کسی دوست نے طنز جیسا مشورہ دے کر کہا کہ آپ تو بالکل سندھ کو بھول چکے ہیں،سندھ پر لکھیں سندھ کی ثقافت پر لکھیں! اور میں نے بالکل بے خیالی سے پوچھا ،،کون سا سندھ؟،، اس وقت میرے ذہن← مزید پڑھیے
وہ سمندر تو لہرولہروں ہوکر خاموش ہو گیا،پر اس سمندر میں تو اب لہریں اُٹھ رہی ہیں وہ سمندر تو ساحل سے ٹکرا کر خاموش ہو گیا،پر وہ سمندر کس سے ٹکرائے اور کیسے خاموش ہو؟ وہ سمندر تو پہلے← مزید پڑھیے
کمیونسٹ مینو فیسٹو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے ”مزدور کا ماضی شاندار اورحال داغدار ہے پر ہم مزدور کا حال بھی شاندار بنائیں گے اور مستقبل بھی!“ یہ الفاظ کمیونسٹ مینو فیسٹو میں کئی بار آئے ہیں بالکل یوں← مزید پڑھیے
روسی دانشور فیدر ٹیو ٹیچیف کے الفاظ پر ٹالسٹائی کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں اور وہ الفاظ تھے کہ ،،LET ME PARTAKE OF ANNIHILATION LET ME BE DIFFUSED IN THE SLUMBERING UNIVERSE NOTHING LEAVES ANY TRACE AND IT IS← مزید پڑھیے
دل کے ساحل پہ پیروں کے نقش ثبت نہیں ہوتے کانپتے ہاتھوں کے طوفاں سے بادبان نہیں سجتے نہ جانے والوں سے لوٹ آنے کے وعدے لیے جاتے ہیں جب کوئی گہرے پانیوں میں اترے ہی نہیں تو انتظار کی← مزید پڑھیے
وہ سندھ سے بہت دور بستے ہیں۔ پھر بھی سندھ ان کی جانب تکتا ہے۔وہ شالہ کی پہاڑیوں میں بھی نہیں پر پھر بھی بلوچستان کے پہاڑوں کے سر فخر سے بلند ہیں۔وہ پنجاب میں نہیں پر اب محسوس ہوتا← مزید پڑھیے
ہ اس دن مادرِ علمی کے دامن میں محوِ خواب تھے اب وہ نیند میں ہیں یا جاگ میں ،کوئی نہیں جانتا وہ کتابوں اور عشق کی گلیوں میں مقید تھے اب وہ کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا؟ وہ مست← مزید پڑھیے
ٹھٹہ اور ملیر کے بھوتاروں کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ جب وہ ایک مظلوم کو اپنے ڈیرے پر بُلا کر بے تحاشا تشدد کر کے قتل کر دیں گے، تو سندھ ایسے کروٹ لے کر جاگ جائیگا، سندھ← مزید پڑھیے
ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کو دیکھ کر مجھے سچل سرمست کا یہ مقولہ یاد آ جاتا ہے جس میں سچل سرمست کا فقیر نمانو، سچل سے عرض کرتا ہے، “سائیں کیسی گزر رہی ہے؟” تو سچل نمانو فقیر کے چہرے کو← مزید پڑھیے