شان الحق حقی اور اردو کا تلفظ۔۔حافظ صفوان محمد

اردو رسم الخط، اِملاء اور تلفظ، ان تینوں موضوعات پر لمبی چوڑی بحثیں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو بولنے برتنے والوں کو اپنی زبان کا احساس ہے اور وہ اس کی بہتری کے لیے اپنی سی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ رسم الخط ہندفاربی (Indo-Perso-Arabic) ہو یا رومن، اس پر بہت بحثیں ملتی ہیں اور اس موضوع پر پہلا رسالہ مولوی نذیر احمد دہلوی نے لکھا۔ اِملاء کے بارے میں غیر منقسم ہندوستان کے دور سے کئی کتابیں لکھی گئیں اور تقسیم کے بعد سرحد کے دونوں طرف اس کے لیے اجتماعی سفارشات بھی مرتب ہوئیں۔ عوام ان انفرادی تجاویز اور اجتماعی سفارشات دونوں کو استعمال کر رہی ہے۔ رہا تلفظ، تو اس کے بارے میں سب سے زیادہ اختلاف رہا ہے، بلکہ اس اختلاف پر تو اجتماعی سفارشات تک مرتب نہیں ہوسکیں۔ شان الحق حقی صاحب کی “فرہنگِ تلفظ” وہ پہلی لغت ہے جو اس ادارے نے شائع کی ہے جس نے اِملاء کے لیے اجتماعی سفارشات مرتب کی تھیں یعنی مقتدرہ قومی زبان۔ چنانچہ اس لغت اور اس میں موجود الفاظ کے تلفظ کی حیثیت ان سفارشات جیسی ہے جو قومی زبان کے رسم الخط اور اِملاء سے متعلق مجاز قومی ادارے نے پیش کی ہیں۔

اس لغت کے پہلے ایڈیشن کے بعد اس پر تحفظات اور اس میں کے کچھ سہو ہائے کتابت وغیرہ کی روشنی میں جنابِ شان الحق حقی نے اس پر قلم لگایا۔ یہ درستیاں بھی آئندہ ایڈشنوں میں لگائی جاتی رہیں۔ حقی صاحب کی زندگی میں اس کا آخری ایڈیشن/ ری پرنٹ مع تصحیحات غالبًا 2003 میں آیا۔ (اس وقت لغت موجود نہیں اس لیے اندازے سے لکھ رہا ہوں۔ شکر گزار ہوں گا اگر کوئی صاحب تصحیح کرا دیں۔) میں اردو الفاظ کے تلفظ کے لیے حتمی سند فرہنگِ تلفظ کے اس ایڈیشن کو سمجھتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک اس ایڈیشن کی حیثیت مقتدرہ قومی زبان کی طرف سے تلفظ کے لیے ان سفارشات کی ہے جنھیں حقی صاحب نے پیش کیا ہے۔ ہاں، اس میں جو سہو ہائے کتابت ہیں ان میں کے جن کا مجھے علم ہے ان کا میں دفعیہ کرلیتا ہوں۔ تلفظ کے لیے کسی بھی قومی ادارے کی کوئی سفارشات جو فرہنگِ تلفظ کے اس ایڈیشن کے بعد کی ہیں، یا کسی اہلِ فن کی انفرادی تجاویز ہیں، ان کو میں لائقِ تحسین سمجھتا اور ان کی محنت کا اعتراف کرتا ہوں تاہم ان کے قبول یا رد میں میں آزاد ہوں۔

زبان کے بارے میں کچھ بھی کرنے کے لیے سند کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو تلفظ کے لیے میں جنابِ شان الحق حقی کو ویسے سند مانتا ہوں جیسے اِملاء کے لیے ترقیِ اردو بورڈ انڈیا کی اور مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد کی سفارشات کو۔ تلفظ کے لیے جنابِ حقی نے کچھ ایسے ضوابط لکھے ہیں جن سے ان الفاظ کے تلفظ کے لیے بھی روشنی مل سکتی ہے جو ان کے لغت میں موجود نہیں ہیں، اور میں یہی کرتا ہوں۔ چنانچہ حقی صاحب نے اردو کے لیے وہ کام کیا ہے جو نہ ترقیِ اردو بورڈ انڈیا نے بطور ادارہ کیا اور نہ مقتدرہ قومی زبان پاکستان بطور ادارہ کرسکا۔ مقتدرہ قومی زبان کی یہ اعانت (contribution) ہمیشہ یادگار رہے گی کہ انھوں نے اردو تلفظ کا ہفتخواں اجتماعی نہ سہی، انفرادی طور پر ہی طے کرا لیا اور وقت کے اہم ترین بیدار مغز زباندان سے یہ سند فراہم کرا دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

رہی بات اختلاف کی، تو اختلاف زبان و بولی کا حسن ہے۔ جب دو یا زائد تلفظ عوام کی زبان پر ہوں اور ان میں سے کسی کو اختیار کرنا ہو تو ظاہر ہے کہ کسی کو ترجیح دی جائے گی۔ تلفظ میں اصول بالکل درست، لیکن عوام کی زبان پر جاری تلفظوں میں سے کسی کا اختیار کرنا ترجیح کا معاملہ ہے نہ کہ رد و تنسیخ کا۔ آئے جو مجھے ملزم کہے!

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply