راز پر لب کشائی۔۔۔خط نمبر 5 اور 6۔۔۔ڈاکٹر خالد سہیل/مقدس مجید

معزز قارئین!
“Sharing  the  Secret”
بچپن میں جنسی زیادتی کی شکار خاتون جیمی اور ان کے تھراپسٹ ڈاکٹر سہیل کے مکالمے پر مبنی کتاب ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر سہیل نے اس کتاب کے ترجمے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس کے ہر باب سے میں بچپن میں زیادتی کے شکار لوگوں کی نفسیات اور تھراپی کے حوالے سے گہری اور دلچسپ معلومات حاصل کر سکی۔ چند باب آپ کی خدمت میں بھی پیش کرنا چاہوں گی!)  مقدس مجید
خط نمبر05
مدد مانگتی درد بھری پکار
عزیز ڈاکٹر سہیل!
اس ہفتے جیسے جیسے میں اپنی پرانی کتابوں اور نوٹس کو ٹٹول رہی ہوں کہ کن کو ساتھ لے جاؤں اور کن کو چھوڑ جاؤں، یوں لگتا ہے جیسے میں یادوں کے سمندر میں ڈوب رہی ہوں۔ میں نے اور میرے شوہر نے ایک نیا گھر خریدا ہے۔ اپنا بیس سال سے اِس گھر میں جمع کیا ہوا سامان پیک کرنا بہت مشکل کام ہے۔ خوش قسمتی سے گھر چھوڑنے کی آخری تاریخ ابھی دور ہے۔ اس سب پھیلے ہوئے سامان میں سے مجھے کچھ پرانی ڈائریاں اور نوٹس ملے جن سے پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔مجھے یاد ہے جب میں نے آپ کو وھٹبی کے نفسیاتی ہسپتال میں اپنے داخلے کے متعلق بتایا تھا ۔ میں اس وقت چھبیس سال کی تھی۔ وہاں داخلے سے پہلے بھی مجھے ماہرینِ نفسیات کی مدد لینی پڑی تھی۔
میری گریجوایشن اور شادی کے بعد میں اور میرا شوہر ڈیوڈ ٹورونٹو آ گئے جہاں ڈیوڈ کو ملازمت مل گئی۔ ہمیں ایک گھر کے بیسمنٹ میں ایک بہت اچھا اپارٹمنٹ مل گیا اور ہم نے ایک ساتھ زندگی گزارنی شروع کر دی۔ میں نے ملازمتوں کے لیے درخواست دی، اپنا پہلا ناول لکھا اور کیزی کا دھیان رکھنے لگی جس بلی کے بچے کو ہم نے اپنایا تھا۔ بار بار چیزوں کو چیک کرنے کا رویہ اور بڑھتا ہوا ڈپریشن نہ ہوتا تو زندگی بہت حسین ہوتی۔  مجھے میرے صحافت کے شعبے میں ملازمت نہ مل سکی تو میں نے پالتو جانوروں کے ایک اسٹور میں پارٹ ٹائم ملازمت اختیار کر لی تاکہ وقت اچھے سے صرف ہو سکے ساتھ ہی میں نے نوجوانوں کے بارے میں اپنے ناول پر کام جاری رکھا۔ ہم نے ایک دوسری بلی ٹربلز کو بھی اپنا لیا تاکہ پہلی بلی کیزی کو کوئی ساتھی مل جائے۔ جیسے جیسے میرے شعبے میں ملازمت تلاش کرنا مشکل ہوتا گیا میرا ڈپریشن بڑھتا چلا گیا۔ بار بار چیزیں چیک کرنے والا رویہ او سی ڈی کا مسئلہ بھی شدید ہوتا گیا۔ میں کام پر جاتے وقت گھر کا چولہا چیک کرنے اور تالا لگانے میں اور کام سے واپسی پر اسٹور بند کرنے میں بہت مشکل کا سامنا کرتی۔
ایک شام اس سارے مسئلے نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ ہمیں اس کے حل کے متعلق سوچنا پڑا۔ اس رات کھانے کے بعد ہمیں کسی دوست کے گھر جانا تھا۔ ہم نے برتن سنک میں ڈالے اور جلدی میں دروازے بند کر کے دوست کے گھر جانے کے لیے نکل پڑے۔ ہم گاڑی میں جا رہے تھے جب میں نے اپنے شوہر سے چولہے بند کرنے کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا کہ
“فرائی ہونے دو بلیوں کو۔۔۔۔میرا مطلب ہے بلیوں کو الوداع!”
میں یہ سن کر چلا اٹھی “واپس چلو!” مگر ڈیوڈ نے انکار کر دیا۔ اپنی بلیوں کے حوالے سے میں خوف زدہ ہو گئی۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تاکہ باہر کود سکوں اور اپارٹمنٹ کی طرف واپس بھاگ جاؤں۔ اس واقعہ کے بعد ہم دونوں کو یقین ہو گیا تھا کہ مجھے کسی سنجیدہ مدد کی ضرورت ہے۔ ڈیوڈ نے ملازمین کی امداد کے پروگرام کے تحت  میرا رابطہ ایک سائیکولوجسٹ سے کرایا۔ اس سائیکالوجسٹ نے مجھ سے بہت سے سوالات کیے اور کچھ ملاقاتوں کے بعد قریبی ہسپتال میں مجھے ایک ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنے کا کہا۔
کسی ہسپتال میں تھراپی کے لیے جانا ایک  ڈراؤنی بات تھی۔ لفٹ سے نکلتے ہی ایک طرف داخل ہوئے مریضوں کا وارڈ تھا جبکہ دوسری جانب بیرونی مریضوں کے یونٹ کے ساتھ دن میں علاج کا پروگرام تھا۔ میں ویٹنگ روم میں بیٹھی اپنے نام کے پکارے جانے کا انتظار کرنے لگی۔ واپس لفٹ میں بھاگ جانے اور وہاں سے چلی جانے سے خود کو روکنے میں میری بہت سی قوت لگی۔ نفیس بلاؤز اور مختصر سی اسکرٹ میں ایک چھوٹی سی خاتون ویٹنگ ایریا میں آئی۔ اس نے میرا نام لیا۔ میں اس کی پیروی کرتے ہوئے ہال میں نیچے اس کے دفتر چلی گئی۔ اس نے اپنا تعارف کرایا۔  ڈاکٹر نکلسن نے مجھ سے میرے ڈپریشن، چیزیں چیک کرنے کے رویے اور نیند کے متعلق سوالات کیے اور مجھے ایک نسخہ دیا۔ یہ ملاقات میری کئی ہفتہ وارانہ ملاقاتوں میں سے پہلی تھی۔ ابتدائی کچھ سیشنز مجھے خاص یاد نہیں۔
ڈاکٹر نکلسن نے مجھے او سی ڈی کے لیے ANAFRANIL،اینزائٹی کے لیے XANAXاور موڈ کے اتار چڑھائو کو کنٹرول کرنے کے لیے LITHIUMکی دوائیں تجویز کیں۔ڈاکٹر نکلسن نے میرے نفسیاتی مسائل کا ذمہ دار میرے والدین کو ٹھہرایا۔میں اس ماہر نفسیات کی تشخیص سے متفق نہ تھی۔  میں جانتی ہوں کہ میرا بچپن بہت شاندار نہیں تھا مگر میرے والدین نے مجھے محبت دی اور وہ سب کیا جو بھی وہ کر سکتے تھے۔ میں اپنی روح میں جس گہری اذیت سے گزر رہی تھی میرے والدین اس کے ذمہ دار نہیں تھے. مجھے شدت سے احساس ہوا کہ کچھ بہت غلط ہو رہا تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا تھا۔ یہ میرے تکلیف دہ بچپن اور اضطراری عارضے سے بڑھ کر تھا۔
چھبیس سال کی عمر میں میں  ڈاکٹر نکلسن سے آخری مرتبہ ملی۔ سیشن کے دوران میں نے انھیں بتایا کہ میں اب واپس نہیں آؤں گی کیونکہ میں گہری اذیت گہرے کرب سے گزر رہی ہوں۔ میں جانتی تھی کہ وہ ملازمین کو بلا کر مجھے وارڈ میں زبردستی بند کر دے گی۔ میں نے پہلے بھی یہ سب ہوتے دیکھا تھا اور ویسے بھی اس کے اختیار میں تھا۔ ایک ہفتہ پہلے میں اپنی جیب میں ایک چاقو ساتھ لے کر گئی تھی جو میں نے خریدا تھا اور اسے بتایا تھا کہ میں اس چاقو کو اپنی کلائی پر چلانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔  اس نے مجھ سے کہا کہ میں چاقو اس کے حوالے کر دوں اور اس کو میز کی دراز میں رکھ دیا۔  اس دفعہ مجھے جیب والے چاقو کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میرا ارادہ کچھ اور ہی تھا۔
وہ میری مدد کی پکار کو سننے میں دلچسپی نہیں لے رہی تھی۔ اس نے بس اس بات پر زور ڈالا کہ میں جب اگلے ہفتے آؤں تو اپنے شوہر ڈیوڈ کو اپنے ساتھ لاؤں اور میری ادویات بڑھا دیں۔ میں نے بتایا کہ اب وہ کبھی میری شکل نہیں دیکھے گی۔ میں نے آفس کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ اس نے مجھے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
میں گو ٹرین سے اپنے گھر گئی اور کار میں بیٹھ کر نیچے جھیل کی جانب جانے لگی۔  میں نے کار کے پچھلے حصے میں بلیڈ چھپائے ہوئے تھے۔ جب میں جھیل پر پہنچ گئی تو میں نے ایک بلیڈ لیا اور جھیل کنارے پیدل چلنے لگی۔ میں وہاں دیر تک بیٹھی اپنے خاوند، والدین، سسرالیوں اور دو بلیوں کے متعلق سوچتی رہی۔ میں نے سوچا کہ ان سب کی زندگی میرے بغیر بہتر ہو گی۔ میں تو اپنی ماہرِ نفسیات کے لیے بھی وقعت نہیں رکھتی جس نے مجھے اس وقت بھی اپنے دفتر سے جاتے ہوئے نہیں روکا جب میں نے خودکشی کی دھمکی دی تھی۔  جیسے ہی میں نے بلیڈ اپنی کلائی پر رکھا کنارے پر کھڑا ایک شخص مجھے نیچے دیکھ کر چلایا
 ” تم جانتی ہو کہ ابھی کیا وقت ہے؟”
میں ٹھٹھک گئی اور چلائی
 ” نہیں”.
اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور چلتا بنا۔ اس نے یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی کہ کوئی عورت اپنی زندگی ختم کرنے جا رہی ہے۔  میں نے سوچا کہ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت کہ میری کوئی اوقات نہیں۔ میں نے اپنے بازوؤں پر لمبائی کے رخ کٹ لگایا نہ کہ گولائی میں جیسے فلموں میں ہوتا ہے۔ لمبائی کے رخ لگایا گیا کٹ زیادہ بااثر ہوتا ہے اور جلدی سلائی بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن بلیڈ تیز نہیں تھا جس وجہ سے کٹ گہرائی تک نہ لگ پایا۔ اب میرے پاس دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ گھر جاؤں اور کوئی نیا بلیڈ لوں جبکہ دوسرا یہ کہ مدد حاصل کروں۔  ایک سوچ میرے ذہن کی دیوار سے ٹکرائی
 ” کیا پتا حالات بہتر ہو جائیں؟”
پھر میں نے مدد حاصل کرنے کی ٹھان لی۔
میں اپنے ڈاکٹر کے دفتر گاڑی چلاتے ہوئے گئی۔ جب میں ڈیسک پر گئی تو ریسیپشن پر بیٹھی عورت نے مجھ سے پوچھا کہ میں کس حوالے سے ڈاکٹر سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے اپنے خون سے آلودہ بازو پر لپٹی جیکٹ کو ہٹایا اور اسے اپنا بازو دکھایا۔ وہ مجھے تیزی سے ایک کمرے میں لے گئی اور ایک ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔ میری کٹی ہوئی کلائی کا مشاہدہ کرنے اور اس کو صاف کرنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ
 “جو حرکت تم نے کی ہے اس کے بعد میں تمہیں اس طرح جانے نہیں دے سکتی۔ میں تمہیں دو آپشن دیتی ہوں. اس جنرل ہسپتال میں واپس چلی جاؤ جہاں تمہاری ماہرِ نفسیات کام کرتی ہے یا پھر میں تمہیں نفسیات کے مقامی ہسپتال میں بھیج سکتی ہوں؟”
میں نے اسے بتایا کہ میں جنرل ہسپتال میں کسی صورت نہیں جاؤں گی اور نفسیاتی ہسپتال PSYCHIATRIC HOSPITALکو ترجیح دوں گی۔ اس طرح میں وہاں پہنچی۔
اور یہاں سے کہانی بہت گھمبیر ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔
مخلص
جیمی
ـــــــــــ——————————————————-
خط نمبر06
سائیکوتھراپی اورادویات کےکردار
ڈاکٹر خالد سہیل
محترمی جیمی!
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہے کہ آپ اس مکالمے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایسا کرنے سے نہ صرف آپ صحت یاب ہوجائیں گی اور آپ کو اپنے ماضی کے متعلق بہتر طور پر اندازہ ہو سکے گا بلکہ آپ اس قابل بھی ہو جائیں گی کہ مستقبل کے لیے دانشورانہ فیصلے کر سکیں۔  لوگ کہتے ہیں کہ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا مگر تھراپی میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم ماضی کا جائزہ لے کر اسے نئے معنی دے کر تبدیل کر سکتے ہیں۔ تھراپی میں ہم بطور صحت مند اور مضبوط بالغ  اپنے ماضی کو دوبارہ لکھتے ہیں نہ کہ کسی مظلوم کے نظریے سے۔
آپ کے خط کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ماضی میں آپ کے مسئلے او سی ڈیOCD نے کس قدر آپ کی زندگی مشکل بنا دی تھی۔
عزیزی جیمی!
کچھ روایتی ڈاکٹر اور ماہرینِ نفسیات اپنے ذہنی امراض کے مریضوں کا علاج صرف ادویات سے کرتے ہیں۔ میرے لیے ادویات تجویز کرنا پہلی نہیں بلکہ آخری ترجیح ہے۔ میں اپنے مریضوں کی مدد سائیکو تھراپی کے ذریعے کرتا ہوں تاکہ وہ اپنے لاشعور اور خود کو نقصان پہنچانے والی عادات سے واقف ہو سکیں اور زندگی میں آنے والے مصائب سے نمٹنے کے صحت مند طریقوں کو جان سکیں۔  میرے خیال میں ادویات بے چینی، ڈپریشن اور نیند نہ آنے کی کیفیت کی نشانیوں کو قابو تو کر سکتی ہیں لیکن مریض کو احساسِ تنہائی یا ذاتی، سماجی اور پیشہ ورانہ تعلقات میں ناکامی کے احساس سے نمٹنا نہیں سکھاتیں۔
ہم اپنے کلینک میں کمبی نیشن تھراپی COMBINATION THERAPYاستعمال کرتے ہیں جس میں فرد، ازدواجی، خاندان اور گروپ تھراپی شامل ہیں۔ میں ادویات صرف ضرورت پیش آنے پر تجویز کرتا ہوں. میرے زیادہ تر مریض کسی بھی طرح کی ادویات استعمال نہیں کر رہے اور ان میں سے بہت سے مریض ایسے ہیں جنھوں نے میرے ساتھ تھراپی کے آغاز میں ہی ادویات چھوڑ دیں۔
مجھے یہ پڑھ کر دکھ ہوا کہ آپ کی ماہرِ نفسیات نے آپ کے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور مجھے یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آخرکار آپ نے زندگی کو موت پر ترجیح دیتے ہوئے ایک ماہرِ نفسیات کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ نہ صرف آپ  جی سکیں بلکہ اپنی زندگی اور محبت کے معیار میں بہتری لا سکیں۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو نفسیاتی ہسپتال کے سائیکو تھراپی وارڈ سے کس نے متعارف کرایا اور آپ کے اس وارڈ کے تھیراپسٹس کے ساتھ تجربات کیسے تھے؟
آپ کے خط کا منتظر۔
آپ کا خیرخواہ
ڈاکٹر سہیل

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply