کینسر (100) ۔ مریضہ/وہاراامباکر

یہ 2005 کی ایک شام تھی۔ میں ہسپتال کی دسویں منزل پر ایک مریضہ جرمین برن کے ساتھ تھا۔ جرمین ماہرِ نفسیات تھیں اور اب بسترِ مرگ پر تھیں۔ 1999 میں انہیں متلی ہونے لگی تھی۔ اتنی اچانک اور اتنی شدت سے جیسے کسی نے توپ سے گولہ چلایا ہو۔ اور اس کے ساتھ پیٹ بھرا بھرا لگتا تھا۔ یوں جیسے بہت کھایا ہو۔ جرمین خود گاڑی چلا کر ہسپتال گئی تھیں جہاں پر ان کے ٹیسٹ کئے گئے تھے۔ ایک کیٹ سکین نے یہ دکھا دیا تھا کہ ان کے معدے میں بارہ سینٹی میٹر کی رسولی ہے جو معدے پر دباوٗ ڈال رہی ہے۔ چار جنوری 2000 کو ایک ریڈیولوجسٹ نے اس کی بائیوپسی کی۔ خوردبین کے نیچے، بائیوپسی نے دکھا دیا تھا کہ اس میں لمبی شکل کے خلیات تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں۔ اس ٹیومر نے خون کی رگوں پر حملہ کر دیا تھا اور ٹشو کو متاثر کیا تھا۔ یہ ایک نایاب قسم کا کینسر تھا جو گیسٹرو انٹسٹائنل سٹرومل ٹیومر یا GIST کہلاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مزید بری خبر ملنے لگی۔ ان کے جگر میں بھی نشان تھے۔ لمف نوڈ میں سوجن تھی۔ اور بائیں پھیپھڑے میں بھی سپرے تھا۔ کینسر جسم میں پھیل چکا تھا۔ سرجری کرنا ناممکن تھا۔ اور اس وقت کوئی ایسی کیموتھراپی دستیاب نہیں تھی جو اس طرح کے سارکوما کے خلاف کام دکھا سکتی۔ “میں نے وصیت لکھ لی، اپنے بل ادا کر دئے اور جس کو خط بھیجنا تھا، بھیج دیا۔ مجھے کوئی شبہ نہیں تھا کہ میرا انجام کیا ہونے لگا ہے۔ مجھے بتا دیا گیا تھا کہ اب کچھ نہیں کیا جا سکتا”۔
انہیں موت کا پروانہ 2000 کے موسمِ سرما میں تھما دیا گیا تھا۔ انہوں نے ایک ویب سائٹ کی ممبر شپ لے لی۔ یہاں پر اس مرض میں مبتلا افراد کا گروپ تھا۔ یہاں پر لوگ ٹوٹکوں کا تبادلہ کرتے تھے۔ لیکن اپریل میں ایک نئی دوا کی خبر اس کمیونیٹی میں آناً فاناً پھیل گئی۔ یہ نئی دوا گلیوک (ایماٹنب) تھی۔ یہ وہی کیمیکل تھا جس کو ڈرکر نے CML کے علاج کے لئے استعمال کیا تھا۔ یہ ایک پروٹین bcr-abl کے ساتھ چپک کر اسے غیرفعال کرتا تھا لیکن اتفاق سے یہی کیمیکل ایک اور کائنیس کو بھی غیرفعال کر دیتا تھا جو c-kit تھا۔ اور یہ وہ ڈرائیور جین تھی جو معدے کے اس کینسر میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ ابتدائی ٹرائلز میں اس نے حوصلہ افزا نتائج دکھائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمین ایسے ایک ٹرائل میں شامل ہو گئیں۔ اور یہ اتنا کامیاب رہا کہ پلیسبو والے گروپ کو جلد ہی بند کر دیا گیا۔ جرمین نے اگست 2001 میں یہ ڈرگ لینا شروع کی تھی۔ ایک ماہ میں ان کے ٹیومر تیزی سے سکڑنا شروع ہو گئی۔ ان کی توانائی بحال ہونے لگی، متلی کم ہونے لگی۔ ان کو موت کے منہ سے واپس کھینچ لیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمین کی صحتیابی ایک طبی معجزہ تھا۔ ان کے شہر کے اخبار نے ان کی کہانی شائع کی۔ انہوں نے اخبار میں مضمون لکھا “ہمیں پرامید ہونا چاہیے۔ اگرچہ کوئی علاج قریب نہیں لیکن ادویات کی نئی جنریشن کینسر کو کنٹرول کر لے گی اور ایک ناکامی کے بعد آگے کامیابی ملے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمین کی غیرمتوقع صحتیابی کو چار سال گزرے تھے جب اچانک ان کے ٹیومر نے گلیوک کے خلاف مدافعت حاصل کر لی۔ اور واپس آنے لگا۔ اگلے مہینوں میں ان کے معدے، پھیپھڑے، جگر، تلی، لمف نوڈ اور پھیپھڑوں میں یہ واپس پہنچ چکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی متلی بھی پہلے کی طرح طاقت سے آئے تھی۔ پیٹ سے گندا سیال رسنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرمین نے انٹرنیٹ کمیونیٹی کے ذریعے تلاش کیا کہ گلیوک کی سیکنڈ جنریشن انالوگ کے ٹرائل چل رہے ہیں۔ ملک کے دوسرے کونے میں جاری ایک ٹرائل میں انہوں نے شرکت حاصل کر لی۔ یہ دوا SU11248 تھی۔
نئی دوا سے عارضی ریسپانس آیا لیکن لمبا عرصہ نہیں چلا۔ فروری 2005 میں ان کا کینسر بے قابو ہو رہا تھا۔ ہر ہفتے بڑھ رہا تھا۔ ان کی تکلیف اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ بستر سے اٹھنا دوبھر ہو گیا اور انہیں ہسپتال منتقل ہونا پڑا۔
میری ان سے ملاقات نئی دوا یا علاج بتانے پر نہیں بلکہ دیانتداری سے ان کی میڈیکل حالت سے مفاہمت کروا دینے کے لئے تھی۔
جرمین نے مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ اب ان کا مقصد سادہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی مزید ٹرائل نہیں، کوئی مزید ڈرگ نہیں۔ 1999 سے 2005 کے بیچ میں چھ سال انہوں نے مزید گزار لئے، وہ انمول تھے۔ اس نے انہیں صاف اور تیز کر دیا تھا۔ اپنے شوہر سے الگ ہو چکی تھیں۔ اپنے بھائی سے تعلق مضبوط ہو گیا تھا۔ اور اپنی بیٹی، جو اب کالج کی طالبہ تھی، ان کی نرس اور بہترین دوست بن چکی تھیں۔ “کئی بار کینسر خاندان توڑ دیتا ہے۔ کئی بار خاندان جوڑ دیتا ہے۔ میرے لئے اس نے دونوں کام کئے ہیں”۔ جرمین کو اس چیز کا احساس ہو چکا تھا کہ ان کہ مہلت ختم ہو چکی ہے۔ وہ اب الابامہ میں اپنے گھر جانا چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی جان وہاں پر قبض ہو۔ وہ جس کی توقع انہیں چھ سال پہلے تھی، اب وہ وقت آن پہنچا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply