کیا مسلم سیاست مسلمانوں کےحق میں ہے؟۔۔ابھے کمار

کیا مسلم سیاست مسلمانوں کے مفاد میں  ہے؟ کیا ان کو سیکولرطاقتوں سےاپنا  رشتہ منقطع کرلینا چاہیے؟ کن مسائل پرمسلم رہنماؤں کو آگے آنا چاہیے؟ ان سوالوں کا جواب آسان نہیں ہے، مگر میں نے اس مضمون میں ایک چھوٹی سی  کوشش کی ہے۔ اگرمیری باتوں سے آپ اتفاق نہیں رکھتے، تو آپ اپنی رائے دیجیے۔ میں اس پرغور کرنے کے لیے تیار ہوں۔

سب جانتے ہیں کہ ملک میں پالیسی سازی کا کام حکومت کرتی ہے۔ حکومت بنانے کا موقع اس اتحاد یا پارٹی کو ملتا ہے جو واضح اکثریت حاصل کر لیتی ہے۔ جمہوریت میں ووٹ اورنمبرکا بڑا کھیل ہوتا ہے۔ بھارت میں مسلمان اقلیت ہیں اوران کی تعداد ۱۴ فی صد کے قریب ہے، وہیں ہندو۸۰ فی صد کے آس پاس ہیں۔ تبھی تو ہندو بنام مسلمان کے نام پر کی جا رہی سیاست مسلمانوں کے مفاد کے سراسرخلاف ہے۔ جب بھی مذہب کے نام پر رائےدہندگان کو پولرائِز کیا گیا، تواس کا نقصان مسلمانوں کو ہی ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے نام پربنی سیاسی پارٹیاں بعض سیٹ تو جیت لیتی ہیں، مگر بڑے پیمانہ پروہ مسلمانوں کا ہی نقصان کر دیتی ہیں۔

ہندو فرقہ پرست ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے سیاسی لیڈر مسلم پارٹی بنا کر سیاست کریں۔ اگر مسلمان مسلم سیاست کریں گے تو ان کا کام بڑا آسان ہو جاتا ہے۔ وہ بڑی آسانی سے ہندوؤں کو ڈرانے میں کامیاب ہو جائیں  گے۔ اس طرح تمام روزی اور روٹی کے سوال دب جائیں گے۔ ایسا ہی کچھ پچھلے کچھ سالوں میں دیا گیا ہے، جب نوٹ بندی، کورونا اور بےروزگاری کے باوجود بھی، بھگوا طاقتیں انتخابات جیتنے میں کامبیاب ہوئی ہیں۔ اس لیے جب تک ہندو بنام مسلم کا رڈ سکور بدل نہیں  جاتا، تب تک بھگوا فرقہ پرستوں کو ہرانا مشکل ہے۔ اس لیے جو کوئی بھی ہندو بنام مسلم کے نام پر لوگوں کو پولرائز کر رہا ہے وہ جانے انجانے میں بھگوا طاقتوں کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے۔

مگر کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان نہیں بلکہ غیرمسلم مذہب کی سیاست کررہے ہیں۔ مسلمان تو صرف اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں اور اگر وہ مذہب کے نام پر اپنے درمیاں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ میرا ماننا یہ ہےکہ حقوق کے لیے لڑنے اور انصاف کے لیے اتحاد پیدا کرنے سے مسلمانوں کو کوئی نہیں روک رہا ہے، مگر کسی بھی صورت میں نہیں مذہبی سیاست سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ مذہبی سیاست سے بھگوا طاقتوں کا ہی بھلا ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی لڑائی کو دیگر   محروم طبقات کی لڑائی سے جوڑ کر کام کریں۔

کچھ لوگ یہ بھی سوال کر سکتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے سیکولر پارٹیوں سے اتنی چوٹ کھائی ہے، تو ان کو اپنی سیاسی جماعت بنانے کےعلاوہ اور کیا چارہ ہے؟ یہ بات بھی بہت حد تک صحیح ہے کہ اگر سیکولر پارٹیاں ایماندار ہوتیں، تومسلمانوں کی اتنی بُری حالت نہیں ہوتی۔ وہ آج سماجی، تعلیمی اوراقتصادی طور پر پچھاڑنہ کھاتے  ۔ اعلیٰ  تعلیم کے شعبہ میں ان کی حالت دلتوں سے بھی زیادہ خراب نہ ہوتی۔ اگران کے ساتھ سیکولر پارٹیوں نے انصاف کیا ہوتا تو وہ جیلوں میں اپنی آبادی کےتناسب سے کہیں زیادہ بند نہ ہوتے۔ وہ دنگوں میں مارے نہیں جاتے۔ وہ ہر روز اپنے ہی ملک میں، جس کے لیے انہوں نے اپنی جان کی قربانی دی ہے، غدار وطن کہہ کر ذلیل نہیں کیے جاتے۔ ان کو اہم عہدوں پر بھیجنے سے پہلے ان کی حب الوطنی کا امتحان نہیں لیا جاتا۔ ان کی نمائندگی سرکاری اداروں سے لے کرقانون  سازاسمبلیوں تک مسلسل نہیں گرتی۔ ان کے نوجوانوں کو یو اے پی اے اور دیگر کالے قانون  میں پھنسا کر جیل میں قید نہیں کیاجاتا، وہیں دنگا اورفساد کرنے والوں کو ‘دیش بھگت’ کہہ کر ہیرو  نہیں بنایا جاتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے،مگر اس کا حل مسلم سیاست بالکل بھی نہیں ہے۔

اگر مسلم سیاست ہوگی تو ہندوسیاست اور زیادہ مضبوط ہوگی۔ پریشانی کا حل مظلوموں کے درمیاں اتحاد پیدا کرنے سے ہوگا۔ مثال کے طور پرکسانوں کے مسائل، خواہ کسان ہندو ہو ں یا مسلمان، ایک ہی ہوتے ہیں۔ مزدوروں کا استحصال ہندو یا مسلمان نہیں کرتا بلکہ زمین، فیکٹری اور کمپنی کا مالک کرتا ہے۔ خون چوسنے والا مالک ہندو بھی ہوتا ہے اور مسلمان بھی۔ اسلام بھی ایک مسلم مزدور کو ایک ظالم مسلم مالک کے خلاف لڑنے اور غیر مسلم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کرتا ہے۔

یاد رہے مذہبی معاملہ کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہے، مگر کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ریاست قائم ہونی چاہیے۔ مگر کیا اس کے لیے ملک کے تمام شہری تیار ہیں؟ مجھے نہیں لگتا کہ بھارت جیسے مخلوط سماج میں کبھی بھی ریاست کو کسی ایک مذہب سے جوڑ کر چلایا جا سکتا ہے۔ یہاں تو کامن گراؤنڈ پر ہی پالیسی بن سکتی ہے۔ یہ کامن گراؤنڈ سیکولرازم، جمہوریت اور مساوات ہے۔ مطلب یہ کہ ریاست دھرم کے معاملوں میں سب کو پوری آزادی دے اوردنیاوی معاملوں میں سب کو برابر حقوق دے گی۔ پورے ملک میں سی اے اے کی مخالفت  اس لیے کی گئی کیوں کہ یہ مذہب پر مبنی قانون تھا۔

میرا ماننا ہے کہ ہندو سیاست کی طرح ہی، مسلم سیاست کی بھی مخالفت  ہونی چاہیے۔ یہ اس لیے کہ جو بھی مسلمانوں کو مذہب کے نام پر ایک ساتھ جمع کرنا چاہتے ہیں، وہ راہ سے بھٹک چکے ہیں۔ سارے مسلمانوں کے مفاد ایک نہیں ہیں ۔ ان کے اندر  بھی طبقاتی نظام پایا جاتا ہے۔ ان کے درمیاں بھی ذات پات پرمبنی بھید بھاؤ  دیکھا جاتا ہے۔ زمیندار، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، کھیت میں کام کرنے والوں کے ساتھ زیادتی  کرتا ہے۔ منڈل کمیشن اوراو بی سی ریزرویشن کی مخالفت میں ہندوؤں کے اعلیٰ ذات لیڈروں نے قیادت کی تھی، مگر بہت سارے مسلم اپرکاسٹ لیڈر بھی اس میں شامل ہوئے تھے۔ ان کو اس بات کا خیال نہیں رہا کہ منڈل کمیشن ۸۰ فی صد کے قریب مسلمانوں کو ریزرویشن دے رہا تھا۔ پسماندہ برادری کے مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کے سماج کے  اعلیٰ  ذات والے  ان کے ساتھ غیرمساوی سلوک کرتے ہیں۔ شادی اورنکاح کے وقت ذات برادری اورمسلک کا اکثر اوقات دھیان رکھا جاتا ہے، جو غیرآئینی اور غیر اسلامی بھی ہے۔

اس لیے میری یہ تجویز ہے کہ مسلم سیاستدانوں کو صرف مسلمانوں کی بات کرنے سے خود کو روکنا چاہیے۔ ان کو ایک ہی آواز میں دلت، آدی واسی، پچھڑے کی بھی بات کرنی چاہیے۔اگر ایسا ہونے لگا تو یقین مانیے بھگوا طاقتوں کی آدھی طاقت ختم ہو جائے گی۔ یاد رکھیے ایک وقت تک جامع مسجد کے شاہی امام کو میڈیا کی مدد سے مسلمانوں کا قائد بنا کر پیش کیا گیا، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ جامع مسجد سے بلدیاتی انتخاب نہیں جیت سکتے تھے۔آج شاہی امام کی جگہ کسی اور نے لے لی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھڑوں اور محکوموں کا اتحاد بنیں۔ دلت، پچھڑا، آدی واسی، مزدور، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، ایک پلیٹ فارم پر آئیں۔ مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھگوا طاقتیں نہ صرف مسلمانوں کی دشمن ہیں ، بلکہ وہ آدی واسی، دلت، پچھڑا اور ملک کی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ اس ملک میں ظلم مسلمانوں کے علاوہ دلت اور آدی واسی پر بھی ہو رہے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی  ہے کہ محکوموں کے مابین اتحاد پیدا کیا جائے۔ یہ سب کہنا بہت آسان ہے اور کرنا اتنا ہی مشکل۔ یہ اس لیے کہ محروم طبقات کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔ مگر دنیا محکوموں، مظلوموں اورمزدورں کے اتحاد سے ہی بدلی ہے اور آگے بھی بدلے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(  مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply