پانی کی جنگ۔۔خضر حیات خان

کسی ملک کی مجموعی ترقی میں اس ملک میں موجود پانی کاہمیشہ اہم کردار رہاہے، جس ریاست کی حدود میں بحر, بحیرے اور اندرون میں بہنے والے دریا ہوتے  ہیں, وہ بین الاقوامی سیاست اور اقتصادی دوڑ میں اپنا ایک مقام رکھتای ہے۔بد قسمتی سے ہمارے لئے اللہ پاک کی یہ نعمتیں درد سر بنی ہیں۔

پاکستان بیسویں صدی کے نصف میں بنا, اور روزاوّل سے اپنے پڑوسی ملک ہندوستان سے جھگڑوں اور رقابتوں میں الجھ گیا، کیونکہ کشمیر دونوں نو آزاد ریاستوں کے درمیان این ایپل آف ڈسکارڈ ( An apple of discord ) تھا۔ دونوں ممالک کشمیر  کو اپنی شہ رگ سمجھتے ہیں, وجہ ظاہر ہے اور وہ ہے پانی ۔ کشمیر کے پانیوں پر ہندوستان اور پاکستان کے کئی    ڈیم بنے ہیں۔ اس سے صاف واضح ہے  کہ کشمیر کبھی بھی پاکستان نہیں بن سکتا ہے, زمینی حقائق(Ground realities ) کہتے  ہیں کہ اگر کشمیر پاکستان بنا تو انڈیا بنجر اور اندھیر  ہوجائیگا، جو کہ انڈیا کبھی بھی نہیں چاہے گا  کہ انکے ڈیم سوکھ  جائیں،اور بجلی بجھ جائے۔ البتہ لفظوں  اور نغموں کی جنگ شاید  روزِ قیامت تک رہے گی۔

امریکہ میں نائن الیون  کا واقعہ ہوا, پاکستان نے رسائی دی اور افغانستان یر غمال ہوا،بعد میں پاکستان کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہوا اور اپنی بقاء کی جنگ شروع کی۔ اسکی Geo-strategic location کچھ ایسی ہیں کہ ہمیشہ بڑے گھوڑوں کے درمیان خون ریزی کی زد میں آسکتی ہیں۔ پاک افغان سرحد کے آر پار لاکھوں معصوم پختون اس بقاء کی جنگ میں لقمہ اجل بنے اور ان کے گھر بار ملیامیٹ ہوئے۔ امریکہ کو پتہ چلا کہ دشمن تو محض طالب نہیں, کوئی اور بھی ہیں۔اس موضوع پر امریکی خاتون  صحافی Carlotta Gall کی کتاب The Wrong Enemy: America in Afghanistan, 2001-2014 بھی آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

خیر امریکہ مجبور ہوا، اپنی فوج کو کم کر کے جانے کا ارادہ کیا۔
ادھر نو منتخب افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے عزیز وطن کو کچھ تحائف دینے کا ارادہ کیا اور 1974 میں نمروذ ولایت میں شروع ہونیوالے نامکمل کمال خان بند (Kamal Khan Dam) پر دوبارہ کام شروع کیا جو سال 2021 میں Operational ہونے میں کامیاب ہوا۔اس ڈیم پر ایران کے بھی بہت سے تحفظات تھے لیکن وہ اب موضوع نہیں ہے۔

صدر غنی کا اگلا پلان دریائے کابل پر انڈیا کی  مدد سے ایک عظیم منصوبہ بنانا تھا جوکہ پاکستان کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا تھا۔ کچھ دن پہلے میں چند دوستوں کیساتھ ورسک ڈیم گیا،اسکی Location اور اہمیت کا اندازہ لگایا, یہ ڈیم 1949 میں شروع ہوا تھا اور 1960 میں اختتام پذیر ہوا۔ اس سے تقریباََ  آدھے پختونخوا  کی بجلی چلتی ہے اور KPK کی جتنی زرخیزی اور فصلیں  ہیں اس منصوبے سے ہیں۔اس سے کئی نہریں پشاور اور مضافات میں بہتی  ہیں۔اسکی Location دو تنگ پہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی انداز میں سیٹ ہے۔ اگر افغانستان انڈیا کے  توسط سے کنڑ ولایت میں چوگام کے مقام پر جسکی Location بالکل ورسک ڈیم جیسی ہے, پہ  ڈیم بن جانے میں کامیاب ہوجاتے, تو آپکا پختونخوا  بنجر ہوجاتا اور National Grid ایک بڑے Energy Crisis کا شکار ہوجاتھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پس دوسرے بے شمار International اور Global مفادات میں ایک مفاد  پانی کا بھی تھا, جسکا نتیجہ Direct regime change کی شکل میں ہم نے افغانستان میں دیکھا۔ کیونکہ قومی مفادات مقدم ہوتے ہیں, چاہے پرائے بھاڑ میں جائیں۔ اب یہ آپ پہ منحصر ہے, پچھلی  افغان جنگوں کو جہاد, اقتصادی جنگ یا بڑے ہاتھیوں کی رسہ کشی کہتے رہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply