کمبخت عشق(2,آخری حصّہ)۔۔پروفیسر عامرزرین

جب اِمداَد اپنی لاکھ کوششوں کے باوجود صنم کی قربت سے محروم رہا تو بالاخر اُس نے روائیتی معاشرتی طریقہ کا سہارا لینے کا سوچا اور صنم کا ہاتھ مانگنے کے لئے اپنے بھائیوں اور علا قے کے چند معتبر بزرگوں کو اس مقصد کے لئے بیچ میں ڈالا۔اِمداَد کے کردار سے کون واقف نہیں تھا اور پھر دونوں کی عمروں میں بھی اچھا خاصا فرق تھا، اِسی لئے اس کے باپ اور بھائی نے اس رشتہ سے انکار کردیا۔ اور اگر دیکھا جاتا تو اُن کا یہ فیصلہ درست تھا۔ کون اپنی بیٹی کو جانتے بوجھتے  اندھے کنوئیں میں دھکیلتا۔یہ کوئی غد ر کا زمانہ تھوڑی تھا کہ جب مقامی لوگوں نے اپنی بہو بیٹیوں کی عزتوں کے تحفظ کے لئے انہیں زہر کھانے اور یا پھر کنوؤں میں چھلانگیں لگا نے کا کہا تاکہ وہ ذلت و رُسوائی سے بہتر عزت کی موت تو مرسکیں۔

اِمداَد نے رشتہ سے انکار کو اپنی ندامت ، بیعزتی اور اَنا کا معاملہ بنالیا تھا۔ اُس نے اب بھی اپنے جائز و ناجائز ارادوں سے صنم کے حصول کو دل سے معدوم نہ ہونے دیا تھا۔

صنم کا تعلیمی معیار کوئی خاص تو نہ تھا لیکن پرائمری یا مڈل تک تعلیم کے باعث وہ اُردو تحریر پڑھنا اور چھوٹا موٹا حساب کتاب کر نا جانتی تھی۔ اِمداَد نے ایک دو دفعہ چند سطور پر مشتمل خط اسے بھیجے اور کہیں ملنے کے لئے استدعا کی۔ اس کے لئے اس طرح کا دلیر اور بے باکانہ قدم اُٹھا نا کوئی آسان کام نہ تھا۔ وہ جب بھی اس معاملے کو عملی جامہ پہنانے کا سوچتی اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔ اور کوئی نادیدہ قوت اسے اپنے خاندان کی عزت و حرمت کو محفوظ رکھنے کے لئے ایسا کرنے سے باز رکھتی۔ لیکن آزمائش کا ناگ اُس کے ذہن کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے  کئی طویلیں پیش کرتا تھا ‘‘ اسے دیکھا کہ وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوش نما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کے لئے خُوب ہے تو اُس پھل میں سے لیا اور کھایا ۔’’ اور ایک دن صنم کے من میں یہ قدم اُٹھانے کی آزمائش نے اُسے مغلوب کرلیا۔وہ اس ملاقات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھی۔یہ ایک آزمائش بھی تھی لیکن ساتھ ساتھ بے لگام خواہشات کی آسودگی کا حصول بھی۔ منفی اور نامناسب سوچوں نے صنم کے ذہن کو مکڑی کے جالے کی طرح اپنے حصار میں جکڑ لیا تھا۔
‘‘ اِمداَد ۔۔ میں کل قصبہ کے قریبی ٹیلے پر   تمہیں ملنے آؤں گی۔’’ یہ چند سطور ٹوٹے پھوٹے حروف میں لکھ کر دھڑکتے دل کے ساتھ گھر کا سودا سلف لینے کے بہانے وہ اِمداَد کی دُکان کی طرف چل دی۔عجیب بے قراری، اندیشے اور اضطرابی کیفیت کی دھند، اس کے ذہن پہ چھائی ہوئی تھی۔کبھی بوڑھے باپ اور دن بھر کی محنت مشقت سے تھکے بھائی کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ۔ دوسرے ہی لمحے اِمداَد  کی محبت اُسے اپنے حصار میں لے کر اپنے خاندان کے افراد اور ان کے تصور سے کوسوں  دور لے جاتی۔
دُکان پر پہنچ کر صنم کو مایوسی ہوئی ، اِمداَد اُسے کہیں نظر نہ آیا لیکن جب وہ گھر کے لئے ضروری سودا سلف لے کر مُڑی تو وہ کچھ فاصلے پر کھڑا اُنسیت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ لیکن یہ مقام اور ماحول کوئی بھی بات کرنے کے لئے انتہائی نا سازگار تھا۔صنم اپنی محبت کو ارد گرد کے لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہوئے وہاں کسی کی توجہ کا مرکز بننا نہیں چاہتی تھی۔وقت کو غنیمت جانتے ہوئے اُس نے مٹھی میں بھینچا ہوا چند سطری رُقعہ دھڑکتے دل کے ساتھ اِمداَد کی طرف بڑھا دیا۔اور تیز تیز قدموں اُٹھاتی ہوئی دُکان سے دُور ہوتی گئی۔

صنم جب گھر پہنچی تو اُس کا بوڑھا باپ چارپائی پر بیٹھا ہانپ رہا تھا۔شاید وہ ابھی ابھی کھیتوں پہ کام کرتے کرتے گھر کو لوٹ آیا تھا۔صنم نے پوچھا، ‘‘ بابا ، خیر ہیــ؟ آج اتنی جلدی گھر آگیا ہے۔ لالہ کیوں نہیں آیا؟ ’’ اُس کے باپ نے پانی کا گھونٹ حلق سے اُتارتے ہوئے کہا ، ’’ خیریت ہے! آج ساتھ والے گاؤں سے کچھ مہمان آئیں گے۔’’ غیر ارادی طور پر صنم کا ماتھا ٹھنکا، ‘‘ کون سے مہمان؟کیسے مہمان؟’‘ بیٹی تجھے ساری عمر گھر تھوڑی بیٹھائے رکھنا ہے۔لڑکا اچھا ، سرکاری نوکری ہے’’ اس کے بابا نے سانس لینے میں مشکل محسوس کرتے ہوئے جواب دیا۔صنم نے اس بات کی پریشانی میں کھوئے ہوئے سلور کے گلا س میں اپنے باپ کو پانی تھماتے ہوئے کہا، ‘‘ بابا! میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔’’ ان باتوں کے پس پردہ اس کے ذہن میں سوچوں کا ہجوم لگا ہوا تھا۔ مسلسل ایک سوال اسے پریشان کئے ہوئے تھا کہ ‘‘ کیا کروں،کیا نہ کروں۔’’ اُس کے بابا نے تھوڑا مسکرا تے ہوئے ، اشکبار آنکھوں سے کہا،‘‘ میں اکیلا تھوڑی ہی ہوں، یہ تو ہر ماں باپ کو ، بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرتے ہوئے اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو نبھانے کا فرض ادا کرنا ہی ہوتا ہے، تیری ماں زند ہ ہوتی تو کتنے چاہ سے اس نیک کام کی انجام دہی میں سرگرم نظر آتی۔’’ صنم اپنے بابا کی باتیں سنتے سنتے گھر کے کام کاج اور صفائی ستھرائی میں مصروف ہوگئی۔اس طرح تھوڑی دیر کے لئے وہ ان پریشان کُن سوچوں سے آزاد ہوگئی۔ لیکن  یہ کمبخت عشق  ہاتھ دھو کر اُس کے پیچھے پڑا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شام ڈھلے تین چار مرد اور عورتیں صنم کے گھر کے دروازے پر کھڑے دستک دے رہے تھے۔ مہمانوں کو گھر میں اُتارا گیا۔ چائے پانی سے خاطر مدارت کی گئی۔صنم نے چائے پیش کی۔عورتیں اور مرد اُسے باریک بین نظروں سے گھور رہے تھے  کہ جیسے سر سے پاؤں تک اُس کا ایکسرے کر رہے ہوں۔  جیسے جانوروں کی منڈی سے کوئی جانور خریدنے کے لئے اُسے نظروں سے ناپا تولا جارہا ہو۔ خیر مہمانوں نے چائے کے بعد رُخصت چاہی اور ایک بڑی عمر کی عورت نے صنم کے سر پر ہا تھ پھیرا اور کچھ روپے اُس کے ہاتھ میں تھما دئیے، جو کہ یقیناً اس بات کی نشانی  تھی کہ مہمانوں کو اپنے بیٹے کے لئے صنم کا رشتہ منظور تھا۔مہمانوں نے جاتے ہوئے اس کے بابا کو گھر آنے کی دعوت دی جو کہ اس چیز کا عندیہ تھا کہ رشتہ کی بات آگے بڑھائی جائے اور تاکہ اس نیک کام کو حتمی شکل دی جا سکے۔
صنم کے رشتہ کے لئے مہمانوں کی آمد کی خبر اُڑتے اُڑتے اِمداَد تک پہنچ چکی تھی۔ وہ اس صورتِ حال سے پریشان تو تھا، لیکن کچھ لمحے پہلے تک وصالِ یار کی خوشگوار توقعات پر مایوسی اور نارسائی کی جیسے چادر بچھ گئی ہو۔اِمداَد کا شیطانی ذہن معاملے کی سنگینی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے لگا۔وہ اس تمام صورت ِ حال میں شراب نوشی کا سہار ا لینے پر مجبور تھا۔ شاید ! اسی وجہ سے اُس کا ذہن بہت سوچ بچار کے بعد ایک ناممکن اور ناقابلِ عمل منصوبے کو سر انجام دینے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔
تہجد کی نماز سے کچھ دیر پہلے صنم نے اپنے پاس ہی اپنے بوڑھے باپ اور بھائی کی چارپائی کی طرف نگاہ کی اور اس بات کی تسلی کرلی کہ وہ گہری نیند میں ہیں۔ اُس نے اپنی چارپائی سے اُٹھ کر چپل پہنی اور دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اپنے گھر کے بیرونی دروازے کی طرف دبے قدموں بڑھنے لگی، خاموشی سے دروازہ کھولا اور باہر سے دروازہ بند کرکے قریبی کھیتوں کی طرف بڑھنے لگی۔قصبہ کی پوری آبادی نیند کے نشے میں بے خبر سور ہی تھی۔ کہیں دُور سے کبھی کبھار کتوں کے بھوکنے کی آواز آجاتی تھی۔کھیتوں کے قریب اُسے ایک ہیولا متحرک نظر آیا……………………جذبہء محبت کے اندھے پن میں وہ دلیر اور نڈر اپنے انجام سے بے خبر آگے بڑھتی جارہی تھی۔ تھوڑا اور قریب جانے پر یہ واضح ہوگیا تھا کہ وہ ہیولا اِمداَد تھا۔……………… نہ جانے کب سے وہاں پر موجود وہ صنم کا انتظار کر رہا تھا………………اُس کے منہ سے شراب کی بُو آرہی تھی……صنم کے لیے یہ ناگوار اور ناقابلِ برداشت بو تھی۔اب کھیتوں سے آگے بڑھ کر وہ دونوں بغیر کوئی بات کیے ٹیلے کی طرف بڑھنے لگے۔یہ اکلوتا ٹیلہ اتنا بلند تو نہ تھالیکن اس کی اوٹ میں اگر کوئی بیٹھا ہو تو آس پاس سے گذرنے والوں کو شک بھی نہ گذرتا تھا کہ وہاں کوئی موجود ہے۔ہلکی چاندنی کے باوجود رات کا یہ پچھلا پہر اماوس کی رات کا منظر پیش کررہا تھا۔ٹیلے کی اوٹ میں آتے ہی اِمداَد نے صنم کو گلے لگایا اور سیدھے ہاتھ میں تھامے ہوئے تیز دھار خنجرکے پے در پے دو یا تین وارکئے۔اِمداَد کا یہ وار اتنا غیر یقینی اور غیر متوقع تھا کہ اس سے پہلے کہ صنم کچھ صورتِ حال کو سمجھتی یا مزاحمت کرتی، تیز دھار آلہ اُس کے زندگی کا چراغ گُل کر چکا تھا۔ آخری چند ہچکیاں تھیں اور حیرت سے کھلی صنم کی آنکھوں سے زندگی صحرا کی ریت کی طرح جو ہتھیلیوں سے پھسلتی جارہی ہو۔وہ اِمداد کے بازوؤں کے سہارے ہی ڈھیر ہوچکی تھی۔شراب کے نشہ نے اِمداَد کو اس طرح بے حس کر رکھا تھا کہ وہ اپنے سوچے سمجھے ارادے کو کامیابی سے اور باآسانی سر انجام دے چکا تھا۔ اُسے یہ بھی یقین تھا کہ صنم جیسی نازک اندام کے لئے یہ چند وار جان لیوا اور کارگر ہوں گے۔اُس نے آرام سے اُس پھول سے جسم کو خود سے جُدا کرکے زمین پر لٹا دیا۔ اپنے خنجر سے خود ہی اس نے اپنے پیٹ پر ایک وار کیا تاکہ تاثر دیا جاسکے یہ قتل کسی اور نے کیا ہے۔ نشہ سے لڑکھڑاتی زبان سے زیرِ لب امداد کی زبان پر یہی گردان تھی………………‘‘اگر تم میری نہیں تو …………کسی اور کی بھی نہیں ۔ …………اگر تم میری نہیں تو …………کسی اور کی بھی نہیں۔ ’’ یہ کہتے ہوئے خُون بہنے کی وجہ سے وہ بھی صنم کے پہلو میں ہی بے خوش ہوکر گرچکا تھا۔
اس وقوعہ کے چند لمحوں کے بعد ہی قریبی مسجد سے فجر کی اذان فضاؤں میں گونج اُٹھی۔ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ یہ پرندے ایک نئے دن کے آغاز پر اپنے خالق کی تعریف اور ثناء میں محو آوازیں ہیں یا کہ کچھ دیر قبل ٹیلے کی اوٹ میں وقوع پذیر ہونے والے اندوہناک واقعہ پر وہ ماتم کررہے تھے۔ تھوڑی روشنی لگی تو راہ گیروں نے اِمداَد اور صنم کو خُون میں لت پت دیکھ کر نمبر دار کو خبر دی۔ سارے لوگ تماش بینوں کی طرح دُور دُور سے یہ منظر دیکھ رہے تھے اور کئی کہانیاں گھڑ رہے تھے۔صنم تو موقع پر ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی محبت کے لئے امر ہو چکی تھی لیکن اِمداَد اپنی انا پرستی اور گھناؤنے اعمال کے ساتھ زندگی کی اذیت جھیل رہا تھا۔ کسی نے ہمت کی اور جا کر اپنی پگڑی کھول کر صنم کے لعش پر ڈال دی ۔علاقہ پولیس کو اس حادثہ کی خبر دی چکی تھی، تھوڑی دیر تک پولیس اپنی قدیم ڈنڈا گئیر برٹش دور کی جیپ پر پہنچ چکی تھی۔صورت حال دیکھ کر چند گواہوں کے بیان لینے کے بعد صنم کی لعش تو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیجی جاچکی تھی جبکہ اِمداَد کو ابتدائی طبی مدد کے لئے سرکاری ہسپتال روانہ کردیا گیا تھا۔ ہوش آنے پر اِمداَد نے بڑی کامیابی کے ساتھ قتل کے اس واقعہ کو جان لیوا حملے کا تاثر دے کر خود کو بے الزام ثابت کروا لیا تھا۔ پولیس نے صنم کے بوڑھے باپ اور بھائی کو قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ پولیس کی حراست میں دونوں باپ بیٹا رنجیدہ اور اَفسردہ تھے اور ہتھکڑیوں میں تھانیدار کے قدموں میں بیٹھے لوگوں کی چبھتی نظروں کا سامنا کررہے تھے۔ اُن کی صفائی اور بے قصور ہونے پر کوئی یقین کرنے کے لیے تیا ر نہ تھا۔صنم کے بوڑھے باپ کی آنکھوں میں آنسو تھے……………… وہ اپنی بیٹی کو بہت پیار کرتا تھا اور ہمیشہ اُس کے بہتر مستقبل کے لئے دعا گو بھی رہتا تھا۔ لیکن جانے کیسے اور کب ……لُٹیری اور باغیانہ خواہشات نے سیند لگا کر اُس کے گھر کی رونق اورزندگی کو اُس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جُدا کر دیا تھا۔ ………… اُس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا …… وہ ہتھکڑی لگے ہاتھو ں اور نم آلود آنکھوں سے نیلے آسمان کی طرف شکوہ بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے شاید ………………انصاف کامنتظر تھا۔………… اور شاید اس بے بسی اور مجبوری میں اپنے خالق سے مدد اور حمایت کا طلب گار تھا۔ …………قصبہ کے تماش بین لوگ مجبور اور بے بس سادہ لوح خاندان کو اس صورتِ حال میں دیکھ کر محضوظ ہورہے تھے۔…………صنم کے گھر کے تمام پھلداردرخت بھی جیسے سرجھکائے کھڑے ندامت اور افسوس کی اس گھڑی میں بے گناہ اور ناحق خون کے شبہ میں گرفتار باپ بیٹاکے غم میں برابر کے شریک تھے۔ ختم شُد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply