کائنات اور خدا – جبر و اختیار۔۔ابو جون رضا

کائنات اور خدا – جبر و اختیار۔۔ابو جون رضا/  ایک مشہور OTT پلیٹ فارم پر حال ہی میں ایک سیزن دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت ہی دلچسپ آئیڈیے پر مبنی چھ اقساط پر مشتمل سیزن تھا۔ اس کا آغاز اس طرح سے ہوا ہے کہ انسانوں کی اس دنیا میں ظلم و بربریت اور گناہوں کی افراط سے تنگ آکر خدا نے بذات خود گنہگاروں کو سزا دینے کا کام شروع کر دیا ہے۔ کسی بھی شخص کو ایک فرشتہ اچانک سے نظر آتا تھا جو اس کو مطلع کرتا تھا کہ تم آج سے کچھ دن بعد فلاں تاریخ کو فلاں وقت پر مر جاؤ گے اور تمہیں جہنم کا کندہ بنایا جائے گا۔ یعنی تمہیں نرکھ بھیجا جائے گا۔

مقررہ تاریخ کو مقررہ وقت پر گناہ گار شخص کے سامنے تین کالا دھواں اڑاتے بھیانک فرشتے ظاہر ہوتے تھے اور ان کی آمد کی دھمک اطراف میں موجود لوگوں کو بھی سنائی دیتی تھی۔وہ مطلوبہ شخص کو بری طریقے سے پہلے رگیدتے تھے، زخمی کرتے تھے اور اس کے بعد اس کے جسم سے اس طرح سے روح نکالتے تھے کہ روح نکلنے کے بعد صرف ایک جلا ہوا ڈھانچہ پڑا رہ جاتا تھا۔

اس معاملے کی خبر ایک مذہبی آرگنائزیشن کو ہوئی جس کے چئیرمین نے اس عمل کو خدائی پیغام بتا کر لوگوں میں پھیلانا شروع کیا اور لوگوں سے کہا کہ خدا ہمیں یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہم گناہ کا راستہ چھوڑ کر اچھائی کی راہ پر چلیں، توبہ کریں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کریں ورنہ خدا ایک ایک کرکے تمام گنہگاروں کو مار دے گا۔ اور فرشتوں کے  ذریعے جتنے بھی لوگ مارے جا رہے ہیں وہ یقینی طور پر بہت گناہ گار لوگ ہیں۔

آرگنائزیشن نے اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لئے ایک وکٹم کی تلاش شروع کی جس کو موت کا سندیسہ فرشتے کے  ذریعے مل چکا ہو۔ ان کو ایک عورت کا پتا چلتا ہے جس کے سامنے فرشتہ ظاہر ہوا تھا اور آنے والے دنوں میں جہنم رسید ہونے کی خبر سنا کر گیا تھا۔ یہ عورت دنیا کے سامنے لائیو براڈ کاسٹ کے زریعے مقررہ وقت پر سامنے آنے پر اس شرط پر راضی ہوتی ہے کہ اس کے بچوں کو تحفظ دیا جائے اور دوزخ کے فرشتوں کے ہاتھوں مرنے کے بعد ایک بہت بڑی رقم اس کے بچوں کو دی جائے۔ آرگنائزیشن کے چئیرمین اس کی شرائط مان لیتے ہیں۔ اس عورت کے بچوں کو کسی دوسرے شہر بھیج دیا جاتا ہے اور ایک معقول رقم عورت کو دے دی جاتی ہے۔

ad

مقررہ دن مقررہ وقت پر فرشتے سب کے سامنے نازل ہوتے ہیں اور اس عورت کو مار کر اس کی روح نکال لے جاتے ہیں۔ پولیس ، میڈیا کوئی کچھ نہیں کر پاتا۔ سب لوگ اپنے سامنے اس عورت کو کوئلہ بنتے دیکھتے ہیں۔یہ منظر دنیا میں لائیو براڈ کاسٹ ہوتاہے اور خوف کا یہ عالم طاری ہوتا ہے کہ وقوعہ پر موجود لوگ سجدے میں گر جاتے ہیں۔

کہانی میں ٹوئسٹ اس وقت آتا ہے جب ایک معصوم نوزائیدہ بچے کو تین دن بعد جہنم رسید ہونے کی خبر سناتے فرشتے کو بچے کی ماں دیکھتی ہے۔

اس کہانی کا مرکزی خیال دراصل مغربی سائنس کے ایک میکانکی (Mechanical) تصور سے ماخوذ ہے۔ جس کے مطابق خدا اس کائنات میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرتا۔ اس نے یہ کائنات بنا کر چھوڑ دی ہے جو کچھ اصولوں کی پابند ہے اور میکانکی طور پر چلتی ہے۔ کائنات کی یہ تصویر، جبریت (Determinism) کے رجحان کی تائید کرتی ہے۔

لاپلاس نے بھی پابندِ قوانین کائنات کے تصور کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا تھا اس کے مطابق، کائنات میں پیش آنے والے واقعات میں کسی مدبر اور منتظم خدا کا کوئی رول نہیں۔ یہاں جو کچھ ہورہا ہے، کچھ متعین قوانین کے تحت اپنے آپ ہوتا جارہا ہے۔ اگر خدا کے رول کی کوئی گنجائش ہے بھی تو صرف اتنی کہ اُس نے کائنات کی اس عظیم الشان مشین کو ابتدائی حرکت دے دی تھی (جیسے ایک گھڑی ساز کا گھڑی بنانے کے بعد کوئی رول باقی نہیں رہتا، وہ میکانکی انداز میں چلتی رہتی ہے) یعنی اس کے بعد کسی مدبر کی تدبیر کی کوئی ضرورت نہیں رہی بلکہ قوانینِ فطرت کے تحت، قوتوں اور حرکات کے تعامل کے نتیجے میں اس وسیع کائنات کے گوناگوں مظاہر خود بخود وجود میں آتے چلے گئے۔

ایک مشینی کائنات کی اس تصویر نے جسے مغرب کی سائنس نے سترہویں صدی میں قبول کیا تھا۔ ابھی بھی اذہان کو متاثر کیا ہوا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے واضح طور پر جبریت کو درست قرار دیا تھا اور انسانی آزادی و اختیار (Free Will) کو محض واہمہ ٹھہرایا تھا۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم مغربی سائنس، میکانکی تصورِ کائنات کا سہارا لے کر ایک مدبر و حکیم، مالکِ کائنات کے انکار کی طرف ذہنوں کو مائل کرتی ہے۔

یہ سیزن مکمل طور پر اسی نظریہ کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ کائنات میں پیش آنے والا ہر حادثہ یا تو میکانکی نظام کا ایک جزو  ہے یا پھر انسان کے اپنے تجربات ہیں جن کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فائدے اور نقصان کا وہ خود  ذمہ دار ہے۔ اگر انسان ہر معاملے میں خدا کی مداخلت ضروری سمجھے گا تو پھر اسے خدا کے ہر فیصلے کو بغیر کسی اعتراض کے قبول کرنا ہوگا۔ گناہ گاروں کی فوری پکڑ کا احساس جرائم میں وقتی طور پر ڈر و خوف کی وجہ سے کچھ کمی کا باعث تو بنے گا لیکن چند دن بعد کچھ لوگ خود کو خدا کا نمائندہ بتا کر یا خدا کے پیغام کو پھیلانے والا بتا کر مزید ظلم و بربریت کا بازار گرم کریں گے۔

بعض اسکالرز کے مطابق مظاہر فطرت کی تشریح کے لیے صرف قوانین فطرت کا مطالعہ ہی کافی نہیں ٹھرایا جاسکتا ۔ جاندار موجودات (یعنی نباتات، حیوانات اور انسان) اُن سب خصوصیات کی حامل تو یقینا ً ہیں جو جمادات کے اندر موجود ہیں مثلا ً جگہ گھیرنا اور مادی قوتوں سے متاثر ہونا۔ لیکن ان جاندار موجودات میں بعض امتیازی خصائص بھی ہیں (جو جمادات میں نہیں پائے جاتے)۔ ان امتیازی خصائص میں دو کی حیثیت بنیادی ہے یعنی حیات اور شعور جن کا مطالعہ کائنات کی تشریح کے لیے بہت ضروری ہے۔

میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اب مذہب سے وابستہ اسکالرز حضرات کو کوانٹم تھیوری کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے جس سے عموما الحاد سے وابستہ لوگ صرف نظر کرتے ہیں۔ اور پرانے مذہبی فلسفے میں پائے جانے والے اس سقم کو دور کرنا چاہیے جس سے فطرت کی موجودگی اور مدبر و منتظم ربِ کائنات کی تدبیر و انتظام کے مابین تضاد نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے تو لگتا ہے جیسے یہ کائنات تمام
ہے بازگشت یقیناً ، صدا کسی کی نہیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کائنات اور خدا – جبر و اختیار۔۔ابو جون رضا

  1. انسان نے آخرت اور اس دنیا کو گڈ مڈ کر دیا ہے یا دوسری دنیا کا یعنی آخرت کا سرے سے انکار کر دیا ہے یہ دونوں کیفیتیں مزید معاملے کو الجھا دیتی ہیں
    انسان کو تین چیزی۔ سمجھنا لازمی ہیں ان کے بغیر کچھ بھی سمجھنا نہ سمجھنے کے برابر ہے
    خدا کائنات اور انسان
    خدا وہ نہیں جو لوگ سمجھتے ہیں خدا وہ ہے جیسا پیغمبروں نے سمجھا
    کائنات پورے کی پوری اپنی وسعتوں کے ساتھ دارالامتحان ہے نہ کہ دارالجزا
    انسان وہ ہے جو ان دونوں معاملوں کو گہرائی سے

Leave a Reply