تربیتِ اولاد۔۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

تم حکم دو اپنی اولادوں کو نماز پڑھنے کا اس وقت جب انکی عمر سات سال ہوجائے اور تم مارو ان کو نماز نہ پڑھنے پر جب انکی عمر دس سال کی ہو اور دس سال کی عمر کے بعد تم جدا کر دو ان کے بستر۔
رواه أحمد وأبو داود، وهو صحيح

نماز کے حکم کے ساتھ دوسرا حکم بستر جدا کرنے کا ہے کہ جب بچہ دس سال کا ہوجائے تو بچوں کو اپنے ساتھ سلانے کی بجائے ان کے بستر الگ کر دئیے جائیں۔
اب سب سے پہلی سوچ مجھے تو یہی آئی کہ سات و دس سال میں بچے کی عمر و سمجھ ہی کیا ہوتی ہے لیکن حکم ہے تو اس کی مصلحت بھی ہے۔ بستر جدا کرنے سے تین سال پہلے بچوں سے نماز بھی پڑھوانا ہے طوالت سے بچنے کی خاطر عرض کر دوں کہ نماز پڑھانی ہے تو وضو بھی سکھانا ہے اور رفتہ رفتہ سات سے دس سال کی عمر میں وضو و طہارت، پاکی و ناپاکی کے مسائل بھی سمجھانے ہیں۔ لڑکوں کو ان کے والد اور لڑکیوں کو والدہ سکھائیں تو انتہائی احسن ہے۔ والد لڑکوں کو اور والدہ لڑکیوں کو بلوغت کے مسائل سے کہیں پہلے اپنے جسم کے ستر سے متعلق بتائیں اور آگاہ کریں کہ ستر کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے اور نہ ہی ستر والے مقامات کسی کو چھونے دیتے ہیں اور نہ ہی خود ان سے کھیلتے ہیں۔ اور جب بچے دس سال کی عمر تک پہنچ رہے ہوں تو بلوغت و حیض و نفاس کی بابت راہنمائی کے ساتھ ساتھ بلوغت کے ساتھ آنے والی ذمہ داریوں سے بھی آگاہی دینا والدین کا فرض ہے۔ جن گھروں میں والدین بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم ترجمہ کے ساتھ خود دیتے ہیں چاہے روزانہ کی ایک، دو آیات ہی کیوں نہ ہوں ان گھروں میں ایسے مسائل سے ہی نہیں بلکہ نکاح اس کی غرض و غایت اور زوجین کا نباہ نہ ہونے کی صورت میں طلاق و خلع کے مسائل سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے۔ لڑکوں کو قرآن کے حکم سے نظریں نیچی رکھنا اور لڑکیوں کو اوڑھنیوں کا بھی استعمال آ جاتا ہے۔ یہاں تک تربیت ہوتی ہے کہ کسی غیر مرد سے بچیاں نرم لہجے میں بات تک نہیں کرتیں قریب جانا تو دور کی بات ہے۔ البتہ قرآن مجید کو اگر طاقچوں میں رکھ کر مسلمانوں والے نام کے ساتھ اگر ہم کسی بھی دوسری تہذیب سے اچھائی کی بجائے صرف برائی سیکھنا چاہیں تو یہ بھی ہماری مرضی پر منحصر ہے۔ انگریز تہذیب یا یورپی و امریکی تہذیب میں جہاں بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کی اصطلاحات عام ہیں وہیں سے امریکن سسٹم کی اصطلاح بھی آئی جو آج ایک گلوبل اصطلاح بن چکی۔ اس کا مطلب صرف اپنے اپنے کے پیسے ملا کر کھا پی لینا یا ہلا گلا کرنا نہیں ہے بلکہ اس میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ کوئی لڑکی / لڑکا کسی کلاس فیلو / دوست سے کھانے کے پیسوں تک کی favour قبول نہیں کرتا کہ مبادا انہیں گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ نہ سمجھ لیا جائے کہ اس سوسائٹی میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے طور پر رہنے کی بھی اقدار ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے تحائف اور favours اسی صورت قبول کرتے ہیں جب وہ ذہنی طور پر گرل فرینڈ / بوائے فرینڈ بننے کے لئے تیار ہوں اور اس کا اعلان کر دیں یا اپنے behavior سے show کر دیں ورنہ وہ simple friends ہی ہوتے ہیں۔

سورہ نور، سورہ النساء کا مطالعہ بچوں کے ساتھ مل کر کرنا بھی بہت اہم ہے۔ ایک اور بات موجودہ نظام تعلیم کا اسلامی نظام تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔
آپ نے سنا ہو گا بچے کی تین چار سال کی عمر میں بسم اللہ ہوتی تھی پھر اتالیق اسے تین چار سال تک عمومی تعلیم اور پھر اس کے رحجان کے مطابق کسی مخصوص شعبے کی تعلم دیتے اس طرح حد چودہ پندرہ سال کی عمر میں بچہ specialization کر کے فارغ التحصیل ہوتا اور اٹھارہ سال کی عمر میں فوج میں بٹالین کمانڈر بھی بن جاتا۔ محمد بن قاسم و دیگر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور دنیا بھر کے فوجی اداروں کی بھرتی میں اب بھی اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہاں تو پچیس تیس سال تک پڑھائی ہی ختم نہیں ہوتی اور گریجویشن کرنے والے سے بھی یہی پوچھا جا رہا ہوتا ہے کہ بیٹے بڑے ہو کر کیا بنو گے۔

کسی کے ذہن میں سوال آ سکتا ہے اسلامی نظام تعلیم کی بابت تو مسجد تعلیم و سماجی سرگرمیوں کا گڑھ اور یونیورسٹی ہوتی تھی۔ اگر کسی نے وزیر خان مسجد یا بادشاہی مسجد یا پرانی تاریخی مساجد دیکھی ہیں تو ان کے ساتھ حجرے / کمروں کی قطاریں بھی دیکھی ہوں گی۔ یہ ہاسٹل ہوتے تھے دوردراز سے تعلیم حاصل کرنے آنے والوں کے لئے۔ساجد کے نام جاگیریں ہوتی تھیں جن کی آمدن سے اساتذہ کو تنخواہیں اور طلباء کو وظائف ادا کئے جاتے تھے۔ ان کی مساجد میں طب، ریاضی، انجنئیرنگ، فلکیات، حرب و ضرب، فنون لطیفہ و باقی تمام علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ لارڈ میکالے کی سفارشات پر یہ نظام تعلیم ختم کیا گیا۔ مساجد سے جاگیریں چھین لی گئیں اور انگریز نے جیسے پاپائیت و دیں کو الگ کیا تھا وہی کوشش مسلم امہ میں کی گئی خلافت کے خاتمے کے بعد۔ پہلے ہر مسلم سائنسدان، ریاضی دان، فنون لطیفہ سے متعلق یا عسکری تعلیم حاصل کرنے والا دیں کا بھی کماحقہ علم رکھتا تھا لیکن ہمارا نظام تعلیم ختم کر دیا گیا۔

ایک اور امر قابل ذکر ہے کہ کسی بھی موضوع پر لکھتے ہوئے ہمیں قرآن و سنہ سے سیکھی ہوئی تہذیب و شائستگی کی روشنی میں لکھنا چاہیئے۔ ہمارے لکھے ہوئے الفاط نہ صرف ہمارے بلکہ ہمارے گھرانے اور ہماری تربیت کرنے والوں کے بھی سفیر ہوتے ہیں۔

اس ضمن میں مجھے شیخ احمد دیدات رح یاد آ گئے ۔۔۔۔۔ ایک عیسائی مبلغ  کے ساتھ مناظرہ تھا ۔۔۔۔ ایک مقام پر برجستہ شیخ احمد دیدات رح نے عیسائی مبلغ سے سوال کیا کہ اگر تم اپنی بیٹی کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کی بابت بتانا چاہو تو کون سی کتاب دو گے قرآن یا بائبل تو عیسائی مبلغ کے منہ سے بے ساختہ نکلا قرآن۔
آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ایسا قرآن کی شائستگی modesty کی وجہ سے ہے۔ میری دانست میں اس modesty کو ہمیں ہر حال میں پیش نظر رکھنا چاہیے۔

مزید برآں قرآن پاک کا اسلوب بیان میاں بیوی کے رشتے کے حوالے سے ملاحظہ ہو؛
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلق کو ‘لباس ‘کے ایک بہت خوبصورت استعارے سے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”تمھاری بیویاں تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘ ، (بقرہ۱۸۷ :۲)

جب قرآن حکیم میں میاں بیوی کے باہمی تعلق کی بابت بیان ہوا تو پھر دیکھیں استعارہ کی زبان استعمال کی؛

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”عورتیں تمھارے لیے بمنزلہ کھیتی ہیں تواپنی کھیتی میں جس طرح چاہے آؤ، اوراپنے لیے آگے بڑھاؤ ، اوراللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھوکہ تمھیں اس سے لازماًملنا ہے اورایمان والوں کو خوشخبری دے دو۔‘‘ ، (بقرہ۲۲۳ :۲)

ایک شاعر نے بھی کہا تھا کہ؛
میں استعاروں کی سر زمیں پر اُتر کے دیکھوں تو بھید پاؤں
بشر مسافر، حیات صحرا، یقین ساحل، گماں سمندر

اس لیے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت یا کسی بھی موضوع کو بیان کرتے ہوئے بیان کرنے کے طریقہ کار میں وہ انداز بیان و شائستگی ملحوظ خاطر رکھنی چاہیئے جس کی تعلیم بحیثیت مسلم قرآن مجید و فرامین رسول ﷺ میں ہمارے لئے موجود ہے۔ تحریر یا گفتگو کا انداز ایسا ہو کہ ہم مسلم کلچر میں اپنے والدین و بچوں / فیملی کے سامنے اسے پڑھ سن سکیں اور ان سے اس پر گفتگو کر سکیں۔

وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ (سورۃ یٰسین ۔ آیت 17)

Advertisements
julia rana solicitors london

اور ہمارے ذمے کھلم کھلا پہنچا دینا ہی ہے۔

Facebook Comments