یہ بیٹی کس کی بیٹی ہے ؟۔۔عامر عثمان عادل

دو دن قبل رات ساڑھے دس بجے کسی کام سے کھاریاں شہر جانے کے لئے گھر سے نکلا ۔ جی ٹی روڈ سے ذرا پیچھے کینٹ کی حدود میں جہاں کبھی پہلی چیک پوسٹ ہوا کرتی تھی ایک بچی کو سڑک کنارے بیٹھے دیکھا تو حیرت ہوئی  ۔ عمر بمشکل چھ سات سال ہاتھ میں ٹشو پیپر کے منی پیکس تھامے ۔ گاڑی روکی شیشہ نیچے کیا
بیٹا آپ اس وقت یہاں کیوں ؟
انکل میں گھر والوں کے لئے آتی ہوں
بیٹا اپ کے گھر کا بڑا کون ہے ؟ بابا کیا کرتے ہیں
انکل وہ نفسیاتی مریض ہیں
اور آپ کی ماما ؟
انکل وہ بیمار ہیں
بیٹا  آپ گھر جا کے بات کریں آپ کو اس طرح اکیلے رات گئے باہر نہ رہنے دیا کریں ۔ ہمیں بتائیں آپ کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آپ کو رات گئے باہر نہ آنا پڑے
آپ نے ضرور پوچھ کے آنا ہے میں  آپ سے دوبارہ بات کروں گا
بات آئی  گئی ہو گئی۔

کل رات دوبارہ میرا گزر  ہوا شہر کی جانب رات کے نو بجے کا وقت تھا ،پیزا ہٹ کے سامنے گاڑی پارک کیے ایک دوست کا منتظر ،موبائل پہ نظریں جمائے بیٹھا تھا ۔ اچانک شیشے پہ دستک ہوئی  دیکھا تو وہی بچی باہر کھڑی تھی۔

انتہائی  اپنائیت سے کہنے لگی
انکل آپ وہی ہیں ناں جو پرسوں ملے تھے
کہا ،جی۔۔

آپ نے گھر جا کے ماما سے بات کی تھی ؟
جواب آیا اب میری ماما بہتر ہیں
کہا آپ میری بات کروا سکتی ہیں ان سے ؟
بچی نے نمبر بولا

ساتھ وہ سہمی ہوئی  بار بار پیزاہٹ کے مرکزی دورازے پہ براجمان گارڈ کی طرف دیکھتی جاتی
انکل گارڈ مجھے ڈانٹے گا یہاں کھڑا نہیں ہونے دیتا
نمبر ڈائل کیا بار بار، کسی نے اٹینڈ نہ کیا
پوچھا بیٹا آپ پڑھتی ہیں؟
جی انکل کلاس ون میں
بات کرتے ہوئے اس معصوم کی جان گارڈ  کی ڈانٹ میں اٹکی ہوئی  تھی
کہا بیٹا نمبر اٹینڈ نہیں ہو رہا آپ گھر جا کے ماما کو بتانا انکل نے آپ سے بات کرنی  ہے
پھولوں جیسی بچی کہنے لگی جی انکل ماما کا فون آ گیا ناں تو آپ نے کہنا ہے مجھے آپ کی بیٹی نے نمبر دیا
غور سے دیکھا اس کی انگلی پہ مشینی تسبیح تھی،
پوچھا بیٹا اس پہ کیا پڑھتی ہو؟
جواب آیا سبحان اللہ

خدا حافظ کہہ کر وہ بیٹی دور گارڈ کی نظروں سے اوجھل دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی
یہ کیا ہے؟
کیا واقعی یہ گھرانہ ضرورت مند ہے جو اپنی پری کو رات گئے تک باہر سڑکوں پہ دھکے کھانے پر مجبور کرتے ہیں یا محض ہمدردی بٹورنے کی خاطر اس ننھی سی گڑیا کا استحصال۔۔حقیقت جو بھی ہو کیا یہ ہمارے منہ پر طمانچہ نہیں جو انسانی حقوق کے چیمپین بنے پھرتے ہیں
صاحب!کس میں حوصلہ ہے کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو رات کے اس پہر گھر سے باہر دھکیل دے
اور وہ بیچاری جس کے ابھی کھیلنے کے دن ہیں پوش ریستورانوں کے سامنے حسرت بھری نگاہوں سے اپنی عمر کی بچیوں کو ہزاروں روپے کا فاسٹ فوڈ تھامے دیکھتی رہ جائے
ربا !
کیوں یہ اتنی تفریق
بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں
کیا اسسٹنٹ کمشنر صاحب رات کو بھیس بدل کر شہر کے چوک چوراہوں میں جا بجا ان ننھے پھولوں کو اس ہوس زدہ معاشرے کے رحم و کرم پہ دیکھنے کی ہمت کریں گے
کیا بہتر نہ ہو گا وہ ان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ان کے گھروں تک جا پہنچیں

Advertisements
julia rana solicitors london

والدین سے ان کے حالات جانیں ان کی کفالت کا ذمہ اٹھائیں ان کو سختی سے تنبیہہ کریں کہ آئندہ آپ کے بچے سڑکوں پہ دکھائی  دیے تو آپ کے خلاف کاروائی  ہو گی
کیا یہ صاجب ثروت لوگوں کا فرض نہیں کہ وہ اپنے بچوں کا صدقہ اتارنے کی خاطر ایسی بچیوں کے سر پہ دست شفقت رکھیں ان کو اپنی بیٹی بنا لیں۔
شہر والو!
ڈرو اس وقت سے جب ماں باپ کی مجبوریوں پہ کوئی  پھول قربان نہ ہو جائے کسی دست ہوس سے پامال نہ ہو جائے
کیا خیال ہے؟
ایک تحریک بنا کر آگے نہ بڑھا جائے
ریاست کو اس کی ذمہ داری یاد دلائی  جائے
درد دل رکھنے والوں کے دروازے پہ دستک دی جائے
تاکہ شام کے اندھیرے چھا جانے کے بعد کسی ماں کا لال کسی کی گڑیا سڑکوں پہ اہل کرم کا تماشا نہ دیکھے
یہ بیٹی میری بیٹی ہے
یہ بیٹی آپ کی بیٹی ہے!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply