قانون سازی کی جگہ تنظیم سازی۔۔عامر عثمان عادل

دولت مشترکہ آسٹریلیا دنیا کا ایک ترقی یافتہ ملک جو اکیلا براعظم بھی ہے کرّہ ارض پر پائے جانے والے ممالک میں رقبے کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ،معاشی ترقی اور عسکری برتری کے اعتبار سے 13 ویں نمبر ،پہ جبکہ فی کس اوسط آمدن کے لحاظ سے دسویں پوزیشن پہ فائز ہے۔

وفاقی پارلیمانی نظام اور مضبوط جمہوری روایات کا امین یہ ملک آج کل مشکل دور سے گزر رہا ہے۔

ایک طرف اسے شدید ترین سیلاب کا سامنا ہے جس نے سڈنی اور نواحی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے، دوسری جانب حکومت کو پارلیمان میں ایک شرمناک جنسی اسکینڈل کا سامنا ہے۔

پچھلے ماہ پارلیمنٹ کی سٹاف ممبر اور لبرل جماعت سے تعلق رکھنے والی برٹنی ہگنز نے ہولناک انکشاف کیا کہ اس کو مارچ 2019 میں وزیر دفاع کے دفتر میں سٹاف کے ایک رکن نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر پولیس کو اطلاع دی تو اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

برٹنی کے انکشاف سے حوصلہ پا کر مزید چار خواتین نے اسی الزام کو دہرایا، بس پھر ایک طوفان بپا ہو گیا۔۔۔آسٹریلوی وزیر اعظم سکاٹ موریسن شدید تنقید کی زد میں آ گئے اور بالآخر انہیں اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہی بنی۔

کچھ ہی دن بعد پارلیمنٹ ہاوس کی راہداریوں اور دفاتر میں کھیلے جانے والے گھناؤنے کھیل کی ویڈیوز اور تصاویر یکے بعد دیگرے لیک ہونے لگیں۔

ایک سٹاف ممبر کا کہنا  تھا کہ پارلیمنٹ کے کچھ مرد سٹاف ممبرز نے فیس بک گروپ بنا رکھا ہے جس پر آئے روز پارلیمنٹ میں مختلف اوقات میں کی جانے والی جنسی سرگرمیوں کی ویڈیو اور تصاویر شئیر کی جاتی ہیں۔

گھر کے ایک بھیدی نے یہ بتا کر لنکا ڈھا دی جب اس نے میڈیا کو بتایا۔۔کہ اس پارلیمنٹ ہاؤس کے معزز ایوان کے اندر ہر قسم کی نیچ اور اخلاق باختگی پر مبنی سرگرمیاں جاری ہیں۔

یہاں معزز اراکین اسمبلی کے داد عیش دینے کو باہر سے جسم فروش عورتیں منگوائی جاتی ہیں۔اور تو اور اس رازدان نے یہ راز بھی آشکار کر دیا کہ پارلیمنٹ کے دفاتر تو ایک طرف اس معزز ایوان کے اندر عبادت کے لئے مختص کمرے کو زنا گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

وہ تصاویر اور ویڈیو پوری آسٹریلوی قوم کے منہ پر طمانچہ تھیں ،جن میں واضح طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اسی ایوان کے اندر کسی خاتون کی نشست کے سامنے کھڑا ایک مرد سر عام مشت زنی کر رہا ہے۔

ان تمام واقعات کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہوا اور عوام سڑکوں پہ نکل آئے۔حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ جنسی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کے کام کی جگہ کو محفوظ بنانے کی خاطر اقدامات کئے جائیں۔

یہ ایک جھلک ہے دنیا کے انتہائی  ترقی یافتہ معاشرے کی جنہیں مہذب معاشروں کا نام دیا جاتا ہے اور جن کی مثالیں دیتے ہمارے دانشور تھکتے نہیں،اور ہمارے دیس میں عورت مارچ کرنے والی کلاس کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ کیا آپ بھی اس قسم کی آزادی چاہتی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

اگر خواتین کے لئے پارلیمنٹ ہاوس بھی محفوظ نہیں ،ان کی عزتیں اتنے مقتدر حلقے کے ہاتھوں پامال ہوتی ہیں اور یہ کیسے مقدس ایوان ہیں جہاں قانون سازی کی بجا ئے تنظیم سازی ہورہی ہے۔
ثابت ہوا کہ مشرق ہو یا مغرب عورت کے حوالے سے سوچ روئیے ایک جیسے ہیں۔عورت کو محض ایک کھلونا سمجھا جاتا ہے جو مردوں کی جنسی ہوس کی تسکین کے کام آتا ہے۔
ان ہوس زدہ مردوں کے لئے عورت محض ایک جنس ہے۔
آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک کے ایوان بالا میں خواتین اور دوشیزاؤں کی لٹتی پامال ہوتی عزتوں کا حال دیکھ کر مجھے یہ کہنے میں کوئی  باک نہیں کہ ہم ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔
تف ہے ایسی تہذیب پر
لعنت ہے ایسی ترقی و جدت پر!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply