مظلوموں کی فریاد کوئی سُن رہا ہے؟۔۔ابھے کمار

مظلوموں کی فریاد کوئی سُن رہا ہے؟۔۔ابھے کمار/دو سال گزر گئے، مگر حالات نہیں بدلے۔ کچھ دن قبل جے این یو کے سابرمتی ڈھا بےپر  جنوری کی اسی سرد شام میں  شرجیل امام اور دیگر “سیاسی قیدیو ں” کی رہائی کے لیے ایک بار پھر جلوس نکالا گیا ۔ دو سال پہلے بھی اسی مقام پر اسی طرح کا جلوس منعقد کیا گیا تھا۔ ہر بار طلبہ اور سماجی کارکنان نے فریاد کی کہ شرجیل امام، عمر خالد، میران حیدر اور دیگر مسلم اور غیر مسلم سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے،کیونکہ پولیس نے انہیں دانستہ طور پر پھنسایا ہے ۔ وہیں دوسری طرف جو اصل قصوروار ہیں، اُن کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا گیا ہے، بلکہ انہیں ملک اور اکثریت ہندو طبقہ کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ افوسوس کی  بات ہے کہ  فریادی کی باتوں کو ابھی تک اَن سُنا کر دیا گیا ہے۔انصاف کی فریاد کرنے والے یہ نہیں کہتے کہ گناہ گاروں اور مجرموں کو بری کر دیا جائے۔ وہ تو یہ بھی مانگ نہیں کرتے کہ مسلمان اور دیگر محروم طبقات کے لیے کوئی خاص رعا یت دی جائے۔ ان کی تو بس یہی اِلتجا ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہو اور سب کو قانون کے سامنے برابر سمجھا جائے۔ قانون کا راج ہو، نہ کہ ناگپور سے کوئی فرمان آئے اور اسےہی قانون سمجھ لیا جائے۔ ملک کا محکوم طبقات یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فیصلہ لیتے وقت یہ نہ دیکھا جائے کہ کون اکثریت ہے اور کون اقلیت ہے، بلکہ بڑا، چھوٹا، امیر، غریب، ذات ، برادری، دھرم ، مذہب، جنس اور نسل کے تعصب سے پاک ہو کر فیصلہ دیا جائے۔ اگر ایسا ہو جائےگا تو کوئی بھی بے گناہ جیل میں اپنی زندگی برباد کرنے کے لئے مجبور نہیں ہوگا ۔

محکوم طبقات کے خلاف ہو رہے ظلم و ستم کا رشتہ ان کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی سے بھی ہے ۔ سرکار ی نوکری، کالج اور یونیورسٹی میں مسلمان اور دیگر کمزور طبقات کی نمائندگی اُن کی آبادی کے تناسب سے بہت ہی کم ہے، وہیں جیل اور پولیس تھانوں میں وہ اپنی آبادی کے نتاسب سے بہت ہی زیادہ قید ہیں۔ مسلمان اس ملک میں ۱۴ فی صد کے آس پاس ہیں، جبکہ اُن کی نمائندگی اعلیٰ تعلیم میں اُن کی آبادی سے تین سے چار گنا  کم ہے۔آخر کیوں آج سرکاری نوکری میں مسلمان چراغ لے کر بھی تلاش کرنے سے نہیں نظر آتے؟ کیا مسلمانوں میں میریٹ کی کمی ہے یا پھر مسلم امیدوار صلاحیت نہیں رکھتا؟ آخر بھارت کے مسلم نوجوان نوکری کے لیے کہاں جائیں؟ پڑھ لکھ کر جب ملازمت نہیں ملتی اور جب کوئی امیدوار کو انٹرویو میں اس لیے باہر کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اعلیٰ ذات میں پیدا نہیں ہوا تھا، تو اس سے بڑھ کر اور کیا نا انصافی ہو سکتی ہے؟ ایک تو مسلم امیدوار غریبی، فرقہ وارانہ تشدد اور تعصّب کی وجہ سے کالج کا گیٹ نہیں دیکھ پا تا ہے، اور جس نے کسی طرح گریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی، اُس کو بھی ہر روز دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کا بھی حال وہی ہے، وہاں بھی کچھ ہاں میں ہاں ملانے والے لوگوں کو ٹکٹ مل جاتا ہے، سچ بولنے والوں کو کوڑا دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ آزادی سے پہلے مسلمانوں کو ریزرویشن ملتا تھا، اُن کی نمائندگی آج سے کہیں بہتر تھی۔

ملک کی یہ بد قسمتی تھی کہ یہ دو حصّوں میں بٹ گیا اور بھارت کے متوسط طبقہ کےمسلمانوں کی ایک بڑی آبادی پاکستان چلی گئی اور آزاد بھارت کی سرکاری نے کبھی بھی مسلمانوں کو سچے من سے گلے نہیں لگایا۔ جہاں سرکاری اداروں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا گیا، وہیں فرقہ وارانہ تشدد میں ان کی جانیں لی گئیں اور جو زندہ رہ گئے  ان کو ہر روز مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے اقلیت کوبرابر کا شہری نہیں سمجھا۔ بھگوا لیڈروں نے اپنی کتاب میں اس بات کو درج کیا ہے کہ مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ بھارت کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں اور وہ اندر چھُپےہوئے دشمن ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دیش کا محکوم طبقات سرکاری نوکری اور اعلیٰ تعلیم میں اپنی آبادی سے کافی کم ہیں  اور جو اہم پوسٹ ہیں ان سے محروم طبقات کو دانستہ طور پر دور رکھا گیا ہے۔ دوسری طرف جیل میں وہ اپنی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے؟ بالکل نہیں۔ آج اسی پسمانددگی اور سرکاری تعصب کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کو انصاف نہیں مل پا رہا ہے ۔

اقلیتوں کے خلاف فرقہ وارانہ سوچ بھارت کی جمہوریت کے لیے خطرہ ہے ۔ یہ دیش کو اندر سے کمزور کر رہی  ہے۔ عدالت میں بھی مظلوم کے حق میں انصاف نہیں ،  کیونکہ مظلوم جب سماج میں کمزور ہے تو وہ عدالت میں برابر کیسے ہو سکتا ہے؟ جو غریب ہے، جو کمزور ہے، جو دلت، پسماندہ، آدی واسی، مسلم، عیسائی، خواتین ہیں، وہ سماج کے وسائل سے محروم ہیں، اُن کے لوگ نہ عدالت میں بیٹھے ہیں اور نہ ان کا کوئی سیاسی نیٹ ورک ہے ،اور نہ ہی ان کے پاس پیسے  ہیں کہ وہ بڑے سے بڑے وکیل کو اپنا کیس لڑنے کے لئے راضی کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کوطویل مدت تک جیل میں قیدرہنا پڑتا ہے۔

سچ پوچھیے تو شرجیل، عمر، میران اور دیگر مسلم اور غیر مسلم سماجی کارکنان کے خلاف کوئی مضبوط کیس نہیں ہے۔ اُن کا صرف اتنا ہی قصور تھا کہ اُنہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ یعنی سی اے اے کی مخالفت کی اور مذہب پر مبنی اس قانون کوواپس لینے کے لیے احتیاج میں حصہ لیا۔ کیاجمہوری ملک کے کمزور طبقوں کو اپنے اور ملک کے سیکولر آئین کے خلاف بن رہی پالیسی کی مخالفت کرنے کا بھی حق نہیں ہے؟

سی اے اے کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ، سرکار کے ترجمان بن چکے ٹی وی چینل نے شرجیل کے خلاف بہت زیادہ غلط فہمی پھیلائی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ شرجیل نے کوئی غیر قانونی کام انجام دیا ہے، بلکہ بھگوا طاقتیں اور سیکولر گروہ میں بیٹھے کمیونل عناصر کو یہ ڈر محسوس ہونے لگا کہ شرجیل جیسے پڑھے لکھے، بے باک اور تحریک سے جڑے ہوئےمسلمان ان کے لیے مستقبل میں ایک چیلنج ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے شرجیل کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور اسے ملک کے لیے خطرہ بتایا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ شرجیل  نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ سی اے اے کو واپس لینے کے لیے اور بے حس سرکار پر دباؤ ڈالنے کے لیے چکّا جام ضروری ہے۔ کیا چکّا جام کی  کال دینا ملک سے غداری ہے؟ کیا چکاّ جام کی اپیل کرنے والا شرجیل ملک کا پہلا لیڈر تھا؟ اگر نہیں ، تو اسے کیوں جیل میں بند کیا گیا ہے؟ اگر چکّا جام کی  کال دینا یا پھر پُر امن طریقے سے شاہین باغ کے دھرنے پر بیٹھنا ملک سے دہشت گردی ہے، تو نفرت انگیز تقریر دے کر دہلی دنگوں کو بھڑکانے والوں اور مظلوم کے خلاف حملہ کرنے والے بھگوا شر پسندوں کو کیا کہا جائےگا اور ان کے لیے کیا سزا ہونی چاہیے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ملک کی بد قسمتی دیکھیے کہ آج لوگوں کو اُن کا دھرم، مذہب اور ذات برادری دیکھ کر سزا اور انعام دیے جارہے ہیں ملک کے سچے محب وطن سے مظلوم طبقات کی یہ فریاد ہے کہ وہ سامنے آئے اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کریں۔ یہ ملک ساجھی وراثت اور ساجھی شہادت کا ہے۔ اس ملک کو اتنا کمزور انگریزی حکومت نے نہیں کیا، جتنا   دھرم اور مذہب کی لڑائی نے کیا ہے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔ بے گناہ قیدیوں کو انصاف ملنا چاہیے۔ کیا اس ملک میں مظلوموں کی فریاد کوئی سُن رہا ہے؟

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply