• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گوادر: آنکھوں کے پانیوں میں کشتیاں نہیں اترتیں ۔ ۔محمد خان داؤد

گوادر: آنکھوں کے پانیوں میں کشتیاں نہیں اترتیں ۔ ۔محمد خان داؤد

دل کے ساحل پہ پیروں کے نقش ثبت نہیں ہوتے
کانپتے ہاتھوں کے طوفاں سے بادبان نہیں سجتے
نہ جانے والوں سے لوٹ آنے کے وعدے  لیے جاتے ہیں
جب کوئی گہرے پانیوں میں اترے ہی نہیں تو انتظار کی کیفیت سے کون گزرے؟

آج اگر لطیف ہوتا اور گوادر ساحل سے بہت دور اور مضطرب ماہی گیروں کو دیکھتا تو اپنا پانی،اپنا سمندر اور اپناساحل ہو تے ہوئے بھی ان پانیوں میں نہیں اتر سکتے تو لطیف پاگل ہوجاتا!
نہ پانی کے رنگ لکھتا،نہ ماہی گیروں کا حال اور نہ ان سکھیوں کی انتظاری کیفیت جو اپنے کچے گھروں میں جلتے دِیوں کے ساتھ پوری پوری رات جلتی ہیں اور ان کی نظریں پانیوں پر ہو تی ہیں۔
کشتیوں کو پانیوں میں دھکیلنے کو بے کراں پانیوں سے بھرا سمندر چاہیے،مورتی کے پیروں کے نقشِ پا دیکھنے کو ساحل چاہیے جس پر نیلگوں پانی محبت کی طرح چڑھ جائے اور میٹھے میٹھے پیار کی طرح اُتر جائے اور مٹی کو گیلا کر جائے جس پر محبوب کے پیر نقش ہو جائیں کچھ دیر کے واسطے۔

کانپتے ہاتھوں کے طوفان سے کشتیاں پانیوں میں نہیں اُترتیں، کشتیوں کو گہرے پانیوں میں دھکیلنے کو ہوا درکار ہوتی ہے اور وہ ہوا گوادر میں کہاں ہے؟
ایاز نے تو کئی سال پہلے لکھا تھا کہ
”ہواؤں  کو نہ روکیو “
اور آج اہلِ گوادر کی ہوا روک دی گئی ہے،کرب وبلا میں پانی روکنے والوں کو کوسنے والوں!
ان کو کب کوسو گے جنہوں نے بلوچستان کی ہوائیں روک دی ہیں؟
ماتم کب کرو گے؟
سینہ کوبی کب کرو گے؟
کشمیر کیابلوچستان تو فلسطین بن رہا ہے اور ہم ہیں کہ کچھ خبر نہیں رکھتے
اسرائیل بھی تو اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کو سیسہ پلائی دیوار کی تعمیر کر رہا ہے
کرے
امریکہ بھی تو اپنی سرحدوں پر باڑ اور دیوار لگا رہا ہے
لگائے
پر بلوچستان کیا کرے؟

ہر روز بلوچستان محنت کش بیمار کے جسم کی مانند گھٹ رہا ہے۔
کبھی بلوچستان ایٹمی دھماکوں کی زد میں آتا ہے،کبھی بلوچستان کی مانگ کو یہ کہہ کر اُجاڑا جاتا ہے کہ اس میں بہت سونا ہے اور کوئی رکوڈک ڈائین آ جا تی ہے اور بلوچستان کے معصوم بچے کھا جا تی ہے۔کبھی بلوچستان کے جسم میں سوئی نامی نلکی لگا کر گیس کے نام پر اس کی پو ری توانائی لوٹ لی جا تی ہے اور کوئی بات کرتا ہے تو ایاز کے یہ الفاظ سامنے کھڑے نظر آتے ہیں کہ
”میں نے عمر گنوائی بولی میں
یہاں بات ہو تی ہے گولی میں “
بہت سی وردیاں،بہت سی بندوقوں کے ساتھ نمودار ہو تی ہیں اور بلوچستان کی روح کانپ جا تی ہے۔
کبھی بلوچستان کے بلند وبالا پہاڑوں کو ڈائنامائیٹ سے اُڑا دیا جاتا ہے بہت وسائل لوٹ لیے جا تے ہیں اور بلوچستان روتا رہ جاتا ہے۔
کبھی بلوچستان کے پہاڑوں سے تمام سونا لوٹ کر اس کے گلے میں سیندک کا طوق ڈال دیا جاتا ہے۔اورکبھی بلوچستان کی روح کو رسوا کر کے سی پیک کی شاہراہ گزاری جا تی ہے۔
بلوچستان خاموش رہتا ہے
بلوچستان سب سہہ جاتا ہے
پر اب بلوچستان کیا کرے؟

گوادر کے ساحلوں سے بہت دور بلوچ ماہی گیر اپنی کشتیاں لیے بیٹھے ہیں اب نہ تو دھرتی ان کی ہے اور نہ ہی ساحل،پہلے تو بس ان سے ترقی کے نام پہ ساحل اور سمندر چھینا گیا تھا۔یہ بلوچ ماہی گیر چاہتے تھے کہ ان کی کشتیاں گوادر کے نیلگوں پانی میں اتریں جہاں زندگی ہے پر وہ کشتیاں ساحل پہ قبضے  کے بعد ان نیلے پانیوں میں نہ اُتر پائیں ۔ان ماہی گیروں نے اپنی کشتیوں  کے   لاشے  ایسے ڈھوئے جیسے کوئی اپنے پیاروں کے لاشے  ڈھوتا ہے اور ان ماہی گیروں نے ان کشتیوں کی قبریں تیار کیں اور خود بھی ان قبروں میں ان کشتیوں کے ساتھ گڑ گئے۔
بلوچستان کے سیا سی اکابریں اس سارے تماشے کو دیکھتے رہے۔
اب تو اہلِ گوادر سے دھرتی جا رہی ہے اگر ان سے دھرتی چلی گئی تو پھر ان کو کہاں دھکیلا جائے گا؟

گوادر میں بہت ترقی ہو رہی ہے،اداس اکیلے ساحل پہ بند ر گاہ بن جانے سے رونق بڑھ گئی ہے فائیو اسٹار ہوٹل بن رہے ہیں عالی شان بنگلے  بن رہے ہیں ،پر جن کی دھرتی تھی جن کا ساحل تھا جن کا سمندر تھا اور جن کا جیون تھا ان کو اس گوادر سے بہت پرے دھکیل دیا گیا ہے۔
پہلے بھی گوادر جانے کے لیے دھرتی کے بیٹوں کو چیک پوسٹوں پر اپنی شناخت کرانی پڑتی تھی اب جب پو رے گوادر پہ باڑ لگائی جا رہی ہے اور بلوچ سیا سی اکابرین اختر مینگل سے لیکرڈاکٹر مالک تک
ثناء بلوچ سے لیکر زہری تک ،باپ بیٹی سیا سی پارٹی سے لیکر قوم پرستوں تک سب خاموش ہیں۔
تو بلوچ عوام سیا سی قائیدن پہ اعتبار کرے گی
یا ایک سرمچار پر؟
ووٹ کو عزت دیگی
یا اپنے ہاتھوں میں بندوق تھام لے گی
مائیں بچوں کو کتابیں دیں  گی
یا دھرتی کا پرچم،گالوں پر بوسہ اور ہاتھوں میں بندوق؟

اگر یہ عمل  جاری رہا اور بلوچستان کا وجود ہر روز گھٹتا رہا،اپنی دھرتی گھٹتی رہی،دھرتی باڑ کے بار سے دبتی رہی اور چیک پوسٹوں پر کسی دھرتی کے بیٹے کو روک کر یہ پوچھا جاتا رہا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے؟
تو تقاریر،کتابیں،و عدے،دلا سے،بھاشن،سب ہار جائیں گے۔
اکیلی ہی  سہی، پرانی ہی سہی پر بندوق جیت جائیگی۔
کیوں کہ زندہ رہنے کو دھرتی چاہیے،سانس لینے کو ہوا چاہیے،کشتیوں کو گھیرے پانیوں میں دھکیلنے کو نیلگوں پانی چاہیے اور مر جانے کے  بعد بھی دھرتی چاہیے۔
یعنی کہ ”اوّل  آخر مٹی،مٹی زندہ باد “
اور بلوچستان میں خاص کر گوادر میں یہ مٹی    میرے اور آپ کے پیروں سے کھسکائی جا رہی ہے۔

نیلسن منڈیلا نے اک بار کہا تھا کہ
”میرے بابا نے کہا دھرتی سے پیار کرنا دھرتی اپنے سے پیار نہ کرنے والوں کو اپنے اندر جگہ نہیں دیتی “

Advertisements
julia rana solicitors london

نیلسن منڈیلا کی یہ بات
اختر مینگل،ثناء بلوچ،ڈاکٹر مالک اور اس زہری کے لیے ہے جو ایک کلپ میں فرزانہ راجہ کو بمبو پیش کر رہا ہے اگر ان بلوچ سیا سی اکابروں نے اپنی دھرتی کی حفاظت کی ذمہ داری نہ لی تو پھر یہ بمبو خود ہی جگہ بنا لے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply