جاوید خان ہندو کش کے دامن میں۔۔ قمر رحیم خان

جاوید خان ایک پریشان روح ہے۔ کس کی ہے؟ کم ازکم میری تو نہیں ہے۔یہ ‘‘پکّی پروہڑی’’ روح ہے۔جواپنے ہم عصروں کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ اس کا رخ شمال اور شمال مغرب کی طرف ہے۔‘‘عظیم ہمالیہ کے حضور’’ کے ایوراڈ کی وصولی کے لیے کراچی سے دعوت ملی تو صاف مکر گیا۔ کسی نے دھکا دے کر سٹارٹ کیا تو ایوارڈ وصولتے ہی بھاگ آیا۔ ہمالیہ کی جی حضوری سے ابھی فارغ نہیں ہوا تھا کہ ہندوکش کے دامن میں جا بیٹھا۔ان دنوں ایک ماہ کے لیے راولپنڈی میں قیام پذیر ہے۔ اللہ خیرکرے تو کچھ ہی دنوں میں آپ کے ہاتھ میں ‘‘پوٹھوہار کے پہلو میں’’ کے نام سے ایک نیا سفر نامہ ہو گا ۔حالانکہ اب اسے ‘‘ زلفوں کی گھٹاؤں میں’’ یا ‘‘پلکوں کی چھاؤں میں’’ جیسے عنوانات پر لکھنا چاہیے۔لیکن وہ بہت شرمیلا رائٹر ہے۔ اسے پتہ ہونا چاہیے کہ ‘‘شرمیلا ’’ کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جاوید کا دراصل تعلق ہی نہیں ایک مقام بھی ہے، جس کے حصول میں وہ ہمالیہ کے بعد اب ہندو کش بھی عبور کرآیا ہے۔‘‘ہندوکش کے دامن میں ’’ اس کا دوسرا سفر نامہ ہے۔ یعنی وہ اپنے سفر میں ایک ‘‘پوہڑی’’ اور اوپر چڑھ گیا ہے۔ یہ ‘‘پوہڑی’’دس ہزار فٹ سے زیادہ اونچی ہے۔ اتنی اونچائی پر کھڑے جاوید کو دیکھتے ہوئے میری ٹوپی گر گئی۔مجھے ٹوپی کے گرنے کا اتنا رنج نہیں ہوا جتنا گنجی کوپری کے بے پردہ ہونے پر غصہ آیا۔اسی بنا پر تو تڑاک پہ اتر آیا ہوں۔ ورنہ ایک مخصوص حلقہ احباب کے علاوہ ‘آپ’ اور‘ صاحب’ کی تسبیح کرتے کرتے لقویٰ ہو جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوتا جب تک‘ آپ’ اور‘ صاحب’ کی مد میں کمائی گئی نیکیوں کو دریا برد نہ کر دوں۔ کتے کو گھی ، مجھے نیکیاں ہضم نہیں ہوتیں۔ خصوصاً اخلاقیات اور آداب کے باب میں بامر مجبوری کمائی گئی نیکیاں۔‘آپ ’کااپنا مرتبہ ، تو کا اپنا مقام ہے۔‘ آپ’ کو کہکشاؤں تک لے جائیے،‘ تو’ کے مقام ِ تک نہیں پہنچ سکتا۔کتنے خوش قسمت لوگ ہیں وہ، جو ان کے درمیان رہتے ہیں جنہیں وہ تو کہہ کر بلاتے ہیں۔مجھے ایک سو درہم کا پٹرول جلا کر اور دو سو کلو میٹر سفر کر کہ ایسی عظیم ہستیوں کی صحبت نصیب ہوتی ہے۔وہ بھی سال میں دو چار بار۔چند سال قبل میرے ساتھ ایک افسوس ناک حادثہ پیش آیا۔ مجھ سے فقط ڈیڑھ سال بڑی خالہ نے اچھی خاصی عزت افزائی کے بعد مجھے تو کہنے سے روک دیا۔ بہت پرتکلف کھانا بناتی ہے۔ لیکن کھلانے کے بعد ‘‘آپ’’ کہہ کر منہ کا ذائقہ خراب کر دیتی ہے۔بہت افسوس ہوتا ہے۔ سوچتا ہوں دنیا کو کیا ہو گیا ہے۔یقینا دنیا بھی ایسا ہی سوچتی ہوگی۔آج مدت بعد اسے تو کہہ کر دل بلیوں اچھل رہا ہے۔لیکن ادھار کی عمرہی کتنی ہوتی ہے۔سچ پوچھیے تو دنیا ایک طرح ، میں دو طرح کے قحط الرجال کا شکار ہوں۔ جاوید کو اس نعمت کے میسر آنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ابھی کل ہی میری گیارہ سالہ بیٹی اپنا کمرہ صافٖ کرکہ ماں کو کہہ رہی تھی،تم نے ایک با ر بھی اللہ کا شکر ادانہیں کیا جس نے تمہیں مجھ جیسی بیٹی دی ہے۔
جاوید اپنے ہم سفروں سے کتنا بے تکلف یا پر تکلف ہے، سفر نامہ میں ا س کی کوئی قابل گرفت شہادت نہیں ملتی۔ سب لوگ پابند صوم و صلوٰۃ ہیں۔ کوئی ایک بھی بے نمازی نہیں ہے،کوئی سگریٹ پیتا ہے، نہ چرس۔ حتیٰ کہ نسوار کھانے والابھی کوئی نہیں۔ گاڑی میں ٹیپ تو درکنار، موسم کا حال سنانے والا ریڈیو بھی نہیں ہے۔ یہ جاوید و ہمنوا کا دوسرا سفر ہے جسے پڑھ کر لگتا ہے پورا پاکستان اللہ میاں کی گائے بن گیا ہے۔دونوں اسفار میں ان کی ملاقات کسی کن ٹوٹے، نک کٹے سے نہیں ہوئی۔ ان کی جیب کٹی نہ چوری ہوئی۔ گاڑی خراب ہوئی، نہ پھنسی، حتیٰ کہ ٹائر بھی پنکچر نہیں ہوا۔ یہ سیر و تفریح پہ تھے یا تبلیغ کے سفر پہ؟جاوید کے ہنر کی داد دینا پڑتی ہے کہ اتنے ‘حاجی صاحب’ سفر کو اس نے اپنے زور قلم سے دلچسپ بنا دیا ہے۔ کسی لکھاری کا اس سے بڑا اور کیا کارہائے نمایاں ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی اسے ہمارے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا پہلا سفر نامہ 2020ء کے بہترین سفر نامہ کا ایوارڈ وصول کر چکا ہے۔میرے استادمحترم،محمد کبیر خان اکثر کہا کرتے ہیں کہ لکھنے کے لیے پڑھنا پڑتا ہے۔ میں اس نصیحت پر مکمل طور پہ عمل پیرا ہوں اور اپنے لکھے کو بار بارپڑھتارہتا ہوں۔ جاوید کو اس بات کی صحیح سمجھ نہیں آئی اس لیے ادھر ادھر سے بھی کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا ہے۔ جس کی چغلی اس کی دونوں کتابیں کھا رہی ہیں۔لہٰذا اس کے لکھے پر کوئی پڑھا لکھا آدمی ہی لکھ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں سفر نامے پہ نہیں سفر پہ اپنی آرا کا اظہار کر رہا ہوں۔
یہ سفر دو حصوں ، راستے اور منزل پر مشتمل ہے۔دوران سفر جاوید لکھاری سے زیادہ کھوجی بن جاتا ہے۔وہ اپنے ہم سفروں کی جلد بازی کی شکایت کرتے ہوئے کہتا ہے ‘‘سیاحت ہر سیاح کے بس کی بات نہیں۔ سیاحت کے لیے ایک الگ ریاضت اوربرداشت کی ضرورت ہوتی ہے’’َ ۔اس کی شکایت بے جا ہے۔ دراصل اسے مردان میں، بلکہ ٹیکسلا میں اتر کرتمبو لگا لینا چاہیے تھا تاکہ گندھارا تہذیب کے آثار کو کریدتا رہتا تا وقتیکہ اس کے ساتھی کیلاشا گھوم کر واپس آتے۔ان دنوں پھر ٹیکسلاکی بجائے پنڈی میں قیام کر کہ وہ غلطی کو دوہرا رہا ہے۔کل کو اپنے ہم سفر سے شکوہ کرتانظر آئے گا۔مجھے شک ہے وہ مارکوپولو یا کرسٹوفر کولمبس میں سے کسی ایک کی روح ہے جو اس بارپیدا ہونے میں صحیح جگہ کا انتخاب نہیں کر سکی۔اس کی یہ غلطی دنیامیں آنے کے بعد بھی بقول سید مودودیؒ انڈے بچے دیے چلی جا رہی ہے۔البتہ اس کا یہ فیصلہ درست ہے کہ سفر جتنا اورجیسابھی ہو اس پر لکھا جائے۔ یہ کام اسے آتا ہے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کا لکھا مجھ جیسا بھی شوق سے پڑھتا ہے۔
جاویداپنے مشاہدات کو بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے۔وہ قاری کو خود سے الگ نہیں ہونے دیتا ۔ اسے وادیوں، کہساروں، برف زاروں، دریاؤں اور تہواروں ، حتیٰ کہ مسجد میں بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ وضو کراتا ، نماز پڑھاتاہے۔لیکن ہوشیار رہیے گا، اس کے راستے میں مندر اور گوردوارے بھی پڑتے ہیں۔ اورماضی سے محبت اس کا دین ایمان ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اس نے آج تک راولاکوٹ کے گوردوارے کا ماتم کیوں نہیں کیا۔شاید فتوے سے وہ بھی ڈرتا ہے۔جبکہ دوسری طرف وہ اس بات پہ رنجیدہ ہے کہ کیلاشوں کو مسلمان کیوں بنایا جا رہا ہے۔ دراصل اسے ان کے مسلمان بنائے جانے کا نہیں ، ان کی بتدریج مٹتی ہوئی ثقافت کا دکھ ہے۔ حالانکہ اس کے ہم سفروں میں ایسے اولیاء کرام بھی تھے جنہوں نے کیلاشوں کے میوزیم سے بھاگ کر اپنا ایمان بچایا۔ جاویداپنے اندر ایک سیاح ہی نہیں ، سوچنے والا دماغ اور کڑھنے والا دل بھی رکھتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر کڑھتا اور اس سے بھی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتا ہے۔وہ پرتکلّف اوربہت اچھا لکھتا ہے ۔منظر کشی پر اس نے خصوصی توجہ دی ہے۔مارخوروں کے ایک گروہ کوچٹانوں پر کودتے اور دریا پر پانی پیتے ، اس نے کمال خوبصورتی سے دکھایا ہے۔
یہ سفر نامہ چترال، کیلاش اور کمراٹ وادیوں کے سفر پر مشتمل ہے۔جو قاری کو ایک نئی دنیا میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ یہ کیلاش قبیلے کی دنیا ہے۔ جس کے بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔مقامی لوگوں کے مطابق کیلاش لوگ اپنے مرنے والوں کو دفناتے نہیں تھے، بلکہ وہ میت کو اس کے زیور، اسلحے اور دیگر باقیات کے ہمراہ ایک بکسے میں بند کر کہ آبادی سے دور چھوڑ آتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے دفنانا شروع کردیا ہے۔ اس لیے کہ نو مسلم میتوں کا سازوسامان چوری کر لیتے تھے۔ جدیدیت کے اس تباہ کن دور میں بہت ہی قدیم تہذیب کو کیلاشا قبیلے کے لوگوں نے بہت کٹھن سے سنبھال رکھا ہے۔مگر وہ لوگ اب سہمی ہوئی زندی گزار رہے ہیں۔یہ المیہ اوراس سے جڑی ہوئی کئی دلچسپ و عجیب معلومات اس سفر نامے کا خاصہ ہیں۔جنہیں مصنف نے بہت محنت کے ساتھ خوبصورت پیرائے میں بیان کیاہے۔
وادی کیلاش کو چھوڑتے ہوئے وہ لکھتا ہے
‘‘ایشیا قدیم ہے، خوبصورت تہذیبوں کا وارث ہے، پر اسرار ہے اور مشرقی حسن کا نمائندہ ہے۔کیلاش اس کا قدیم ترین اور جیتا جاگتا میوزیم ہے۔یہ قدیم ترین تہذیب یہاں زندہ حالت میں موجود ہے۔ میں اس زندہ تہذیب سے رخصت ہو رہا تھا۔مجھے قلق تھا کہ میں اسے پورا نہیں دیکھ سکا’’۔……‘‘کیلاش دنیا کانایاب خطہ ہے۔صدیوں نہیں ہزارو ں سال پرانی تہذیب کا زندہ ثبوت ہے۔ایشیا کی قدیم ترین تہذیبوں کی آخری زندہ نشانی ہے۔ہمارے پاس وقت نہیں تھا ورنہ میں میں ان کے نخلستانوں تک جاتا۔ ان کی جادوئی جھیلیں دیکھنے کی کوشش کرتا جن میں لوہا پھینکنے سے طوفا ن آجاتا ہے۔راتوں کو ان کے ساتھ بیٹھ کر نظام شمسی کی کہکشاؤں کو دیکھتا، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ گائے اور گھوڑے کی آپس میں دوڑ سے اٹھنے والی گرد ہے’’َ۔
جاوید کی نظر اب کابل پر ہے۔ شاید وہاں سے ہو کر غزنی جائے گا۔ سیاحت کا جو خواب اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتا ، اس کے لیے سب کچھ لگا نا پڑتا ہے۔جس کاوہ متحمل نہیں کہ اسے اب خوشبووالا تیل بھی خریدنا پڑتا ہوگا۔تحریر کے حسن و جمال سے نابلد میں ،ا س کی کتاب پر کوئی رائے دینے سے قاصر ہوں۔البتہ ایک قاری اور پہاڑیا ہونے کے ناطے اتنا کہنا چاہوں گا کہ جاوید پہاڑوں کا بیٹا ہی نہیں ،پہاڑوں کا سفیر بھی ہے۔وہ ان کا نبض شناس، ہمراز و غمگسار ہے۔ اس نے پہاڑوں پربہت تفصیل اورخوبصورتی سے لکھا ہے۔یہ اس کا بڑا کنٹری بیوشن ہے۔یہ میرے لیے اگر خوشی کی بات ہے تو جاوید کے لیے فخر کا باعث ہے۔اس کی لگن،محنت اور محبت میں ڈوبی تحریروں پر میرے نزدیک اس سے بڑی کوئی حیثیت نہیں جس سے اسے متعارف کرایا جا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاحت کا جو خواب مصنف کے ذہن میں کلبلا رہا ہے ، اس کے لیے سب کچھ لگا نا پڑتا ہے۔جس کاوہ متحمل نہیں کہ اسے اب خوشبووالا تیل بھی خریدنا پڑتا ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply