دانشورزدہ امن کی فاختائیں ۔۔عمیر فاروق

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پہ پے در پے ہونے والے سانحہ نما حملوں کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آج سے چار ماہ قبل آل آؤٹ آپریشن کی تیاری ہوچکی تھی کہ امن کی فاختاؤں نے مذاکرات کا فیصلہ کیا اور ان مذاکرات کے دوران بے خبری میں خنجر گھونپے گئے۔

شورش یا انسرجنسی کے دوران قوموں کی انٹیلی جنشیا انکی رہنمائی کرتی ہے لیکن ہمیں بدقسمتی سے انٹیلی جنشیا کے نام پہ “ دانشور” ملے جو دہشت گردی کو گلوریفائی کرتے ہیں اسکا جواز محرومیوں کی صورت میں پیدا کرتے ہیں۔ اور نظریاتی بددیانتی کی حد یہ ہے کہ سہولیات کو حقوق کا نام دے کر حقوق کا بہانہ پیش کرتے ہیں۔
کیا ان سہولیات کی کمی میں سب کچھ جائز ہوجاتا ہے ؟

میکسیکو کا صوبہ سنالوآ Sinaloa یا کولمبیا کا صوبہ میڈی این Medellin بھی بے پناہ غربت اور عسرت کا شکار تھے تو وہ منشیات کی تیاری اور فروخت کے عالمی گڑھ بنے۔ تو کیا دنیا نے یہ جواز تسلیم کرلیا کہ انکی محرومیوں کا علاج کریں منشیات کی تیاری خود بخود ہی رُک جائے گی ؟

ایسی احمقانہ کہانی ہمارا دانشور ہی سنانے کا اہل ہے ،کوئی ذی شعور ہرگز نہیں، حالانکہ منشیات کی تیاری بے گناہ انسانوں کے قتل سے کہیں کم گھناؤنا جرم ہے۔ منشیات کا شکار تو امیر طبقہ ہوتا ہے یہ لوگ غریب مزدوروں کے قاتل ہیں غریب مزدور کے قاتل کا بھی جواز گھڑنے کا اہل ہے ہمارا دانشور !

منافقت کی انتہا یہ ہے کہ یہی دانشور داڑھی والے، دہشت گرد ی کا جواز دینے والے عمر میڈیا کا نظریاتی دہشت گرد کہہ رہا ہوتا ہے اور بغیر داڑھی والے قاتل دہشت گرد کے لیے نظریاتی دہشت گردی خود کر رہا ہوتا ہے۔

محرومی کبھی بھی قتل و غارت گردی کا جواز نہیں ہوتی اور نہ ہی صرف محرومی سے کوئی دہشت گرد تنظیم خود بخود بن جاتی ہے۔ ایسی تنظیم کے لیے افراد کی بھرتی ، ٹریننگ ، ٹریننگ کیمپس سے لیکر اسلحہ کی فراہمی، سیف ہیونز جہاں انکے آرام و علاج کا بندوبست ہو، کمیونیکیشن کے سسٹم سے لیکر سلیپر سیلز و مخبری کے لمبے چوڑے نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو کوئی غیر ملکی ایجنسی ہی فراہم کرتی ہے۔ ورنہ محرومی تو جنوبی پنجاب میں میرے اپنے ضلع اور تھرپارکر میں بھی بہت ہے اور چولستان میں بھی۔ وہاں اس سب نے جنم کیوں نہ لیا ؟

بلوچستان کی پسماندگی اور محرومی تو نوّے کی دہائی میں بھی بہت تھی تو پھر یہ تنظیمیں تب کیوں نظر نہ آئیں؟ آخر کیا ہوا کہ گوادر بندرگاہ کا پروجیکٹ شروع ہوتے ہی انکو یکایک یہ یاد آگیا ؟
صاف بات ہے کہ نوّے کی دہائی میں کوئی سرپرست موجود بھی تھا تو کروڑوں کا پیسہ پھینکنے کو تیار نہ تھا ،گوادر کا پروجیکٹ یعنی محرومی کا علاج شروع ہوا تو اس سرپرست پیسہ خرچ کرنے کو تیار ہوگیا اور یہ قتل کر کے پیسے کمانے کو۔

قصّہ محرومی کا نہیں کچھ اور ہے، یہ سیدھی سادی منشیات کی گینگ جیسی کہانی ہے جو صرف پیسے کے لیے ریاست کو بلیک میل کرنے کے لئے بے گناہوں کو قتل کرنے پہ تُلے ہیں اور کچھ نہیں۔
آپ کیا مذاکرات کریں گے ان سے ؟

ان میں نظریاتی صرف اللہ نذر ہے یا مند کا غلام محمد بلوچ تھا جو تربت میں قتل ہوا۔
سوشل میڈیا کی آمد کے بعد ان لوگوں نے یوٹیوب سے اپنی ویڈیوز ہٹا دی ہیں اور اپنی ویب سائٹس پہ اپنا مواد ہٹا دیا کیونکہ انہیں سوشل میڈیا میں اپنی حزب التحریر دانشور کی صورت میں جو مل گئی۔ جو انکا مقدمہ مظلومیت کے نام پہ لڑتا تھا ورنہ انکا اصل موقف تب وہاں موجود تھا۔
سنئے اللہ نذر کو جب وہ ایک تعلیمی ادارے میں بی ایس او کے طلبا سے خطاب کرتا ہے۔
“ جمہوریت ہمارا راستہ ہے ہی نہیں، کتنے قومیت پرست بلوچ ہونگے ؟ اور پھر ان میں سے کتنے منتخب ہوکر اسمبلی جائیں گے ؟
ہمارا غیر مشروط مطالبہ صرف آزادی ہے اور اس کا راستہ صرف بندوق سے ہی نکلتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں”

یہ وہ تقریر تھی جس کے بعد اسے ایجنسی والوں نے اٹھایا اور مار پیٹ کے رہا کردیا اس کے بعد وہ میدان جنگ میں متحرک ہوگیا۔
تربت میں 2008 میں قتل ہونے غلام محمد بلوچ کی سنیں جو اس نے لیاری میں 2004 کے ایک جلسے میں کہا
“ یہ جنگ ہم پہ مسلط نہین کی گئی بلکہ یہ جنگ ہم نے شروع کی ہے۔ “
اس وقت تو کوئی مِسنگ پرسنز نہ تھے اس جنگ کے شروع کرنے سے قبل اس نے جو مطالبات ریاست سے محرومیوں کے ضمن میں کئے تھے انکی لسٹ دکھا کر مجھے شرمندہ کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

ایک مغالطہ جو ملک میں موجود ہے وہ یہ کہ حالات چند سرداروں نے خراب کئے ہوئے ہیں۔
بھائی اس میں سرداروں کا کچھ لینا دینا ہی نہیں ،وہ واحد سردار جو کوئی مسلح تنظیم چلا رہا ہے وہ اختر مینگل کا بھائی ہے جو “ لشکر اسلام “ کے نام سے عموماً اہل تشیع کے خلاف سرگرم ہے ،رمضان مینگل بھی اس کا حصہ ہے اور بھی سردار اختر مینگل کا کزن ہے۔ لیکن یہ اسلامسٹ ہیں جو لشکر جھنگوی کے طرز کے لوگ ہیں۔ باقی ساری بلوچ قبائلی بیلٹ اس شورش سے دور کھڑی رہی ماسوائے بھرتی ہونے والے فٹ سولجرز کے۔

سرداروں کا تو اس میں کچھ لینا دینا ہی نہیں تھا ماسوائے نواب خیر بخش مری کے جو مری ایجنسی نہیں بلکہ کراچی میں بیٹھ کر آخر دم تک کھیل کی رہنمائی کرتے تھے۔
اس بار شورش کا مرکز کیچ، مکران خاران کے ڈویژن تھے جہان قبائلی معاشرہ نہیں بلکہ دیہی زرعی شہری معاشرہ ہے۔ اور اللہ نذر یا غلام محمد بلوچ کا تعلق بھی اسی بیلٹ سے تھا۔ اللہ نذر کو تو سرداروں پہ بغاوت نہ کرنے کا اتنا غصہ تھا کہ “ بلوچ وارنا” اور “ سردار واچ” بلاگ سائٹ پہ اس نے ان کو بلوچ قوم کا غدار کہہ کر ان کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ جس کے کچھ ہی بعد نواب ذوالفقار مگسی کے قافلہ پہ بم دھماکہ ہوا۔ نواب ذوالفقار مگسی جو اس وقت بلوچستان کے گورنر تھے کھرے اور ایماندار شخص تھے ، یہ وہی تھے جنہوں نے ملکی نظام پہ گورنر شپ کے دور میں تنقید کرتے کہا کہ صرف دو تین سو مجرموں کو لٹکا دو بجائے پناہ دینے کے ، ایک بار عبرت کی مثال قائم ہوگئی تو سب ٹھیک ہو جائے گا، انہوں نے اللہ نذر کو اس حملہ کے جواب میں دھمکی دی تھی کہ اگر کسی سردار کا بال بھی بیکا ہوا تو قبائلی لشکر بندی کرکے تم مکرانیوں پہ حملہ آور ہونگے اور عبرت کی مثال بنا دیں گے۔

اس کے بعد اللہ نذر جیسا کیمونسٹ انقلابی بھی دہل گیا اور باز آگیا۔ یہ لوگ جتنے بھی انقلابی یا نظریاتی ہوں صرف طاقت کو مانتے ہیں۔
جہاں تک ریاست کی طرف سے نرمی دکھانے اور آزادی دینے کی بات ہے تو کیا ماضی میں ریاست یہ دکھا نہیں چکی ؟

لیاری کے رہائشی دانشور کو خوب پتہ ہے لیکن منافقت سے کام لیکر چھپاتا ہے۔ بھائی دانشورو ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ 2008 میں تربت مین غلام محمد بلوچ کے اپنے ہمراہ شیر محمد بلوچ اور جان محمد بلوچ کے قتل( جس کو بعد میں غلام محمد کے بھائی نے بھی مانا کہ جان سولیکی کے براہمداغ بگتی کی طرف سے اغوا کے تاوان کی رہائی ، جس میں غلام محمد نے درمیانی رابطہ کا رول ادا کیا تھا، میں تاوان کی رقم کے غلام محمد بلوچ کی طرف سے خرد برد کئے جانے پہ بطور سزا براہمداغ نے ہی غلام محمد کو ساتھیوں سمیت قتل کرایا ) کے بعد یہ الزام ایجنسیوں پہ لگا اور کیچ مکران میں آگ لگ گئی کیونکہ لوگوں نے یقین کر لیا۔

یہ وہ دور تھا جب تربت میں غلام محمد کی پارٹی اور بی ایس او آزاد ( اللہ نذر گروپ ) کے میلوں لمبے جلوس نکلتے تھے جس پہ بنوک کریمہ بلوچ مشہور ہوئی کیونکہ نصرت جاوید نے ناک کے ساتھ اس کا بولتا پاکستان میں انٹرویو کیا۔
تب حالات واقعی خراب تھے لیکن ریاست نے مکمل پسپائی اختیار کی پولیس اور انتظامیہ کے افسران تبادلہ کروا گئے مقامی اہلکار لمبی چھٹی پہ گھر بیٹھ گئے۔ آزادی مل چکی تھی لیکن اس کا استعمال کس طرح ہوا ؟

بہت جلد یہ گروپس پیسے کی خاطر آپس میں ہی لڑنا شروع ہوگئے اور ڈونر کی بھی کام کی بنیاد پہ پیسہ دینے کی شرط ایسی تھی کہ بلوچ نظریاتی گروپس مزید ٹوٹ گئے اور انکی گینگ وار شروع ہوگئی۔ یہ وہ دن تھے جب زبیدہ جلال کو مند سے ، ڈاکٹر مالک کو تربت سے اور سردار اختر مینگل کو خضدار سے ہجرت کرنا پڑی۔ صحافیوں کو درست رپورٹنگ کے جرم میں قتل کیا گیا۔

لیاری کے دانشور کی غلطی یہ ہے کہ سمجھتا ہے کہ چاہے اندرون بلوچستان چھوڑے اس کو دہائیاں بیت گئیں ، لیکن بلوچستان کے تازہ ترین حالات اور زمینی حقائق وہ زیادہ جانتا ہے بہ نسبت ملک سے باہر بیٹھے ایک فرد کے۔

جبکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ یہاں یورپ میں بے شمار ایسے پاکستانی ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ پہ یو این او کا پاسپورٹ لیا ہوتا ہے اور وہ سیدھے طریقے سے پاکستان جا نہیں سکتے۔ تو ایران کا ویزہ لیکر بلوچستان کے اس شورش زدہ علاقے سے کبھی مند کبھی مشخیل کبھی جیوانی اور کبھی اور راہ سے انسانی سمگلروں کے ذریعے تربت پنجگور مستونگ خضدار سے ہوتے گھر تک جاتے بھی ہیں اور آتے بھی ہیں۔ ہر بار بدلتے حالات کو دیکھتے ہیں چاہے ایران کے اندرونی ہوں یا بلوچستان کے۔
کیا آپ دانشوروں نے کبھی بتایا اس تاریک دور کا جب وہاں پاکستانی پرچم لہرانے پہ گولی مار دی جاتی تھی تب ایک قصبہ سے دوسرے کا دن کی روشنی میں بھی سفر محال تھا( آزاد بلوچستان) تب ایک روڈ robber حاجی نلندر ہوا کرتا تھا جو مقامی بلوچ مسافروں کے پاس پیسہ نہ ہونے کی صورت میں انکا عضو تناسل پلاس سے کھینچ کے اکھاڑتا تھا۔

عوامی اعتماد کی جنگ یہ سرمچار تب ہی ہار گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ مکرانی بلوچستان کے لوگ مرکز سے کبھی نہیں ملے الگ تھلگ رہے ( جس میں مرکز کی غلطیوں کی تفصیل پھر سہی ) لیکن دوسری طرف ان دہشت گردوں سے بھی بیزار لیکن خوفزدہ ہیں۔

مشخیل سے تربت جاتے ایک دوست کو ٹیکسی ڈرائیور نے مشکلات کے ضمن میں لیڈی ڈاکٹر کے نہ ہونے کی شکایت کی لیکن یہ بھی مانا کہ وہ پنجاب سے ہی آسکتی ہے اور ان لوگوں  نے پنجابیوں کو ڈرا دیا ہے انکی قتل و غارت کرکے لیکن اب ہم بھی سمجھ چکے ہیں وہ دوبارہ آئیں تو ہم اپنا کوئی لوکل پنچائت سسٹم بنا کر ان ( پنجابیوں) کی حفاظت کریں گے ہم نے بہت بھگت لیا۔ اس کی حاملہ بہن لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے مری تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ہے وہ ماحول جس میں کسی دانشور زدہ امن کی فاختہ نے سرمچاروں سے مذاکرات کی ٹھانی اور پیٹھ پہ خنجر چلا۔
کسی مزید حماقت کی گنجائش نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply