تین م کی کہانی(پہلا حصّہ)۔۔شاہین کمال

تمہاری پہلی چیخ مانو  میری زندگی کی تجدید تھی۔ تمہارا سارا پہلا پل مجھے یاد ہے۔ وہ تمہارا پہلا دانت ہو ،پہلا قدم یا اسکول کا پہلا دن، سب ابھی بھی میری یادداشت میں جھلملاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد بھی کیا چیز بنائی ہے۔ اولاد تو انسان کو اپنا آپ ہی بھلا دیتی ہے۔ اولاد وہ محور ہے جس پر ماں باپ کی دنیا گھومتی ہے۔ ساری خوشیوں اور امیدوں کا منبع اولاد ہی تو ہوتی ہے۔

اسکول میں داخلے کے بعد تم بہت ذوق و شوق سے اسکول جایا کرتےتھے۔ مجھے تمہیں اسکول کے لیے صبح سویرے اٹھانے اور اسکول بھیجنے میں کبھی دِقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تمہارے سارے تعلیمی سفر میں مجھے کبھی بھی تمہیں پڑھنے کی تاکید نہیں کرنی پڑی بلکہ مجھے تو تمہیں سونے کے لئے کہنا پڑتا تھا، پڑھنے سے روکنا پڑتا تھا۔

جب تم آٹھویں جماعت میں آئے تھے تو تمھیں کرکٹ کا جنون ہوگیا تھا مگر پڑھائی ہمیشہ کی طرح تمہاری اولین ترجیح تھی۔ شروع میں جب کبھی تم میچ ہار جاتے تو میری گود میں منہ چھپا کر لیٹ جاتے تھے، پھر میں نے تمہیں ہار کو وقار سے جھیلنا سکھایا تھا۔ تمہیں بتایا کہ زندگی سارے رنگوں سے عبارت ہے اور اس کی خوبصورتی سے محظوظ ہونے کے لیے سب جذبوں سے آشنائی ضروری ہے۔ زندگی کا جام تو گویا کوک ٹیل ہے جس کی رنگینی و تلخی، جیت اور ہار ہی میں تو مضمر۔

تم صرف ایک بار پڑھائی میں کمزور پڑے تھے۔ تمہارے مارکس تب گرے تھے جب محلے میں بیگ صاحب نئے نئے کرائے دار کے طور پر آئے تھے۔ اس وقت تم سکینڈ ائیر میں تھے اور تمھارے مارکس گرنے کی وجہ بلا شبہ حسین تھی مگر ٹائمنگ بہت سنگین تھی۔ تم نے پہلی بار اپنی ترجیحات بدلیں تھیں ، گو وہ عرصہ بہت مختصر رہا مگر اس محبت کا اثر دیرپا تھا کہ
کم عمری میں جذبے خالص اور شدید ہوتے ہیں۔ یقین مانو منو تب بھی میرا دل دکھا تھا، مگر میری جان ہر چیز اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے۔ میرے سمجھانے پر تم مان گئے تھے اور تمھاری سعادت مندی نے میرے دل کو ملول کر دیا تھا، مگر تمہارا وہ سال بہت قیمتی تھا۔ تم نے پڑھائی پر توجہ تو پوری طرح مرکوز رکھی مگر تم بدل گئے تھے ۔ میرا منوچہر وہ ہنستا کھلکھلاتا شرارتی منو نہیں رہا، تم اوپری ہنسی ہنستے تھے۔ اس واقعے کے عرصے بعد تک میں نے تمہاری خالص ہنسی نہیں سنی تھی۔ منو تمہاری شادی سے پہلے میں نے بیگ صاحب کو ڈھُونڈنے کی بہت کوشش کی تھی اور قسمت دیکھو، وہ لوگ مل بھی گئے مگر تاخیر ہوچکی تھی کہ رحمہ اب شادی شدہ تھی۔ تمہارے دل کا داغ میرے بھی دل کا زخم بنا تھا بیٹا۔ شاید اسی کو قسمت کہتے ہیں۔ اس قصے کے بعد تم نے پڑھائی تو نہیں مگر اپنی دوسری محبت کرکٹ اور طبلہ سب چھوڑ دیا تھا۔

میری بھیانک یاد تمہارا پہلا سگریٹ ہے، جو تم چھت پر ٹنکی کے پیچھے چھپ کر اختر کے ساتھ پی رہے تھے اور میرا زناٹے دار تھپڑ جس نے میرا ہاتھ جھنجھنا اور تمہارا گال سوجا دیا تھا۔ بعد میں میں نے اپنا ہاتھ بھی بٹے سے کچلا تھا اور تم میرے ہاتھ پر پٹی باندھتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔ تمہارے پاپا ہم دونوں کا کتنا مذاق اڑاتے تھے مگر ہم دونوں واقعی ایک دوسرے کے عاشق تھے۔ مائیں تو خیر ساری ہی اولادوں کی عاشق ہوتی ہیں مگر میں وہ خوش قسمت ماں ہوں جس کا بیٹا بھی اپنی ماں کے لئے جیتا ہے۔
تم نے اپنی شادی کا فیصلہ بھی کلی طور پر مجھ پر چھوڑ دیا تھا۔ اور میرا معیار تھی رحمہ۔ میری خواہش تھی کہ رحمہ تو نہیں مل سکی پر اس سے ملتی جلتی ضرور ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ امتل ایک اچھا انتخاب ثابت ہوئی۔ وہ تمہاری بہترین شریک حیات ہے۔ شادی کے بعد تمہارے چہرے کی چمک اور لہجے کی کھنک نے میرے دل کو شاد کیا اور وہ برسوں پرانا ملال جاتا رہا۔

پھر میرے شہر دلبرا پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ پر آشوب زمانہ بھی آیا جب والدین اپنی متاع حیات کو، اپنے بڑھاپے کے شجر سایہ دار کو زبردستی جلا وطن کر رہے تھے۔ اپنے بچوں کی زندگی کی بقا کے لیے اپنی زندگیوں کو اپنے سے دور کر رہے تھے۔ شہر سے لوگ اغوا برائے تاوان کی مد میں اٹھائے جا رہے تھے اور لا قانونیت کا دور دورہ تھا۔ اس درویش شہر کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ شہر کراچی خود اپنے جوانوں کو اپنے سے دور کر رہا تھا۔ انہیں دنوں تم لوگوں کو بھی بہت بھاری دل سے ہم دونوں نے امریکہ رخصت کیا تھا۔
تم اب بہت مصروف رہتے ہو۔ یہ دوری میرے
لئے سوہان روح ہے مگر میں اپنی ممتا کو تمہارے پیروں کی زنجیر نہیں کرنا چاہتی اور تمھاری

پرواز میں حائل نہیں ہونا چاہتی۔ تم اب امریکہ میں اپنے دونوں بچوں کے ساتھ سکون اور بےخوفی کے ساتھ رس بس چکے ہو۔ گو ہم دونوں کے درمیان اب سات سمندر حائل ہیں مگر اب بھی ہم لہجے سے ایک دوسرے کے دل کو کھوج لیتے ہیں اور ایک دوسرے کا بھید بوجھ لیتے ہیں۔ میری جان آج رات تم سے بات کر کے میرا دل کیوں بوجھل ہے؟ میرے منو کے لہجے میں معمول کی کھنک کیوں نہیں تھی؟ میں نے پوچھا تھا
” کیا ہوا ہے؟”
تم نے ٹال دیا کہ ” کچھ نہیں امی بس موسم بدل رہا ہے نا اس کا اثر ہے”۔
میں نے تمہارا دل رکھنے کو مان لیا مگر مجھے پتہ ہے کہ تمہاری امتل سے لڑائی ہوئی ہے۔ کیوں ہوئی ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ بچوں کی خیریت اور معمول کی ادھر ادھر کی بات چیت کے بعد میں نے کہا منو امتل دونوں بچوں کی دیکھ بھال، ان کی پڑھائی اور گھر داری میں بہت

مصروف رہتی ہے اور اب خیر سے تیسرے کی بھی آمد آمد ہے۔ اس کا خیال رکھا کرو بیٹا۔ منو تم تو ڈاکٹر ہو بہت اچھی طرح سے جانتے ہو کہ اس وقت ہارمونل چینج اور تھکن کے باعث عورت چڑچڑی ہو جاتی ہے۔ امتل اچھے سبھاؤ کی لڑکی ہے، میں جانتی ہوں کہ تم میں بھی بہت برداشت ہے۔ تم بھڑکے ہو تو ضرور کوئی
خاص بات ہو گی۔ میری جان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو آبگینے سے تشبیہ دی ہے۔ آبگینے سمجھتے ہو نا ؟ نازک ترین شہ ، تو بیٹا نازک چیزیں تو بہترین نگہداشت بھی مانگتی ہیں۔ میری جان بہترین مرد وہ ہے جس سے اس کے اہل خوش ہوں ۔ باظرف مرد ہی عورتوں کی عزت کرتے ہیں ورنہ تھرڈلے مرد تو عورتوں کو پیر کی جوتی ہی گردانتے ہیں۔ تم نے کبھی سوچا منو کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پسلی ہی سے کیوں پیدا کیا؟ کیونکہ عورت کا مقام دل ہے ۔ وہ دل کی مکین ہے اور وہیں سجتی ہے۔ تم لنچ بریک میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے غور کرنا۔

یقیناً بات اتنی گمبھیر نہیں ہوگی۔ شاید تمہارا دن ہسپتال میں اچھا نہیں گزرا ہوگا یا تم ٹریفک جام میں پھنس گئے ہو گے۔ ادھر گھر میں بچوں نے امتل کو بھی زچ کر دیا ہو گا بس ہو گئی گرما گرمی تم دونوں میں ۔ شام میں وآپسی پر اس کے لیے پھولوں کا گلدستہ لے لینا یا باہر کھانا کھانے چلے جانا۔ میری جان زندگی صرف اور صرف ایک بار ہے۔ اسے خفگی کے نظر مت کرو بلکہ زندگی سے خوشیاں کشید کرو۔
امی آپ کیسے جان لیتیں ہیں؟
اس لیے میری جان کہ تم میرے دل میں رہتے ہو۔
چلو اب فون رکھو اور فوراً کینٹین جا کر ناشتہ کرو۔ پتہ نہیں تم مرد لوگ اپنا غصہ ناشتے کھانے پر کیوں نکالتے ہو۔ اب میں فون رکھتی ہوں عشاء کی اذان ہو گئی ہے۔ نماز کے بعد مجھے دوا بھی کھانی ہے۔ ورنہ تمہارے پاپا سر پر سوار رہیں گے کہ دوا کھائی کہ نہیں؟ پھر بلڈ پریشر بھی چیک کرینگے۔ اب بھلا بتاؤ سوتے وقت
بلڈ پریشر چیک کرنے کی کیا تک ہے؟

اپنا خیال رکھنا۔ لو یو میرے بچے۔
عشاء کی نماز کے بعد میں نے امتل کو فون کیا اور وہاں بھی آواز کے بھاری پن کے استفسار پر وہی موسم کے بدلنے کی کہانی تھی۔ مجھے ہنسی آئی کہ یہ بچے ہم بوڑھوں کو کیا نادان سمجھتے ہیں؟ بھئی یہ بال دھوپ میں سفید تھوڑی کیے ہیں۔ میں نے امتل سے تو کچھ نہیں پوچھا کہ ساس کی مصری کی ڈلی بھی کڑوی کیسیلی ہی لگتی ہے۔ خیر خیریت کے بعد کہا کہ بیٹا مجھ پر ایک احسان کرو گی؟ (اب بھلا ایسے میٹھے داؤ سے کون نہ گھائل ہو گا) ۔ بیچاری فوراً بولی “جی امی حکم کیجئے”
میں نے کہا بیٹیا آج مجھے منو بہت یاد آ رہا ہے اور میرا بڑا دل چاہ رہا ہے کہ اس کو اس کا پسندیدہ کھانا کھلاؤں۔ پلیز تم کو تکلیف تو گی میری بچی مگر میری یہ خواہش پوری کر دو۔ آج منو کے لیے پلاؤ، کوفتے اور بیگن کا بھرتا بنا دو۔ اللہ تم کو شاد رکھے بیٹی۔
اس جزباتی تقریر کے بعد بیچاری بیٹی کے لیے

ساس نے کوئی دوسرا آپشن چھوڑا ہی کب تھا؟ غریب کو ہاں کرتے ہی بنی۔ ویسے بھی امتل سمجھ دار لڑکی ہے۔ اوچ نیچ کہاں نہیں ہوتی۔ جھگڑے کا یہ ہے کہ جلد از جلد ختم ہو جائے تو بہتر تاکہ شیطان کو کوئی اور پینترا کھیلنے کا موقع ہی نہ ملے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply