فرخ سہیل گوئندی اور اُن کا منفرد سفر نامہ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’/آخری حصّہ سوم/تبصرہ:ڈاکٹر اے بی اشرف

استنبول کی اس طویل سیر کے بعد اب ہم جہاں گرد کے ساتھ بلغاریہ پہنچتے ہیں جس کو میں رومانیہ ، ہنگری اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کو جاتے وقت چھوتے ہوئے گزرا تھا۔
استنبول کے سرکیجی ریلوے سٹیشن سے بلغاریہ کا ٹکٹ خرید کر مشہور زمانہ اورینٹ ایکسپریس (بلقان ایکسپر یس) کے ذریعے کسٹم ، امیگریشن ، خفیہ پولیس اور پولیس کی رسومات سے گزرتے بلغاریہ کے پہلے سٹیشن ‘‘سِولن گراڈ’’ پہنچے تو ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا اور انہیں باور آیا کہ اب وہ اپنے کسانوں اور محنت کشوں کے لیے بنی ریاست میں پہنچ چکے تھے۔بلغاریہ کی زمین کی پہلی کشش یہاں کا حسن ہے۔یہاں کے نسوانی حسن کی جو تعریف جہاں گرد نے کی ہے، وہ ایک حقیقت ہے۔
‘‘…….دراز قد ، سنہری بال،تیکھا ناک، گہرا سرخ رنگ، اور شخصیت پُر اعتماد۔ آنکھیں بند ہوئی تو پلکیں ایسے جیسے مصنوعی …اور سب سے قابل غور انفرادیت کہ لمبی ٹانگیں جو بلقانی عورتوں کے حسن کا ایک خاص پہلو ہے۔ اسی لیے تو عثمانی سلطان اور شہزادے بلقانی عورتوں کو اپنے حرم میں لانے کے لیے مرے جاتے تھے۔’’ (ص540 )
سِولن گراڈ کے بعد دیمتروف گراڈ ایک غیر معروف شہر آیا۔ 1983 ء میں پچاس ہزار سے اوپر آبادی کا یہ شہر کمیونسٹ انقلاب کے بانی گیورگی دیمتروف کے نام پر بسایا گیا تھا۔ چوں کہ رات کا وقت تھا، جہاں گرد بھی بہ امرمجبوری اپنی برتھ سیٹ کھول کر سو گیا ۔
صبح کو ریل گاڑی میں چہل پہل ہوئی تو جہاں گرد کے اردنی ساتھی عماد نے انہیں جگاتے ہوئی اطلاع دی کہ‘‘سہیل تیاری کرو ، صوفیہ آنے والا ہے۔’’
کمیونسٹ معاشرے کا جو خوفناک نقشہ سرمایہ دار ی نظام کے ممالک نے مشہور کیا ہوا ہے، وہ میری طرح جہاں گرد کو بھی صوفیہ پہنچنے پر نظر آ یا اور ان کا خوف آ ہستہ آہستہ گھٹتا چلا گیا۔صوفیہ کے خوبصورت شہر کے بارے میں جہاں گرد کا پہلا تاثر یہ تھا۔
‘‘صوفیہ کی صفائی ، فن تعمیر اور شہریوں کا پُر اطمینان طرزِ زندگی ….’’(ص556 )
بلغاریہ کی دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر صوفیہ میں عثمانی دور کی بنائی ہوئی مسجد ‘‘بانیا باشی جامع’’ اورسینٹندیلیا’’ کا گرجا گھر اور یہودیوں کی عبادت گاہ ‘‘صوفیہ سائناگاگ’’کو دیکھ کر جہاں گرد حیران رہ گیا کہ اس کے ذہن میں تو یہ بیٹھا ہوا تھا کہ کمیونسٹ ملکوں میں مذہبی آزادی نہیں ہوتی، مسجدوں پر تالے لگے ہوتے ہیں، یہا ں ملحدین ، بے دین ، بے ایمان ، بے رحم، سنگدل مخلوق بستی ہے۔ مگر میری طرح جہاں گرد کو بھی سب کچھ الٹانظر آیا ۔ حتیٰ کہ ٹرین کے لمبے سفر میں جب ٹکٹ چیکر نے ان سے ٹکٹ طلب کیا اور جہاں گرد نے اسے اشاروں کی زبان میں بتایا کہ اس کے پاس مقامی کرنسی لیوا نہ ہونے کے سبب ٹکٹ خریدنے سے لاچار رہا تو اُس نے مسکرا کر اُسے نظر انداز کر دیا۔جہاں گرد نے اس ٹرام میں مفت سفر کیا جو کافی طویل تھا۔آخری سٹاپ ستودینسکی کا تھا جو یونیورسٹیوں ، کالجوں ، باغوں ، پلے گراؤنڈز اور ہوسٹلز پر مشتمل دنیا تھی۔ جہاں گرد کے مطابق یہ شہر صرف بلغاریہ کے طالب علموں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر سے مفت تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
سرخ جنت میں دنیا بھر سے آئے ہوئے اشتراکی طالب علموں کی بستی ‘‘ستودینسکی گراڈ’’پہنچ کر جہاں گرد میڈیکل فیکلٹی کے ایک طالب علم رؤف کے مہمان بن گئے۔ گویا وہ بھی ان بیس پاکستانی طالب علموں میں شامل ہو گیا جو اس طالب علموں کی بستی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، مگر جہاں گرد کی تعلیم کا افق بالکل مختلف اور بہت وسیع تھا ۔
‘‘میری تعلیم سارا بلغاریہ اور اس کا نظام ، تاریخ و تہذیب، تمدن اور سماج کو جاننا تھا۔’’(ص520 )
اگلے باب ‘‘ستودینسکی ’’ میں مصنف نے بلغاریہ کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے اور اس کی دلچسپ تاریخ پیش کی ہے۔رؤف کے کمرے میں رات گزارنے کے بعد ، جہاں گرد ٹرام میں سوار ہو کر لینن سکوائر جا اترا، جو صوفیہ کا مرکز ہے اور درحقیقت بلغاریہ کی تاریخ اور تہذیب کا مرکز ہے۔یہاں اس نے سوشلسٹ بلغاریہ کے بانی گیور گی دیمتروف کا حنوط شدہ مجسمہ دیکھاجو ایک تابوت میں پڑا تھا اور اس کے اوپر شیشہ لگا ہوا تھا ، لوگ قطار باندھے اس مجسمے کو باری باری دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ اس پوری‘‘ ممنوع دنیا’’ میں وہ خونخوار کتوں کی سنگلیاں پکڑے خونخوار نگاہیں ، ہر آنے جانے والے کی نگرانی کرنے والی کیمونسٹ پولیس جس کے اپنے ہاں قصے سن رکھے تھے، کہیں نظر نہ آئے ۔ مشرقی یورپ کے ملکوں کی سیر کرتے ہوئے مجھے بھی کچھ ایسا ہی تجربہ ہوا تھا ۔
جہاں گرد کو جہاں جہاں اور جن جن مقامی لوگوں سے واسطہ پڑا ،انہیں ان میں انکساری، خلوص ، ملنساری اور محبت کا رویہ ہی نظر آیا۔ وہاں انہیں ایک بزرگ پروفیسر مسٹر ایوالو اور ان کی بیوی روزیٹساملے۔ اس پروفیسر نے انہیں انگریزی زبان میں اپنے معاشرے اور نظامِ تعلیم کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔ اُس نے کہا ہمارے یہاں پرفیومز ، قیمتی کپڑے ، الیکٹرونکس ، میک اَپ ، اور لگژری گاڑیاں نہیں مگر یہ سب کچھ ہے بھی ۔ عمدہ اور قیمتی اور چمکدار نہ سہی مگر با عزت اور سادہ طریقے سے سب کچھ ہے۔ یہاں تعلیم مفت ، مکان مفت، سردیوں میں گرم پانی مفت، بجلی مفت، علاج مفت،موسم گرما میں تعطیلات اخراجات ملتی ہیں۔
مسٹر ایوالو جس گلی میں رہتے تھے وہاں اکثریت بلغاری مسلمانوں کی تھی ۔ اس دوران ایوالو کی بیوی گوشت سے بھرا ایک سینڈوچ لے کر آئی اور جہاں گرد کو تھمایا تو پروفیسر ایوالو نے کہا،‘‘لے لو، یہ حلال گوشت کا ہے۔’’ پھر وہ بولا،‘‘ساری معیشت حلال ہے ۔ اندرونی اور بیرونی تجارت حلال ہے۔ سب کا رزق حلال ہے ۔ یہاں سود کا کوئی تصور نہیں ہے تو سارا ملک حلال ہے۔’’ (ص593 )
میاں بیوی نے انہیں اپنے ہاں چلنے کی دعوت دی مگر ان کے پاس اتنا وقت کہاں تھا ۔ ایران ، ترکی اور بلغاریہ کی سیر کے دوران ان ملکوں میں رہنے والوں اور اپنے ہاں کی معاشرت اخلاق، رویوں اور تہذیب کا موزانہ بھی جگہ جگہ کیاہے، اور اس موازنے کے نتیجے میں اپنے معاشرے کو کمتر اور ان معاشروں کو برتر پایا۔
بلغاریہ میں انہیں حسن تو بے پناہ نظر آیا مگر ‘‘بازارِ حسن’’ممنوع تھے۔ اشتراکی دنیا میں سود کی طرح جسم فروشیبھیسنگین جرم ہے۔مگر افسوس سقوط روس کے بعد بعض سوشلسٹ ممالک میں سرمایہ داری نظام کے رائج ہونے کے بعد جسموں کا دربار عام ہوگیا۔
باب‘‘ٹرام نمبر بیس’’کے آخر میں لکھتے ہیں:
‘‘مال کی خرید فروخت ، سودے بازی ، برانڈ کی غلامی سے آزاد ، انسان تعلیم ، روز گار ، علاج کی فکر سے آزاد انسان، جہاں زندگی دوڑ دھوپ میں نہیں گزرتی۔ ایک مختلف طرزِزندگی کہ جہاں انسانوں کی زندگی کی فکر ریاست نے لے رکھی ہے، پیدائش سے آخری سانس تک۔ تعلیم، روزگار ، علاج، بڑھاپے کے معمولات ، جسمانی صحت کا بھی ذمہ دار اشتراکی نظام ہے۔’’(ص604-605 )
بلغار قوم کو 1396 ء میں عثمانی ترکوں نے زیر کیا۔ پانچ سو سال تک ایک مفتوح قوم رہنے کے باوجود انہوں نے اپنی شناخت اور وجود کی جنگ جاری رکھی اور اُسے کھونے نہ دیا ۔سینٹ الاکسانڈر نویسکی کتھیڈرل کو دیکھا تو انہیں استنبول کا آیا صوفیہ یاد آیا ۔یہاں ہمارے جہاں گرد نے دونوں کا موزانہ کیا ہے، دنوں کی اپنی اپنی تاریخ ہے اور دونوں کی اپنی اپنی عظمت۔
لارگو کے قریب لینن کے مجسمے کے سامنے جہاں گرد کا تعارف کلکتہ کے ابھوئے رائے سے ہوا جو انڈین کیمونسٹ پارٹی کا سرگرم رکن تھا اور صوفیہ میڈیکل فکلیٹی کا طالب علم تھا ۔اُس نے جہاں گرد کو زبردست معلومات سے آگاہ کیا ۔ معلومات دینے کے ساتھ ساتھ ابھوئے رائے جہاں گرد کو ایک کلب میں لے گیاجہاں سب نوجوان لڑکے لڑکیاں ناچ گا رہے تھے۔گویا سوشلسٹ ممالک میں چکلے اور جسم فروشی ممنوع تھی مگر کلب اورپب موجود تھے مگر ان میں بے ہودگی ، بدتمیزی اور گھٹیا پن نا پید۔
ابھوئے رائے جہاں گر کو گھمانے لے گیا تو انہیں‘‘ارمیلاژائیکوہ ثقافتی محل ’’دکھایا جس کو بلغاریہ کا تاج محل کہا جاتا ہے۔
صوفیہ شہر کی گردش گیری کے ساتھ ساتھ جہاں گرد کو ارد گرد کی بستیوں اور مقامات کو دیکھنے کے مواقع بھی ملے،جن کو اس نے جنت جیسی چھوٹی چھوٹی بستیاں قرار دیا ہے۔ وہاں انہوں نے قدرتی اور انسانی تخلیق کو باہم ہوتے دیکھا ،دیہات میں ترکی کے دیہات کی طرح تمام شہری سہولتیں دستیاب تھیں۔ بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب میسر۔
صوفیہ کو مکمل طور پر کھنگالنے کے بعد اب جہاں گرد نے پھر ریل کا سفر اختیار کیا۔اس سفر میں ایک اور سوشلسٹ طالب علم انیس لغاری ان کے ساتھ تھے ۔ وہ پلاودیوپہنچے، جیسے جہاں گرد نے یونانیوں کا فلی پوپولسقرار دیا ہے۔وہاں وہ ایک افغان ہندوامر لعل کے پاس ہاسٹل میں ٹھہرے۔ وہاں انہوں نے آثار قدیمہ میں ڈھکا ہوا پلادیودیکھا،آلوشہ کی یاد گار دیکھی جو سرخ فوج کے سپاہی پلاودیوکامحافظ تھا۔ پلاودیوکیمونسٹ بلغاریہ کے قدیم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس شہر کو عروج سکندر اعظم کے والد فلپ دوئم مقدونی کے زمانے میں ملا۔
جہاں گرد کی اگلی منزل دیمتروف گراڈتھی جسے انہوں نے خوشیوں کا نگر قرار دیا ہے۔دیمتروف گراڈ،پلاودیو سے ستر کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ بستی مزدوروں کی بستی کہلاتی ہے۔ اس بستی کی سیر کے بعد کامریڈ خٹک انہیں ایک ایسی جگہ لے گیاجہاں سمندر ، سنہری ریت کے ساحل اور نہاتی حسینائیں اور بہت کچھ تھا۔ یہ جگہ حسین ‘‘برگاس ’’تھی۔یہاں وہ ایک ستر سالہ بلغار خاتون گرگانہ کے ڈیڑھ دو سوسال پرانے گھر میں اجرتی مہمان (Paying Guest) کے طور پر ٹھہرے ۔یہاں انہیں بحیرۂ اسود کے روایتی مکان اور سوشلسٹ گھر میں قیام اور سوشلسٹ گھرانے کے طرزِ زندگی کا تجربہ کرنے کا نادرموقع میسر آیا۔ جہاں گرد کے مطابق :
‘‘آنٹی گرگانہ کے تمام معاملاتِ زندگی کی ذمہ دار کمیونسٹ حکومت تھی۔بجلی، پانی، گرم پانی، علاج اور کچھ وظیفہ ، ریاست کی طرف سے انہیں Paying Guest رکھنے اور گھر میں لگے پھلوں کو فروخت کر کے اضافی آمدن کمانے کا دوسرے شہریوں کی طرح حق حاصل تھا۔’’(ص 621 )
دو لاکھ کی آبادی پر مشتمل برگاس بلغاریہ کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ کیمونسٹ انقلاب کے بعد اس کے سمندری ساحلوں پر سیاحوں کے لیے موسم گرما کی خاطر بستیاں بنا کر اسے سیاحوں کا شہر بنا دیا گیا۔
‘‘برگاس’’ سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ‘‘سوزوپول’’ ایک قدیم یونانی بستی ہے ، یہ بھی سیاحوں کی بستی ہے ۔ یہاں جہاں گرد نے پالونیا کے کھنڈرات بھی دیکھے اور قدیم گرجا گھر بھی ۔گویا یہاں جہاں گرد نے یونانیوں کا ‘‘اپالونیا’’ اور بلغاریوں کے سوزوپول کو مشاہداتی نظر سے دیکھا۔
‘‘برگاس’’کو الودع کہہ کر ہمارا سیاح بذریعہ بس ‘‘وارنا’’ روانہ ہوا۔ وارنا، بلغاریہ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ وارنا کے جنت نظیر پارک میں جہاں گرد نے پہلے خلا باز یوری گیگرین کا لگایا وہ درخت بھی دیکھا جو اس پارک کا افتتاح کرتے وقت اُس نے ایک پودے کی شکل میں لگایا تھا۔ ‘‘وارنا ’’ کا آرکیالوجیکل میوزیم انہیں میوزم کم آرٹ گیلری زیادہ لگا۔اس کے ہال میں یونانی، بازنطینی اور رومن ادوار کے زیورات اور نوادرات پڑے تھے مگر سب کی نگاہیں صرف ان الماریوں پر تھیں جو اوڈی سیس (Odessos) کے مردوں کی قبروں سے ملنے والے زیورات کے سبب بھر گئی تھیں۔ نوادرات کو دیکھ کر ہمارے سیاح نے انہیں دنیا کا ساتواں عجوبہ قرار دیا۔
صوفیہ واپسی ٹرین کے ذریعے ہوئی ، صوفیہ پہنچ کر آس پاس کی کئی بستیاں دیکھنے کے بعد وہ‘‘سندانسکی’’پہنچے جہاں بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید مرحوم سندانسکی میں سرکاری مہمان تھے۔ وہاں ان کے علاج کے علاوہ خوب خاطر مدارت بھی ہورہی تھی۔
سفر نامے کے آخری باب کا عنوان ہے،‘‘باغ بہشت سے اذنِ سفر’’اور اس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔
‘‘پنجاب کی بستی لاہور سے چلا یہ مسافر بلغاریہ کی آخری بستی‘‘کولاتا’’ تک جو مشاہدات ، تجربات، واقعات، معلومات اور داستانیں سمیٹتا رہا، وہ میری زندگی کا اہم ترین سرمایہ بن چکا تھا ۔لاہور سے چلتے ہوئے وہ سب کچھ میرے ذہن میں نہیں تھا جو بلغاریہ کی آخری بستی کولاتا تک پہنچتے پہنچتے اکٹھا کر لیا۔بالکل منفرد اور نیا سرمایۂ حیات ۔’’ (ص741 )
گویا یادوں کے اس سرمایہ کو انہوں نے ‘‘میں ہوں جہاں گرد’’ میں جمع کر دیا ہے۔ سفر نامہ کا آخری جملہ بڑا معنی خیز ہے ۔
‘‘اور ہم سرخ جنت سے نکل کر گھپ اندھیروں میں داخل ہو گئے…’’
دجلہ و فرات کی اس سر زمین میں جہاں میسوپوٹیمیا کی تہذیب نے جنم لیا تھا، جہاں گرد نے خوب سیاحت کی اور مزہ اٹھایا۔ایران ، ترکی، بلغاریہ کی سیاحت کے دوران جہاں بھی گئے، وہاں کی تاریخ ، تہذیب ، ثقافت، معاشرت، موسم، غذاؤں اور انسانوں کے رویوں کی اتنی تفصیل دی ہے کہ اس سفر نامے کو پڑھ کر تاریخ سے زیادہ معتبر معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔اور یوں لگتا ہے ہم ان ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کر رہے ہیں، مگر ایسی تاریخ نہیں جو مؤرخ کے سپاٹ اور غیر تخلیقی قلم سے لکھی گئی ہوئی ہو، بلکہ ایک ادیب کی تخلیقی جذبوں سے مملو قلم سے لکھی گئی تاریخ ، سفر نامے کی صورت میں۔
یہ سفر نامہ ذہن و دماغ کے دریچے کھول دیتا ہے اور یہ سفر نامہ پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی ناول اور افسانے کا مطالعہ کر رہے ہوں، دلچسپی اور سسپنس سے بھرپور۔
لیجئے، میں نے اپنے ساتھ ساتھ جہاں گرد کی جہاں گردی کی گرفت میں آنے والی سرزمینوں کی سیر آپ کو بھی کروا دی ہے۔ امید ہے کہ آپ کو ان سرزمینوں کی تاریخ ، معاشرت ، ثقافت اور یہاں کے باسیوں کے رہن سہن ، ریت رویوں سے اچھی خاصی واقفیت حاصل ہو گئی ہو گی۔ آپ اس کی پوری تفصیل جو نہایت دلچسپ اور دلکش ہے، جہاں گرد جناب فرخ سہیل گوئندی کے خوبصورت اسلوب اور تصاوری دستاویزات کے ساتھ دیکھنا چاہیں تو اس کتاب کو ضرور پڑھیے ،آپ کوناول اور داستان کا سا مزہ آئے گا اور آپ کئی تہذیبوں سے آگاہ ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply