پہیلی۔۔وجیہہ جاوید

تاحد ِ نظر سناٹے اور تاریکیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ آسمان پر دسمبر کی خنکی پُر غرور انداز میں براجمان تھی ۔وہ کالے رنگ کی سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ اس کو گھر سے نکالتے وقت چادر پکڑنے کی بھی مہلت نہ دی گئی  تھی۔ اس کو مارتے اور گھسیٹتے وقت اس کے سامنے موجود قانونی رشتوں کی گہری مسکراہٹیں اس کی روح کو ابھی تک زخمی کر رہی تھیں۔ اس کے معصوم بچوں کی سسکیاں اب بھی انہی شدتوں کےساتھ طاری تھیں۔رویوں کے چابک سے روح پرجو آبلے پڑے تھے ناسور کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ اس کے ذہن میں اپنے شوہر کا خیال آیا۔ نہ جانے اب اسے کیا کہانی سنائ گئی  ہو گی۔ وہ مردہ قدموں سے ڈولتی ہوئی نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔وہ شاید روشنیوں کی تلاش میں تھی ،آخر کار تھک ہار کر اس نے اپنے ننگے زخمی پیروں کو دیکھا سڑک پر موجود گرد نے اس کے پیروں میں اپنی جگہ بنا لی تھی، اس کا جسم اب بھی درد کی تکلیف سے ٹوٹ رہا تھا۔ وہ پاس ایک تھڑے پر بیٹھ گئی۔ آسمان پر چاند آنکھ مچولی میں مصروف تھا۔

شاید مجھے امی کی طرف چلے جانا چاہیے۔ اس نے خود کلامی کی تھی۔مگر سردیوں کی اس رات میں اسے سڑک پر سناٹوں کے علاوہ کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا ۔دو موٹرسائیکل سوار اس کے پاس سے گزرے اور اس کو بغور دیکھنے لگے ۔ہونٹوں پر سلیقے سے لگی ہوئی لپ اسٹک اس مارکٹائی کے دوران تھوڑی تک آ پہنچی تھی۔آنکھوں میں موجود گہرے کاجل نے دھبوں کی شکل اختیار کر لی تھی، مگر اس کا جوبن اس حالت میں بھی مرد کو اس کی طرف مائل کر رہا تھا، چل بیٹھ جا ۔۔چلے گی؟۔۔۔۔ نہ جانے وہ اسے کیا سمجھ بیٹھے تھے، بیٹھ بھی جا اب، نخرے کاہے کو دکھا رہی ہے ،اس کی نظر سامنے سوسائٹی گیٹ پر بیٹھے ہوئے چوکیدار پر پڑی اس نے بھاگنے کے انداز میں اس کی سمت چلنا شروع کردیا۔ سالی ریٹ بڑھا رہی ہے اپنا ،لڑکوں نے موٹرسائیکل دوسری سمت موڑ لی تھی ۔

چوکیدار تمام کاروائی دیکھ چکا تھا۔ٹھنڈ اور خوف کی شدت سے اس کا وجود کانپ رہا تھا ہاں بھئی لڑکی گھر سے بھاگ کر آ رہی ہو ،نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ،تو کیا پاگل ہو جو آدھی رات کو ننگے سر اور پاؤں نکل پڑی ہو یا مجھے پاگل بنانے کی کوشش کر رہی ہو ۔۔۔

میں نکلی نہیں ،نکال دی گئی ہوں ۔۔۔۔

کوئی آشنا کا چکر تھا۔۔؟ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں، نہیں

اب کیا چاہتی ہو۔۔؟

یہ سوال سن کر وہ چکرا گئی تھی، اسے تو خود کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے ۔ اس نے مردہ قدموں سے اپنا رخ بدلا تھا۔ وہ سوا نیزے پہ سورج کا آناجان چکی تھی۔گھر کی چاردیواری میں موجود تحفظ کی مہک اسے اب محسوس ہوئی تھی۔ اسے پھیکی چاندنی میں اپنا سایہ نظر آیا وہ ایک ہیولا سا تھا ۔وہ اپنا جسم شاید اپنی چادر کے ساتھ کھونٹی پر لٹکا چھوڑ آئی  تھی۔سائے میں دراڑیں پڑ رہی تھیں۔ اچانک ان دراڑوں میں بڑےبڑے شگاف پڑگئے۔ان کے اندر سے کدورتیں،حسد نفرتیں، خودغرضیاں جھانک رہی تھیں۔ اسے اپنی آنکھوں پر ابھی بھی یقین نہ آ رہا تھا شاید رات میں کوئی طلسم تھا یا اس کی آنکھوں میں جو آج وہ یہ سب بھی دیکھ رہی تھی ،جو کسی عام انسان کے دیکھنے کے بس کی بات نہ تھی ۔

چوکیدار جو نہ جانے کس چکر میں دبے پیر اس کا پیچھا کر رہا تھا، اس کا سایہ دیکھ کر ٹھٹھر گیا تھا۔وہ کسی کے ہونے کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے ایک لمحے کو پلٹی تھی ۔ اس مرد کی چیخ حلق میں پھنسی ہوئی تھی وہ اس کو اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی ماورائی مخلوق ہو ۔شاید اس کی بھی نظر اس سائے پر پڑ چکی تھی ۔اس نے سائے کی سمت جھک کر اپنے ٹکڑوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا،مگر اس پزل کا کوئی بھی کنارہ دوسرے سے میل نہ کھا رہا تھا ۔وہ اپنے سائے کی طرف جھک کر بیٹھی ہوئی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخرکار بڑی کوششوں کے بعد ان ٹکڑوں کو جوڑ لیا گیا تھا ۔مگر اب کے سامنے جو سایہ ابھرا تھا ۔وہ اس کے وجود کا حصہ تو نہ تھا ،یہ وہ سایہ نہیں جو اتنے سالوں تنہائیوں کا رفیق کار بنا رہا ہے ۔اس نے سڑک پر قدرے فاصلے پر موجود پانی کی طرف نظر دوڑائی۔اس نے پُرامید انداز میں اس کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اب اسے اپنا عکس اس پانی میں نظر آرہا تھا ۔اس نے عکس میں موجود اپنی آنکھوں کو دیکھا۔ خود غرضیوں میں لپٹی بے حسی اور بغاوت ان آنکھوں میں ناچ رہی تھی۔سامنے کسی گھر سے بچے کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے اور اسی ننگے سر اور پیروں کے ساتھ چاند کی سنگت میں منزل کا تعین کر کے روشنیوں کے سفر کا آغاز کر لیا تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply