کشمیر ۔ ڈوگرہ راج (13)

کشمیر خریدنے کے بعد گلاب اور جموں آرمی کشمیر کا قبضہ لینے گئے لیکن ہزیمت اٹھانا پڑی۔ سکھوں نے 1819 میں کشمیر پر قبضہ کیا تھا۔ ان کے مقرر کردہ گورنر شیخ غلام محی الدین سکھا شاہی کا اعتماد بھی رکھتے تھے اور مقامی آبادی میں بھی مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے دور میں 1841 میں سری نگر مسجد واپس کھلوا دی تھی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے شیخ امام الدین 1845 میں گورنر بنے۔ نوجوان گورنر نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جموں کے فوجیوں کو جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے برٹش انڈین آرمی سے مدد لی گئی۔ دس ہزار کی فوج کشمیر پہنچی جس کے آگے شیخ امام الدین نے ہتھیار ڈال دئے۔ نومبر 1846 کو کشمیر سیاسی طور پر نئی ریاست کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔ مئی 1847 میں برٹش کے ساتھ علاقے کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔ ہزارہ کا علاقہ گلاب سنگھ کے لئے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ اس کو برٹش کے حوالے کر دیا اور اس کے بدلے لکھن پور کا علاقہ لیا اور اینگلو کشمیر سرحد پر اتفاق ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا میں 1857 میں سپاہیوں کی بغاوت ایسٹ انڈیا حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج تھا۔ کمپنی کا اقتدار ختم ہونے کا بہت امکان تھا۔ گلاب سنگھ نے اس نازک مرحلے پر برٹش کا ساتھ دیا تھا۔ پنجاب حکومت کو دس لاکھ روپے دئے تا کہ اس پر قابو پانے کے لئے فوجی بھرتی کئے جا سکیں۔ برٹش کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت موقع سے فائدہ اٹھا کر گلاب سنگھ پنجاب پر قبضہ کرنا چاہتے تو پنجاب کا دفاع ناممکن تھا۔ اگست 1857 میں گلاب سنگھ کی وفات ہو گئی۔ حکومت رنبیر سنگھ کے پاس آئی۔ رنبیر نے دو ہزار فوجی، دو سو گھڑسوار اور چھ توپیں دہلی کے محاصرے کے لئے برٹش کی مدد کو بھیجیں۔ اس وقت میں مدد کرنے پر انہیں سر کا خطاب ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1857 کی جنگِ آزادی تھی، جس کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور بعد میں یہ کمپنی ختم کر دی گئی۔ انڈیا برطانوی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
برطانیہ نے انڈیا کو دو طریقے سے تقسیم کیا۔ ایک برٹش انڈیا جہاں براہِ راست حکومت تھی۔ دوسرا پرنسلی انڈیا جہاں پر مقامی حکمران حکومت کرتے تھے۔
ان دونوں جگہوں پر لوگوں کی قسمت اور ان کے مستقبل نے الگ راستے لئے۔ برٹش انڈیا میں برٹش افسر براہِ راست منتظم تھے۔ ان کا کام ریوینیو اکٹھا کرنا بھی تھا، امن و امان قائم رکھنا اور انصاف دینا بھی۔ یہاں پر بعد میں سیاسی پارٹیوں کی اجازت ملی۔ پرنسلی انڈیا میں، بشمول ریاستِ جموں و کشمیر، عام طور پر شخصی حکمرانی رہی۔ یہ حکمران ٹیکس کے معاملات میں، ڈیوٹی لگانے میں، قانون بنانے میں آزاد تھے۔ ان علاقوں میں وائسرائے کا نمائندہ پولیٹیکل ایجنٹ یا ریزیڈنٹ کہلاتا تھا۔ اس کا کام وائسرائے کو رپورٹ دینا اور بوقتِ ضرورت حکمران کو “مشورہ” دینا ہوتا تھا۔ (یہ مشورہ قبول کرنا لازم ہوا کرتا تھا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلگت کا علاقہ سکھوں نے 1841 میں فتح کیا تھا۔ معاہدے کے بعد یہ رسمی طور پر ریاست جموں کشمیر میں تو آ گیا تھا لیکن یہاں پر طاقتور مقامی حکمران غور رحمان تھے۔ غور رحمان کا تعلق یاسین سے تھا اور انہوں نے راجہ گلگت کو قتل کر کے یہ علاقہ قبضے میں لے لیا تھا۔ 1861 میں مہاراجہ رنبیر سنگھ نے گلگت کو اور 1863 میں یاسین کو فتح کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک انڈین مورخ نے 1846 میں لکھا کہ سکھ حکومت کے جبر اور لالچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کشمیر میں لوگ پسماندہ ہیں۔ ڈوگرہ راج کشمیر کے لئے سکھ دور سے بہتر نہیں رہا۔ اس کے قانون کے تحت تمام زمین حکمران کی ذاتی ملکیت تھی۔ تین بڑے زلزلے، دو بڑے قحط، ہیضے کی پانچ وبائیں، ایک مرتبہ بڑے سیلاب اور دو بڑی آتشزدگیاں ۔۔۔ کشمیر میں ڈوگرہ راج کے پہلے پچیس سال کی ہیڈلائنز تھیں۔ راجہ کا طریقہ ان مصائب کے وقت ممکنہ مدد کی کوشش کے بجائے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply