• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • کرونا مہاماری سے مچی تباہی میں مسیحا بننے کی ضرورت۔۔غازی سہیل خان

کرونا مہاماری سے مچی تباہی میں مسیحا بننے کی ضرورت۔۔غازی سہیل خان

گزشتہ ہفتے میرا ایک کالم اس مہلک بیماری کے حوالے سے مکالمہ اور  کشمیر کے موقر روزنامہ   میں شائع ہواتھا۔اور آج مجبوراً اسی طرح ملک کے درد  نا ک  حالات کودیکھتے ہوئے  پھر سے  لکھنے پہ مجبور ہو گیا ہوں ۔ملکی حالات اس وقت قابل رحم   ہیں،لاشوں کے انبار ایسے لگ گئے ہیں جیسے کسی ہول سیل دکان پہ لاشوں کی خریدوفروخت ہو رہی ہو۔ سب اپنے غم میں مبتلا   ہیں، کوئی اپنے جوان بیٹے کی نعش اُٹھا رہا ہے تو کوئی بزرگ اپنی بیوی کی نعش کو ایمبولینس نہ ملنے کے سبب اپنی سائیکل پہ شمشان گھاٹ کی اورلے جا رہا ہے۔کوئی آکسیجن کے لئے تڑپ رہا ہے تو کوئی ہسپتال میں بیڈ نہ ملنے کے سبب سرِ راہ موت کی آغوش میں جا رہا ہے۔غرض پورے ملک میں اس بیماری نے حکمرانوں کی بے حسی کے سبب تباہی مچا دی ہے۔ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی غریب اور مجبور عوام ہوتی ہے،مجبوروں اور بے بسوں کو اس وقت خاصی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔کچھ تو اپنی دوائیوں کے لئے ترس رہے ہیں اور کچھ اپنے روزگار   چھن جانے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اس ساری درد انگیز کہانی کوبھارتی میڈیا کے ایک کرونا وائرس میں مبتلاہونے والے صحافی نوین کمارنے اپنی  ایک ویڈیو میں کچھ اس طرح سے بیان  کیا ہے۔۔

”انسانیت پر جو یہ حملہ ہوا ہے اس کی صورت آج نہیں تو کل بدلے گی، بدلنی چاہیے،میں نے اس سے پہلے اس دیش کو اس طرح سے لاشوں کے ڈھیر میں نہیں دیکھا ،ہم اتنے’آسہاے‘(بے بس)کبھی نہیں تھے ایک دیش کے طور پر، انسان کے طور پر، ڈیموکریسی کے طور پر ہم پورے طریقے سے نکمے،بڑشٹ (جعلساز) اور’بربر‘ ثابت ہوئے ہیں،ہم میں سے ہر ایک آدمی اپنی نظروں سے گرا ہوا ہے،ہم سب کسی ’آدرہش شکتی‘ (غیبی طاقت)کی مدد کی اُمید میں ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہاں کوئی سرکار نہیں ہے،یہاں کوئی پردھان منتری نہیں ہے،یہاں کوئی ’ووستا‘ (سہولیت)نہیں ہے،یہاں کوئی افسر شاہی نہیں ہے اور سب کو اپنے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔میں نے اس سے پہلے پچھلے چالیس پینتالیس سال میں ڈاکٹروں کو بلک بلک کر روتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔آپ کسی بھی ڈاکٹرسے بات کریں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں  میڈیکل پروفیشن  سے چڑ ہو گئی ہے ہم اس دن کے لئے تو اس پیشے میں نہیں آئے تھے۔آکسیجن کے بنا اپنے مریضوں کا مرنا ڈاکٹروں کی نیند اُڑا رہا ہے۔اور آپ یقین کریں مجھے ایسا لگتا ہے کہ آج سال بھرکے بعد ہمارے ڈاکٹر بہت ساری مانسک(نفسیاتی) بیماریوں سے لڑ رہے ہوں گے،جو  اموات  وہ دیکھ رہے ہیں اور جتنے اسہائے(بے بس) وہ محسوس کر رہے ہیں اس کے بعد جس ٹروما میں وہ جائیں گے اس کا اندازہ ہم کو اور آپ کو نہیں ہے۔اس دیش کو دوزخ بنا دیا گیا ہے اور ہم سب کو اتنا بیچارہ بنا دیا گیا ہے جیسے ہماری کوئی اہمیت نہیں ہے۔خیر یہ وقت شاید گُزرجائے گا اور جب یہ گزرا ہوا وقت ہمارے سامنے آئے گا مجھے نہیں معلوم میں رہوں گا  یا نہیں رہوں گا ،مجھے نہیں معلوم ڈاکٹر منیش رہیں گے، نہیں رہیں گے ،ڈاکٹر’سونو‘ رہیں گے نہیں رہیں گے،لیکن جو لوگ بھی رہیں گے وہ سوچیں گے کہ اس دنیا کو اور بہتر رہنا چاہے، وہ سوچیں گے کہ ہمیں  ہماری آنے والی نسلوں کے لئے مندر اور مسجد کے جھگڑوں سے اوپر اُٹھنا چاہیے،وہ سوچیں گے اور سوچنا چاہیے کہ ہمارے دیش کو مندروں اور مزاروں،میناروں کی ضرورت نہیں ہے،اُن کو سوچنا چاہیے اس دیش کو اچھے  ہسپتالوں کی ضرورت ہے،اچھے  سکولوں کی ضرورت ہے اس دیش کو اچھے میڈیکل کالجوں کی ضرورت ہے،اچھے ڈاکٹر پیرا میڈیکل  سٹاف کی ضرورت ہے،دوائیوں کی ضرورت ہے،بستروں اور وینٹی لیٹروں کی ضرورت ہے۔ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ اس دیش کے ہر مندر کی دولت کو ہسپتالوں کے حوالے کر دیا جائے،ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ اس دیش کی ہر مسجد کو ہسپتال میں تبدیل کر دیا جائے،ایسا کیوں نہیں ہوسکتاکہ اس دیش میں تب تک کوئی مندر نہیں اُٹھ(بن) سکے  جب تک کہ اُس کے ساتھ سو بیڈ کا ہسپتال نہیں بنایا جاتا،اس کے ساتھ کوئی  سکول اٹیچ نہیں ہو گا،ہم کو سوچنا پڑے گا۔ “(بشکریہ سوشل میڈیا)۔

یہ درد انگیز باتیں ملکی میڈیا کے ایک صحافی کی تھیں۔اس سے محترم قارئین کو اندازہ ہوگا کہ ملکی حالات اس وبائی بیماری اور حکمرانوں کی  بے حسی کے سبب کس طرح سے بگڑ گئے ہیں۔

مجموعی طور پر مشاہدے سے لگ رہا ہے کہ بھارت میں یہ مہلک بیماری روز بروز طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔گزشتہ ہفتہ تک یومیہ تین لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے   تھے، لیکن تادم تحریر پہلی بار بھارت میں تین لاکھ پچاس ہزار سے زائد کیسز مثبت آ  ئے  ہیں، جو کہ اب ایک عالمی ریکارڈ بن گیا ہے۔جب کہ 4ہزار سے زائداموات بھی رپورٹ ہو  ئی  ہیں۔اب تک بھارت میں کرونا متاثرہ افراد کی تعداد 2کروڑ  کے ہندسے کو بھی پار کر گئی ہے۔اس ساری تشویشناک صورتحال کے بیچ چند ممالک نے بھارت سے آنے والے شہریوں پر پابندی عائد کر دی ہے جس میں سے سر ِفہرست امریکہ اور آسٹریلیا ہیں۔آسٹریلیا نے بھارت سے آنے والے شہریوں کی واپسی اب جُرم قرار دے کر سخت سزاؤں  کا اعلان کیا ہے۔امریکی ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کی ایک اہم رپورٹ کے مطابق بھارت میں روزانہ اموات کی تعداد مئی کے وسط تک بڑھ کر یومیہ 13 ہزار تک پہنچ سکتی ہے اور یہ تعداد آج کی تاریخ میں رپورٹ ہونے والی اموات کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ ہے۔اس رپورٹ سے یہ بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ رواں ماہ کے وسط تک ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے حصوں میں غیر معمولی اضافہ  ہوگا۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں کیسز اور اموات میں غیر معمولی اضافہ جاری ہے۔ حالانکہ رپورٹس یہ بھی آ رہی ہیں کہ سرکار اصل تعداد کو چھپا رہی ہے۔

دِلی سے شائع ہونے والے ہفتہ روزہ دعوت میں چھپے ایک مضمون میں لکھاری نے حکومت کے اس دھوکہ دہی کے کھیل  کے بارے کہا ہے کہ”احمد آباد میں حکومت نے اعلان کیا کہ کل 20 لوگ کوویڈ سے ہلاک ہو گئے جب کہ صرف 17 گھنٹوں کے اندر ایک کوویڈ ہسپتال سے”سندیش اخبار“ کے نامہ نگار نے 63 لاشوں کی گنتی کی۔اسی طرح سے امبانی کے جام نگر میں گرو گوبند ہسپتال سے اپریل 10 اور 11 کو 100 لاشوں کو نکلتے دیکھا گیاجب کہ حکومت کے بیان کے مطابق کوئی موت نہیں ہوئی تھی۔سورت سے انہی تاریخوں میں 22 اموات یومیہ کا سرکاری عدد تھا جب کہ شہر میں ایک دن کے اندر 700لوگوں کی  آخری رسومات کی گنجائش ہے اور وہاں آگ ٹھنڈی ہی نہیں ہو پائی، یہاں تک کہ بھٹی کی مسلسل گرمی سے لوہے کی سلاخیں تک مڑ گئیں۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ساری صورتحال میں جو سب سے زیادہ مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں وہ مجبور اور لاچار عوام ہے۔بڑے لوگوں نے تو آکسیجن کے سلینڈر تک خرید کے رکھے ہیں خرد و نوش کی تو بات ہی نہیں۔لیکن مجبور،لاچار،مزدور طبقہ چھوٹے موٹے کاروباری افراد  خاصے پریشانی کے عالم میں   ہیں۔اس تشویشناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے تو چند زندہ دل لوگوں کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑا ہو جانا چاہے۔ جہاں بھارت کی اکثر ریاستیں اس مہلک بیماری کی لپیٹ  میں آگئی ہیں وہیں مرکزی زیر انتظام جموں کشمیر میں بھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اپنے اپنے گاؤں کی سطح پہ بیوت المال کا قیام عمل میں لاناچاہیے یا جہاں یہ بیوت المال کا قیام ہے وہاں اس کی مضبوطی کے لئے ہر طرح کے اقدام کرنے چاہئیں،اِن ہی بیت المالوں کے ذریعے سے اس وقت ہمیں مدد کے لئے اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے،بلکہ آکسیجن کی فراہمی کے حوالے سے بھی تدابیربنانی چاہئیں ۔ماہرین کے مطابق اگر بھارت میں یہی صورتحال رہی تواگلے چند ہفتوں کے اندر عوام کوشدید قسم کی بہرانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جب ہر قسم کا کاروبار اور مزدوری ختم ہو گئی ہو،کارخانے اور فیکٹریوں میں کام کرنے والا مزدور طبقہ،دیہاڑی کے مزدور اور مفلوک الحال کہاں جائیں۔ اب ضرورت ہے کہ ہم اس عالم نفسانفسی میں ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔سماجی تنظیموں کو بھی اب اس حوالے سے خاصا متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اس مجبور و محکوم قوم کی بر وقت داد رسی ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply