محمد داؤد خان کی تحاریر

دیس دلبر کو دور نہیں کر رہا /محمد داؤد خان

اس وقت دیس میں وہ سورج طلوع نہیں جس سورج سے ماؤں کی دید انتظار کی اذیت سے گزرتی ہے،سکھیاں معصوم بچوں کو جھوٹے و عدوں سے بہلاتی ہیں اور سسیاں درد بھرا سفر کرتی ہیں۔جس سورج میں سب دِکھتا←  مزید پڑھیے

بلوچستان، آگے بڑھو ان پیروں کو چوم لو /محمد خان داؤد

کیا یہ اس دل کی جیت ہے جو اس لیے دھڑکتا ہے کہ،،میرے دیس کے لوگ بہت اداس ہیں،،؟ کیا یہ ان ہاتھوں کی جیت ہے جو آگے بڑھتے ہیں،دامن کو جھولی بنا تے ہیں،لکھتے ہیں اور درد سے بھرے←  مزید پڑھیے

ماحل محبت ہے/محمد داؤد خان

ماحل اس کونج کی طرح ہے جو آکاش پر اُڑتے وقت بھی دھرتی سے جُڑی رہتی ہے وہ آکاش کی وسعتوں میں اُڑتی پھرتی ہے پر اس کا دل دیس کی گلیوں میں رُلتا رہتا ہے ماحل بلوچ دھرتی کی←  مزید پڑھیے

تمام صبحیں اُن کی، تمام شامیں اُن کی ۔ محمد خان داؤد

کیا وہ بس وہ ایک دن کے مستحق ہیں؟سال کا پہلا دن یا سال کا آخری دن؟ کیا وہ بس ایسے ہیں کہ سال کی پہلی یا آخری شب ان کے نام سے منسوب کی جائے؟ یا بس آکاش پر←  مزید پڑھیے

درد کے نام /محمد خان داؤد

بلوچ مائیں جب درد سے بھر جاتی ہیں، جب درد ان کے دامن گیر ہوتا ہے، جب وہ رو تی ہیں، بہت رو تی ہیں،چیختی ہیں، چلا تی ہیں،ماتم کرتے کرتے ماتم کدہ بن جاتی ہیں، آپ ہی صلیب بن←  مزید پڑھیے

کون ساسندھ،کون سی ثقافت؟/ محمد خان داؤد

کسی دوست نے طنز جیسا مشورہ دے کر کہا کہ آپ تو بالکل سندھ کو بھول چکے ہیں،سندھ پر لکھیں سندھ کی ثقافت پر لکھیں! اور میں نے بالکل بے خیالی سے پوچھا ،،کون سا سندھ؟،، اس وقت میرے ذہن←  مزید پڑھیے

سندھو کنارے کا مکیں،جمنا جیسا / محمد خان داؤد

سندھ کے کنارے تو اب آب سے ڈھکے ہیں،پر اس کی آنکھوں کے چھپر تو زمانہ ہوئے آنسوؤں سے ڈکھے ہوئے تھے۔دھرتی تو اب آب آب ہوئی ہے۔پر جب دھرتی خشک تر تھی جب بھی اس کی آنکھیں گیلی تھیں۔وہ←  مزید پڑھیے

حانی بلوچ دھرتی کا ماہِ تمام ہے /محمد خان داؤد

وہ بلوچستان میں ایک نئے وعدے  نئے اعتبار کے جیسے نمودار ہوئی ہے۔ وہ سب رنگ ہے، وہ سب رنگ سانول ہے۔ جب بلوچستان اسے دیکھتا ہے تو بلوچ دھرتی کی آنکھیں اعتبار کے رنگ سے بھر جاتی ہیں۔اور دھرتی←  مزید پڑھیے

شہر یاراں کو معلوم ہی نہیں کہ حفصہ بلوچ کون تھی؟ ۔ محمد خان داؤد

وہ اپنے سر کے دوپٹے کو پھانسی کا پھندہ نہ بناتی تو اور کیا کرتی؟ وہ کونج جیسی تھی اپنے ولر کے ساتھ رہنا چاہتی تھی، جینا چاہتی تھی وہ جو زندگی کی تخلیق تھی، وہ جو موت کے قریب←  مزید پڑھیے

خدا بھاری پلٹنوں کے ساتھ نہیں۔۔محمد خان داؤد

والٹئیر نے لکھا تھا کہ ”خدا بھی بھاری پلٹنوں کے ساتھ ہوتا ہے“ دنیا میں مظلوم کو پٹتے دیکھ کر اور مظلوم کو آہ و بکا کرتے،ماؤں کو دھول اُڑاتی ایمبولینسوں اور پولیس موبائل کے پیچھے بھاگتے،ایمبولینسیں اور پولیس موبائلیں←  مزید پڑھیے

سندھ کی بس اتنی سی کہانی ہے۔۔محمد خان داؤد

کمیونسٹ مینو فیسٹو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے ”مزدور کا ماضی شاندار اورحال داغدار ہے پر ہم مزدور کا حال بھی شاندار بنائیں گے اور مستقبل بھی!“ یہ الفاظ کمیونسٹ مینو فیسٹو میں کئی بار آئے ہیں بالکل یوں←  مزید پڑھیے

غیرت مند بلوچوں کے نام۔ ۔ محمد خان داؤد

جب سب دُکھ ہمارے ہیں تو سب سُکھ نہ صحیح کچھ سُکھ ہمارے کیوں نہیں؟ جب سفر ہماری بہنوں کا مقدر ٹھہرے ہیں تو سروں پر چادر  ان کا مقدر کیوں نہیں؟ جب طویل انتظار ہماری بیٹیوں کا مقدر ٹھہرا←  مزید پڑھیے

نوحہ ۔۔ محمد خان داود

ماں کو تو اس کے چہرے پر سُرخ گلابوں کا سہرہ باندھ کر اسے دُلہا بنانا تھا،پر آج ماں اس کے آدھے مدفون جسم کو دولہا دریا کی بستی سے نکال رہی ہے۔ ماں نے تو اس کی شادی کے←  مزید پڑھیے

اداس کیمپوں کی باتیں کون لکھے گا؟ ۔ محمد خان داؤد

روسی دانشور فیدر ٹیو ٹیچیف کے الفاظ پر ٹالسٹائی کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں اور وہ الفاظ تھے کہ ‏،،LET ME PARTAKE OF ANNIHILATION ‏LET ME BE DIFFUSED IN ‏THE SLUMBERING UNIVERSE ‏NOTHING LEAVES ANY TRACE ‏AND IT IS←  مزید پڑھیے

وہ اکیلے گیت کی طرح گونج رہا ہے ۔۔ محمد خان داؤد

کافکا نے کہا ہے ”بس زخموں سے جانا جا سکتا ہے کہ درد کیا ہے“ غربت کا زخم، بے حسی کا زخم، لاچاری کا زخم،تذلیل کا زخم،اپنی ہی دھرتی پہ بے یارو مدگاری کازخم،بے بسی کا زخم،بے عزتی کا زخم،بہت←  مزید پڑھیے

گوادر: آنکھوں کے پانیوں میں کشتیاں نہیں اترتیں ۔ ۔محمد خان داؤد

دل کے ساحل پہ پیروں کے نقش ثبت نہیں ہوتے کانپتے ہاتھوں کے طوفاں سے بادبان نہیں سجتے نہ جانے والوں سے لوٹ آنے کے وعدے  لیے جاتے ہیں جب کوئی گہرے پانیوں میں اترے ہی نہیں تو انتظار کی←  مزید پڑھیے

اپنے ہاتھ فقیروں کے سُپرد کرو ۔ ۔محمد خان داؤد

وہ سندھ سے بہت دور بستے ہیں۔ پھر بھی سندھ ان کی جانب تکتا ہے۔وہ شالہ کی پہاڑیوں میں بھی نہیں پر پھر بھی بلوچستان کے پہاڑوں کے سر فخر سے بلند ہیں۔وہ پنجاب میں نہیں پر اب محسوس ہوتا←  مزید پڑھیے

آزادی کے اسیر ۔ ۔محمد خان داؤد

افریقہ کی جیل میں بندایک قیدی سے گورے سپاہی نے آکر کہا “آج تمہاری زندگی کا آخری دن ہے۔کل سے یہ حسین کائنات،یہ تاروں کا چمکنا، یہ پھولوں کی خوشبو اور کسی کی گرم سانسوں میں جیون گھارنے کی سب←  مزید پڑھیے

علی وزیر تو غلام دھرتی کا آزاد خواب ہے ۔۔ محمد خان داؤد

علی وزیر کا جرم اتنا بڑا تو نہیں جتنا بڑا جرم راؤ انوار کا ہے علی وزیر کا جرم اتنا بڑا تو نہیں جتنا احسان اللہ احسان کا ہے! علی وزیر کا جرم اتنا بڑا تو نہیں جتنا پرویز مشرف←  مزید پڑھیے

بلوچ ماؤں کے بیٹے کہاں ہیں؟ ۔ محمد خان داؤد

ہ اس دن مادرِ علمی کے دامن میں محوِ  خواب تھے اب وہ نیند میں ہیں یا جاگ میں ،کوئی نہیں جانتا وہ کتابوں اور عشق کی گلیوں میں مقید تھے اب وہ کہاں ہیں کوئی نہیں جانتا؟ وہ مست←  مزید پڑھیے