پلوٹینس/مبشر حسن

اس کی پیدائش ہوئی 205 عیسوی میں اور وفات ہوئی 270 عیسوی میں۔

رومن فلسفی اور نو فلاطونیت کا بانی پلوٹینس مصر میں لائیکوپولس کے مقام پر پیدا ہوا۔ اس کی زندگی کے بارے میں معلومات کا واحد مآخذ ایک سوانح ہے جواس کے شاگرد اور ایڈیٹر پورفائری نے اپنے استاد کی تحریروں Enneads کے دیباچے کے طور پر لکھی ۔ دیگر قدیم مآخذوں سے پورفائری کی فراہم کردہ معلومات کی تصدیق نہیں ہوتی ۔ پورفائری پلوٹینس کی زندگی کے آخری چھ برس پر توجہ مرکوز کرتا ہے جب وہ اس کے ساتھ روم میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہم بوڑھے سقراط کی طرح بوڑھے پلوٹینس کے بارے میں ہی جانتے ہیں اس کی عقلی اور روحانی ترقی کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں۔ پورفائری بتاتا ہے کہ پلوٹینس نے کبھی اپنے والدین نسل یا وطن کے متعلق بات نہ کی تھی۔ چوتھی صدی عیسوی کے ایک مصنف یوناپیئس کے مطابق وہ لائیکو پولس ( مصر ) میں پیدا ہوا۔ اس امر کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا کہ اس نے عظیم عروس البلاد سکندریہ میں فلسفہ پڑھا۔ کہا جاتا ہے اس کی زبان یونانی تھی اور اس نے یونانی تعلیم ہی حاصل کی۔ وہ اپنے اندازِ فکراورعقلی و مذہبی عقیدتوں کے اعتبار سے ہیلینیائی ہے۔

اپنی زندگی کے 28 ویں سال میں پلوٹینس نے فلسفہ پڑھنے کی خواہش محسوس کی اور سکندریہ گیا ۔ اس نے سکندریہ میں اپنے دور کے ممتاز ترین اساتذہ کے لیکچر سنے جنہوں نے اسے یاسیت میں مبتلا کر دیا ۔ آخر کا را یک دوست ا سے آمونیئس ” Sacias” کا لیکچر سنوانے لے گیا ۔ آ مونیئس کی گفتگو سننے کے بعد پلوٹینس نے کہا‘’’ یہ ہے وہ آدمی جس کی مجھے تلاش تھی‘‘ اورا گلے گیارہ برس اس کے ساتھ رہا۔

آمونئیس قدیم فلسفہ کی تاریخ میں نہایت پر اسرار شخصیت ہے۔ کہا جاتا ہے وہ ایک مرتد عیسائی تھا۔ پلوٹینس کا گیارہ برس تک اس کے ساتھ رہنا حیرت انگیز نہیں۔ قدیم فلسفیانہ مکا تب میں آپ مخصوص مدت کے کورسز کر نے کے لیے ہی داخل نہیں ہوتے تھے ۔ آمونیئس کے ساتھ رفاقت کے عرصہ کے اختتام پر پلوٹینس رومن شہنشاہ گورڈیان سوم کی مہم میں (فارس کے خلاف) شامل ہوا (242ء) تا کہ فارسیوں اور ہندوستانیوں کے فلسفہ کے متعلق براہ راست معلومات حاصل کر سکے۔ تاہم میسوپوٹیمیا میں اس مہم کو تباہ کن انجام سے دو چار ہونا پڑا۔ گورڈیان مارا گیا اور فلپ عربی شہنشاہ بن بیٹھا۔ پلوٹینس بڑی مشکل سے جان بچا کر بھا گا اور اینٹی اوک پہنچا۔ وہاں سے وہ روم گیا اور چالیس برس کی عمر میں وہیں مقیم ہو گیا۔ اس دور میں کسی یونانی فلسفی کا مشرقی فکر میں دلچسپی رکھنا غیر معمولی نہیں تھا۔ پلوٹینس کی اپنی فکر بھی ہندوستانی فلسفے کے ساتھ کچھ واضح مشابہتیں رکھتی ہے لیکن اس کا حقیقت میں کبھی بھی مشرقی یوگیوں کے ساتھ رابطہ نہ ہوا کیونکہ مہم نا کام ہوگئی تھی۔ پلوٹینس کی مرکزی سرگرمی (جس پر اس نے اپنا زیادہ تر وقت اور توانائی خرچ کی) وہ اس کی تعلیمات تھی اور روم میں 10 برس گزارنے کے بعد وہ لکھنے میں مشغول ہو گیا۔ اس کا مکتب با قاعدہ’’ مکتب‘‘ نہیں تھا البتہ اس کا انداز تعلیم Scholastic نوعیت کا تھا۔ وہ افلاطون یا ارسطو پر سابقہ فلسفیوں کی تحریر کر دو شرحوں کے اقتباس پڑھ کر سنا تا اور پھر اپنے خیالات بیان کرتا۔ تا ہم تعلیمی سیشن دوستانہ اور غیررسمی تھے اور وہ غیر محدود بحث مباحثے کی حوصلہ افزائی کرتا۔ یہ مکتب دراصل دوستوں اور مداحوں کا ایک ڈھیلا ڈھالا حلقہ تھا۔ پلوٹینس نے اپنے مقالے انہی دوستوں کے لیے لکھے اور پورفائری نے انہیں اکٹھا کر کے”Anneads” کی صورت دی ۔

پلوٹینس اپنی تحریروں میں افلاطون کی تعلیمات کے متعدد پہلوؤں کی وضاحت کر تا ؛ افلاطون کی ’’نیکی ‘‘ ارسطو کی ’’روح‘‘ اور رواقیوں کی’’ کائناتی روح‘‘ کی تالیف کرتا؛ اور فلسفے میں تمام ماقبل ارسطور رجحانات کا منظم طریقے سے جواب دیتا ہے۔ وہ رواقیوں اور ایپی قورس پسندوں کی مادیت پسندی کے خلاف اپنی روحانیت نئی اکیڈمی کی تشکیلیت کے خلاف علم سے ممکن ہونے کے متعلق اپنی رجائیت سے کام لیتا ہے۔ اس نے غناسطیوں کی اخلاقی ثنائیت Dualism کا جواب وحدانیت سے دیا Eclectics کی نتائجیت (Pragmatism) کا مقابلہ اپنے مطلق اقدار کے عقیدے سے کیا اور نجومیوں کی تقدیر پرستی کو روکنے کے لیے آزاد ارادے کو برائی کا منبع بتایا ۔

اس کی مابعد الطبیعیات نے موضوعیت اور معروضیت کی ثنائیت کا خاتمہ کر دیا۔ حقیقت روحانی ہے لیکن یہ نہ تو ذہن اور نہ ہی ذہن سے باہر کسی اور چیز کی پیداوار ہے ۔
پلوٹینس کے خیال میں خود آگہی کا اتحاد ہی علم اور جاننے کی اہمیت کی ثنائیت کو تشکیل دیتا ہے ۔ روح اور روحانی دنیا کا ایک دوسرے کے بغیر کوئی مفہوم نہیں ۔

پلوٹینس نے انسان کو جسم روح اور نفس (Body Soul & Spirit) میں تقسیم کیا۔ اس کے مطابق جسم محض مادے پر ہی مشتمل نہیں۔ مادہ ایک متوسط چیز ہے۔ یہ بذاتہ جسم نہیں کیونکہ جسم مادے اور صورت کا مرکب ہے۔ وسیلہ ہونے کے ناتے اسے بطور ہستی نہیں لیا جا سکتا، چنانچہ اس کی حالت بھی لاشئے جیسی ہی ہے۔ ہستی کے پیمانے میں اس کا درجہ سب سے نیچے اور اہمیت کے پیمانے میں بدترین ہے۔۔۔نور سے محروم’’ تاریک‘‘’’ خیر سے عاری‘‘’’اولین شر‘‘ اسے روح نے تخلیق کیا۔

کچھ لوگ روح کو جسم کے ساتھ شناخت کرتے اور اسے بھی عارضی/ مادی سمجھتے ہیں۔ لیکن روح مرکب نہیں، جبکہ جسم ہے۔ روح میں کوئی تخفیف یا اضافہ نہیں ہوسکتا، جبکہ جسم میں ہوسکتا ہے۔ روح میں تبدیلیاں ( مثلا دانش ) جسم پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ نہ ہی جسم روح کی طرح سوچنے اور محسوس کرنے کے قابل ہے۔

نفس یا Spirit بھی روح جیسا حیاتی اصول ہے مگر ایک برتر سطح پر۔ اگر چہ روح نفس سے کم تر ہے لیکن یہ اس کے لیے ایک مقناطیسی کشش رکھتی اسے بہ نظر تحسین دیکھتی اور زیادہ خوب صورت بن جاتی ہے کیونکہ نفس اور اس کے تحائف ہی اس کی اصل خوبصورتی ہیں ۔ جب ہماری استدلالی صلاحیت نفس کے خواص حاصل کر لے تو نہ صرف ہماری خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہم خود بھی نفس بن جاتے ہیں ۔ جس طرح انفرادی روح کا تعلق جسم کے ساتھ ہے اسی طرح روحِ عالم قابل محسوس اشیاء کی دنیا کے ساتھ منسلک ہے۔ پلوٹینس دنیا کے متعلق ہمارے علم کو محض رائے قرار دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حیاتی دنیا کی تخلیق روح عالم نے کی۔ اس کے مطابق فطرت روح عالم کی تشکیلی قوت ہے ۔ یہ سوال نہیں کیا جاسکتا کہ روح عالم نے کائنات کیوں تخلیق کی اور خالق آخر تخلیق کر تا ہی کیوں ہے ۔
پلوٹینس کے فلسفیانہ نظام کی بنیاد کافی حد تک افلاطون کے نظریہ ’’اعیان‘‘ (Ideas ) پرتھی لیکن افلاطون ازلی اعیان کومعبود مطلق اور مادی دنیا کے درمیان وسیلہ فرض کرتا ہے جبکہ پلوٹینس نے صدور (Emanation) کا نظریہ قبول کیا ۔ اس نظریے کے مطابق ہستی مطلق یا واحد سے مخلوق کی جانب قوتیں متواتر نشر ہوتی رہتی ہیں۔ اس منتقلی کا پہلا وسیلہ nous یا عقل محض ہے جس میں سے روح عالم صادر ہوئی پھر روح عالم میں سے انسانوں اور جانوروں اور انجام کار مادے کا ظہور ہوا۔ چنانچہ انسان دو دنیاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک حسیات کی دنیا اور دوسری عقل محض کی دنیا۔ چونکہ مادہ تمام شر کی علت ہے اس لیے زندگی کا مقصد حیات کی مادی دنیا سے نجات ہونا چاہیے ۔ لہذا لوگوں کو چاہیے کہ وہ تمام دنیاوی مفادات چھوڑ کر عقلی مراقبے کی راہ اختیار کر یں۔ تطہیر اورفکر کو استعمال کرنے کے ذریعہ لوگ nous کی بصیرت پا سکتے ہیں۔ اور انجام کار واحد یعنی خدا کے ساتھ مکمل اور وجدانی وصال ممکن ہے۔ پوٹینس نے اپنی زندگی کے دوران متعددمواقع پر اس الوہی وجدان سے گزرنے کا دعویٰ کیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply