سوشل میڈیا اور گروپ بندی

ایک زمانہ تھا جب ہمارے پاس ایک دوسرے کے لیےبہت وقت ہوتا تھا۔ اب تو سب سوشل میڈیا کو پیارے ہوگئے ہیں، وہ بھی اس قدر کہ زندگی میں صرف دکھاوا ہی بچا ہے۔ جب سے فیسبک پر گروپس بننا شروع ہوئے ہیں اور بلاگرز نے نے فیسبک پہ آکر گروپ بنانا شروع كیے ہیں، گھریلو عورتوں کو جیسے ایک نئی امید مل گئی ہے کچھ کر دکھانے كی اور خود کو منوانے كی۔ صرف ایک کِلک سے گھر بیٹھے وہ اپنا ہنر اور مہارت پوری دنیا کو دکھا دیتی ہیں جہاں نہ صرف ان كے کام اور مہارت کو پذیرائی مل رہی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کو جاننے بھی لگی ہیں چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔۔دوستی ان کی بہت گہری ہوتی ہے۔ ان فیسبک گروپوں میں خواتین کو حاضر رکھنے کے لیے مقابلے مرتب کیے جاتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی كے لیے سرٹیفیکیٹ سے لے کر تحائف تک تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ملاقاتیں کروائی جاتی ہیں تاکہ ایک دوسرے کو جاننے کا موقع میسر آئے اوراپنے دکھ درد بانٹ سکیں۔
خواتین میں شعور اور اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن ان میں ایک تعمیر شدہ حس بھی ہوتی ہے، وہ ہے حسد۔ گو یہ بیماری ہر انسان میں موجود ہے لیکن عورت میں کہیں زیادہ ہوتی ہے، اگر عورت پڑھی لکھی باشعور ہے تو وہ اسے دبا دیتی ہے لیکن اگر وہ پڑھی لکھی یا سمجھدار نہیں ہے تو وہ اپنے نفس كی غلام بن کر خطرناک نتائج بھگتتی ہے۔۔اسی لیئے کسی سیانے نے کہا ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔
جہان گروپوں کےجہاں مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہیں اس قسِم كی عورتیں بھی ہیں جو اپنا نام روشن کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلی جاتی ہیں۔ میں نے پچھلے تین سال میں اتنے تماشے دیکھے سوشل میڈیا پہ کہ اب دِل بھر چکا ہے۔
چھوٹی سی زندگی میں مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیجئے،اچھا رویہ اپنائیے تاکہ آپ کو یاد رکھا جائے۔

Facebook Comments

مہریں مشتاق
میرا تعلق تعلیمی شعبے سے ہے۔میں نے بچوں پر کافی تحقیق کی ہے۔ اسی معرفت سے کافی اساتذہ اور والدین کو ورکشاپ دی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply