منظر نامہ: میری موت کے بعد کا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(ایک)

صحن میں رینگتی، مسکین سی، مَیلی سی دھوپ
اور منڈیر پر اِک کوّے کی کائیں کائیں
عود، اگر بتّی جلاتا ہوا بوڑھا پنڈت
زیرِ لب باتوں میں مصروف کچھ گاؤں کے لوگ
سر کو نیوڑھائے ہوئی عورتیں دالان کے اک کونے میں
بیچ دالان میں رکھی ہو ئی
(بھگوے کپڑے سے ڈھکی)۔۔۔۔شاید ارتھی
میری ارتھی کہ جسے۔۔۔ بے سکت پاؤں مرے
عمر بھر ڈھوتے رہے ہیں کسی گٹھری کی طرح
آج لپٹے ہوئے چادر میں پڑے ہیں یہ پاؤں
اور جل جائیں گے آرام کے ساتھ!
دان پُن، کریا کرم، پھول، اچارج، مرگھٹ
( موت کا’گھاٹ‘ ) ، فنا کا وہ کنارہ کہ جہاں
سب پہنچتے ہیں مگر لوٹتا کوئی بھی نہیں)
سنسکرت کے بہت اشلوک جنہیں پڑھتے ہوئے
اک ’اچارج‘ہے پجاری جسے خود علم نہیں
ایسے اشلوکوں کا مطلب کیا ہے
کیا یہی ہو گا مری موت کا منظر نامہ؟
کیا یہی ہو گا مرا ا نت، کہو؟
کیا مرے بعد یہ اشلوک پڑھے جائیں گے
جن کے مطلب کا کسی کو بھی کوئی علم نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منظر نامہ: میری موت کے بعد کا

Advertisements
julia rana solicitors london

روح میری، شعشعہ، براق، راشد، ڈھونڈتی ہے
خود کو؟ یعنی اک بدن کو؟
شاید و باید، مگر یہ ہے کہاں ؟
وہ جسم جو یہ کھو چکی ہے کس جگہ ہے؟
جی، وہیں ہے، صحن میں رکھاہوا ہے
تو مری یہ روح پھر کیا ڈھونڈتی ہے؟
ہاں، یہی ۔۔ شاید اسے احساس ہے
اس جسم میں اک بار پھر ابداع تو ممکن نہیں ہے
پھر کہاں؟
اندیشہء گمشدگی بوجھل ہے میری روح پر۔۔۔
لیکن کسی تتلی سی چاروں سمت اڑتی
ڈھونڈتی ہی جا رہی ہے
اور پھر؟
ہاں ، اور پھر۔۔۔ اک شعلہء آواز سا
اٹھتا ہے اور گھیرے میں لے کر
روح کو یکبارگی اوپر ہی اوپر
دور اوپر
ایسے لے جاتا ہے جیسے
آخری کرنیں ہوں سورج کی افق پر!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply