ہی بڑے ہوتے ہیں ۔ یہاں ایک قابل ذکر بات اور بھی ہے کہ کراچی کی عوام نے حسب سابق روایت  سے ہٹ کر ووٹ ڈالنے میں انتہائی کنجوسی کا مظاہرہ کیا اور بہت ہی قلیل تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے نکلے جس کی ایک وجہ ایم کیوایم پاکستان اپنے انتخابات کے بائیکاٹ  کو قرار  دے رہے ہیں ۔ متحدہ کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے یقیناً یہ سوچ لیا ہوگا کہ اب کراچی انہیں مل پائے گا اور وہ اپنا میئر لائیں گے ان کے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب جماعت ِ اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے مل کر کراچی کے بلدیاتی نظام کو چلانے کافیصلہ کر لیا ۔ بظاہر یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن کیا جماعتِ اسلامی کے میئر صاحب جوکہ یقیناً نعیم الرحمٰن صاحب ہونگے یہ کہتے نہیں سنائی دینگے کہ   میں فلاں  فنڈز نہیں دئیے جارہے ،فلاں    کام نہیں کرنے دیا جارہا کیونکہ اپنی بلدیاتی مہم میں حافظ نعیم الرحمٰن صاحب ، سابقہ میئر کراچی وسیم اختر صاحب کے یہ الفاظ دہراتے رہے ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات پہلے بھی سامنے تھیں اب اور زیادہ کھل کر سامنے آرہی ہیں اس لئے ہم نے انہیں کراچی کے بلدیاتی نہیں بدنیتی انتخابات کا نام دینا زیادہ مناسب سمجھا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کراچی اپنے نئے میئر کو خوش آمدید کہنے کیلئے بے تاب ہے ۔ ساری رنجشیں اور سیاسی مباحثے بالائے طاق رکھتے ہوئے کراچی شہر کی تعمیر ِ نوء  کا کام شروع ہونا چاہیے اور اس عمل میں سب کومدعو کیا جائے کہ آئیں کراچی کو واپس روشنیوں کا شہر عروس البلاد   بنائیں ۔ حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کو ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد،بہت سارے دوسرے پاکستانیوں کی طرح   مجھے  بھی آپ کی شخصیت اور کاردگی پر بھرپور اعتماد ہے کہ آپ تمام اہلیانِ کراچی کے دِلوں کی آواز سنیں گے اور کراچی کے کونے کونے سے ہر قسم کی گندگی کا صفایا کرینگے ، کراچی میں ہونے والی چھوٹی بڑی قانون کی دھجیاں اڑاتی وارداتوں پر قابوپانے کی اصلاحات لے کر آئیں گے آپ ایک انتہائی مضبوط اور منظم شخصیت کے مالک ہیں اللہ نے آپ کے کاندھوں پر وہ ذمہ داری ڈال دی ہے جس سے لوگ بھاگتے  ہیں ۔اہلیانِ  کراچی اور شہرِ  کراچی آپ کو کھلے دل سے خوش آمدیدکہتا ہے ۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply