مگر شام ہی تو ہے۔۔عارف انیس

یہ فینکس یا ققنس کی کہانی ہے اور میری پسندیدہ ترین کہانیوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ راکھ سے زندگی کے جنم لینے کی کہانی ہے –

فینکس ڈریگن سے ملتے جلتے پروں والے ایک خیالی پرندے کا نام ہے ۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہت خوبصورت خوش رنگ اور خوش آواز ہوتاہے۔ یہ صرف خوش گلو ہی نہیں بلکہ اسے سب راگوں پر بھی عبور حاصل ہوتا ہے۔ ایک ایسا وقت آتا ہے جب وہ خود سوکھی لکڑیاں جمع کرتا ہےاور پھر ان پر بیٹھ کر راگ دیپک چھیڑدیتاہے۔سلگتے سلگتے وہ لکڑیاں شعلہ کی صورت جلنے لگتی ہیں۔عالم بےخودی میں فینکس اس بھڑکتے الاؤ میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔۔جب بارش اس راکھ پہ پڑتی ہے اس میں انڈا پیدا ہوجاتا ہے جس سے ایک نیا فینکس جنم لیتا ہے۔ یوں راکھ سے زندگی جنم لیتی ہے۔

وقت کا چرخہ تو آج رات گھومے گا، سیاہی ہو یا سویرا، دھند ہو یا برسات، آندھی ہو یا طوفان! جب تک چرخہ بنانے والے نے اسے حکم دیا ہے، چرخہ گھومتا رہے گا۔ اس بار تو چرخہ پورا عشرہ گھوم جائے گا جو کئی اعتبار سے عشرہ زوال نظر آتا ہے ۔ 2009 سے 2019 تک کے سال پاکستان میں گورنینس کے اعتبار سے بحران کے سال ہیں۔ پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ہی نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کو ڈیڑھ سال کی بری حکمرانی کا مارجن دے دیا جائے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں اس میدان میں کھیت رہیں۔ دونوں پارٹیوں کے بڑے گوڈے گوڈے تک کرپشن کی دلدل میں دھنسے نظر آئے۔ تحریک انصاف کے آئیڈیل ازم نے 20 برس تک جوانوں کو مہمیز کیے رکھا، وہ بھی کان نمک میں پہنچ کر نمک ہوگئی۔ بین الاقوامی سطح پر برانڈ پاکستان کی کرنسی مزید کم ہو گئی۔

2010 اور 2020 کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ کہ 2020 کا آغاز خوں ناب نہیں ہے۔ 2010 اور آنے والے عشرے میں میں پاکستان کی گلیوں اور شہروں میں ٹنوں لہو بہتا تھا۔ دھماکے دن رات ہوتے تھے اور اعصاب مسلسل چٹختے تھے۔ فیوچر آف پاکستان پر سوالیہ نشان ڈال کر کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ دیکھنے والوں کو ایک اور عراق، شام اور لیبیا بنتا نظر آتا تھا۔ تاہم پاکستان ڈھلان کے بالکل کنارے پہنچ کر رگ گیا، ٹک گیا اور پھر سنبھل گیا۔ میں اسے شہیدوں کا صدقہ کہتا ہوں۔ ہم سیاست، معیشت اور بہت سے اشاریوں میں پیچھے ہیں، مگر قائم ہیں۔ یہ سب کوئی اسی ہزار سے زائد خاکی اور کالی وردیوں اور شلوار قمیض پہنے ان شہیدوں کا صدقہ ہے جو ان دس سالوں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ کا ایندھن بنے۔ میرے لیے وہی اس عشرے کے ہیرو ہیں اور میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔

حالات حاضرہ برے ہیں، مگر اس سے بہت بدترین ہوسکتے تھے۔ ہمارا ملک قائم ہے، شناخت بھی اور آنے والے کل میں امید بھی سلامت ہے۔ 2020 سے 2030 کا آنے والا وقت ان شہیدوں کے صدقے ہمارا بہترین وقت ہوگا۔ یہ وہ وقت بھی ہوگا جب ہمارے موجود تمام تر لیڈرز تاریخ کے کوڑے دان کا رزق بھی بن چکے ہوں گے۔ ہمارے قائدین ہمیں جتنا مرضی مایوس کرلیں، ہم اسی عشرے کی راکھ سے دوبارہ جنم لیں گے!

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply