کماری والا ناول میں ثقافتی سماجی اور ساختی عناصر/تبصرہ-نادیہ عنبر لودھی

علی اکبر ناطق شاعر ، افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں ۔ان کا پہلا ناول نو لکھی کوٹھی بے حد مقبول ہوا ۔
ہر معاشرے کی تہذیب اور ثقافت اس کے ادب سے چھلکتی ہے ۔یہ ہی کلامیہ بعض اوقات قاری پر متاثر کن اثرات چھوڑتا ہے ۔ادب کا معاشرتی اور ثقافتی پس منظر اس ناول کماری والا میں علی اکبر ناطق نے سادہ کلامیہ کے ذریعے بیان کیا ہے ۔اسّی کی دہائی کے واقعات جو کہ سیاسی ،سماجی ،ثقافتی ،مذہبی اور فرقہ روانہ لسانیت کے رنگ لیے ہوئے ہیں ناول میں سمو دیے گئے ہیں ۔

جب بھی کسی معاشرے میں کوئی فن پارہ تخلیقی عمل سے گزرتا ہے تو وہ کرداروں کی زبانی ثقافتی پہلوؤں کو بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔معاشرتی عوامل اس عمل میں معاونت کرتے ہیں ۔

لکھاری کی زبان ساختی تبدیلیوں کے تحت کسی مخصوص خطے کی ثقافت بیان کرتی ہے جسے اس ناول کے پلاٹ میں برتا گیا ہے ۔معیاری کلامیہ ثقافت کا فنی ساختہ ہے ۔تخلیق کار مختلف سمتوں میں سفر کرتے ہوۓلسانی ،ساختی ،موضوعاتی اور ثقافتی جہات کو نئی جہتیں دیتا ہے ۔ساختیاتی تبدیلیاں متن کی تہہ میں مسلسل ہوتی رہتی ہیں ۔

علی اکبر نے ناول کے پلاٹ کو اس طرح سے مربوط کیا ہے کہ قاری مسلسل پڑھتا چلا جاتا ہے قاری کا ہاتھ پکڑ کر علی اکبر جس پگڈنڈی پر اسے چلاتے ہیں وہ رکے بغیر چلتا جاتا ہے ۔
اس ناول کماری والا میں علی اکبر نے ایسے درختوں کے نام بیان کیے ہیں جو اُس مقامی زبان میں رائج ہیں جب کہ غیر مقامی افراد کے لیے وہ نئے ہیں ۔دیہاتی منظر نامے کی پیشکش منشی پریم چند سے شروع ہوئی اور اسے کئی ادیبوں نے اپنی تحریروں میں جگہ دی ۔ جدت کے اس دور میں علی اکبر ناطق کا یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے ان کے اس ناول کو مقبولیت ملی اور حال ہی میں اس کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا ۔

آج سے چالیس سال پہلے کے واقعات کو اس طرح اس ناول میں بیان کیا گیا ہے کہ تجسس کی فضا برقرار رہتی ہے ۔ ضامن علی کو اپنی محبوبہ کئی سال بعد ملتی ہے تو اسے پہچان نہیں پاتا اور حیران رہ جاتا ہے ۔

ناول کی ابتدا ایک مسافر سے ہوتی ہے جو کماری والا جانے کے لیے صبح کے وقت کسی سنسان سڑک پر گاڑی سے اتر کر گاؤں کی جانب پیدل سفر شروع کرتا ہے۔اسے اپنی سابقہ محبت کی تلاش ہے ۔
کماری والا ناول کا مرکزی کردار ضامن علی ہے جو کہ فلش بیک تکنیک کے تحت اپنی کہانی سناتا ہے یہ تکنیک اس سے پہلے کئی ناولوں میں برتی گئی مرزاہادی رسوا کا امراؤ جان ادا ،ممتاز مفتی کا علی پور کا ایلی ۔وغیرہ

ناول کی کہانی گاؤں ، شہر ، اسلام آباد ، کراچی کے درمیان گھومتی پھرتی ہے ۔ناول میں ضامن علی کی زبانی ان واقعات کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ ایک دیہاتی بچے نے کم سنی میں دیکھے ان تجربات نے اس کی سوچ اور کردار پر جو اثرات مرتب کیے ان کو لے کر کہانی چلتی ہے ۔

ناول کی فضا میں اسی کی دہائی کی مسائل جن میں ضیا دور کا جبر ،غربت ،افلاس،جنسی تشدد ،اشرافیہ کی منافقت ،پٹھانوں کی امرد پرستی ،افغانیوں سے جڑے مسائل ، افغان جہاد ،منافقت ، جوا مذہبی منافرت ، شعیہ مسلک کے ساتھ ہونے والے مظالم اور دیگر معاشرتی مسائل پر نشتر چلایا گیا ہے ۔

ایک دس سالہ بچہ ضامن جو کہ اپنے  سے بڑی  عمر کی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے اور وہ کسی اور سے شادی کرلیتی ہے ۔کسی بچے کا بڑی عمر کی لڑکی سے محبت میں گرفتار ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ ممتا سے محروم رہا ہے ۔ ماں کی محبت سے محرومی اسے بڑی عمر کی لڑکی کی طرف مائل کرتی ہے ۔اس ناول میں ناطق نے نفسیاتی گرہیں بھی کھولی ہیں ۔ ہمارے معاشرے کی دو غلی سوچ اس کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے ۔

اس ناول کے مطابق جہاد کے نام پر خوبصورت لڑکوں کو افغانستان لے جاکر لواطت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔

ناول کے دو کرداروں مولوی اور عدیلہ کے جو مکالمے ہیں وہ دیہی معاشرت میں ایک نام نہاد مولوی کے قبیح کردار اور غیر ملکی فنڈنگ کے بل بوتے پر غریب والدین کے ناسمجھ بچوں کو بطور کھلونا استعمال کرنے کی لرزہ خیز کہانی کو بیان کرتے ہیں۔

اسی عدیلہ کی بیٹی اور ناول کی ہیروئن زینی جس سے ضامن علی محبت کرتا ہے ڈاکٹر فرح کے بیٹے جنید کے ساتھ بھاگ جاتی ہے۔

کہانی زمین داروں کی روایتی جائیداد کے حصول کے لیے قتل و غارت کے واقعات بھی بیان کرتی ہے اور ہیروئن زینب کی بیٹی شیزا کی المناک موت جو کہ کینسر سے ہوتی ہے اسے بھی لے کر چلتی ہے۔

کہانی کا ہیرو مسسلسل تلاش میں ہے ۔ یہ تلاش انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہے ۔

جن مسائل کا ذکر ان ناول میں کیا گیا آج چالیس سال بعد وہ تناور درخت بن چکے ہیں معاشرے کی گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کی بدولت مڈل کلاس کو اپر کلاس والے مسائل کا سامنا ہے ۔ غریب پسے ہوئے طبقات بدستور جہالت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ بڑھتے ہوئے جنسی تشدد کے واقعات اخلاقی بے راہروی کا نتیجہ ہیں ۔ نیٹ کی ایجاد نے حیوانیت کو مزید بڑھایا ہے ۔
دو گھوڑا بوسکی سے ترقی کرکے عوام brands پر تو آگئی ہے لیکن انہی برانڈڈ ڈریسسز کے حصول اور فاسٹ فوڈ کے لیے عام گھروں کی بچیاں ناجائز دوستیاں کرتی ہیں ۔سیاسی سطح پر بھی حالات دگرگوں ہیں ۔

علی اکبر ناطق کا ناول کماری والا ۸۲ ابواب اور ۶۳۸ صفحات پر مشتمل ہے ۔ناول کے کردار سماج کے جیتے جاگتے انسان لگتے ہیں ۔
پاکستان میں شدت پسندی، بیوروکریسی،جبری گمشدگیاں، منشیات، استحصال، ٹارگٹ کلنگ، معاشی مسائل، فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال، ذخیرہ اندوزی،جنسی تشدد ، اغوا براۓ تاوان ، زبردستی کی شادیاں ، ہوس، گروہی اختلافات، زمین کے جھگڑے، غربت، انتقام، کرپشن، مقدمے، قتل، اور فلمی دنیا اور این جی اوز، نسلی و مذہبی شناختوں پر منظم کمتر بنانے اور نسل کشی جیسے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان میں سے زیادہ تر مسائل کم ہی فکشن کا موضوع بنائے جاتے ہیں ۔ علی اکبر ناطق کا یہ کارنامہ تو ہے کہ انہوں نے معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے ۔ یہ ناول کئی سطح پر قاری سے ہم کلام ہوتا ہے ۔ ناول کی کہانی چلتے چلتے موجودہ آج کل کے دور میں داخل ہوجاتی ہے ۔ ضامن علی کی جوانی اور جوانی کے کارنامے کہانی میں تجسسس کی فضا جو بنائے رکھتے ہیں ۔اکبر علی ناطق نے مسلکی اختلاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قتل و غارت کو موضوع بنایا ہے ۔ انسانیت کی سطح سے گرنے کے بعد آدمی کیا کیا راستے اختیار کرتا ہے ۔کس طرح سے معاشرے خوف وہراس کا شکار ہوتے ہیں ۔ثقافتی اور سماجی روابط کے پس منظر میں لکھی گئی یہ کہانی پڑھنے کے لائق ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply