اے تعصب زدہ دنیا تیرے کردار پر خاک۔۔عدیلہ بھٹی

تہذیبِ حاضرہ نے انسانوں کو بیشمار مسائل سے دوچار کیا ہے۔اس نے جہاں بہت سے دوسرے غلط عقائدو  نظریات کو مسلط کر کے زندگی اجیرن بنائی ہے، وہیں تعصب کو بھی بے حد فروغ دیا ہے۔یہ لفظ تعصب تو انسانیت کی توہین ہے اور عدل و انصاف کے چہرے پر کالک  بھی۔۔میں چاہتی ہوں کہ یہ لفظ ہمیشہ کہ لیے ختم ہو جانا چاہیے کیوں کہ  میرے نزدیک یہ دماغی کمزوری سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

یہ ہمیشہ سے مختلف قوموں میں کسی نا کسی  صورت میں  موجود  ہے،لیکن ہم دور کیوں جائیں ،اپنی ریاستِ مدینہ کو ہی دیکھ لیتے ہیں۔۔

یہاں اقلیتیں تو تعصبات کا سامنا کر ہی رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم تو اپنے ہم مذہبوں کو بھی رنگ،زبان اور فرقے کی بنیاد پرروزانہ تعصب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ میں اپنے ارد گرد اکثر دیکھتی ہوں کہ  لوگوں کا تعارف چھوٹا قد،لمبو، پینڈو سا، کالی،موٹی، پتلی،معمولی شکل،ایسا انداز،مردانہ شباہت،موچیوں کا  لڑکا وغیرہ جیسے الفاظ سے ہو رہا ہوتا ہے۔
جیسے یہ تیلیوں کا گھر،اُدھر مراثی رہتے،وہاں دھوبیوں کا محلہ۔۔یہ اخلاقی تعصب نہیں ہے کیا؟
گھر میں کام والی کے برتن کیوں الگ رکھتے ہیں آپ؟
سارے گھرکے کام کرتے ہوئے،برتن صاف کرتے ہوئے وہ پاک ہے اور جیسے ہی اس کے کھانے کی باری آئی  تو حالات مختلف ہو جاتے ہیں۔کوئی تو بتائے یہ کیا ہے؟
انگریزی بول سکتے ہو تو ذہین نہیں تو کند ذہن اور پنجابی بولنے پر تو سیدھا جاہل و گنوار۔۔

ہمارے ہاں خوبصورتی کا میعار کیا ٹھہرا ہے” گورا رنگ”،جی ہاں بالکل۔۔ہماری فیشن انڈسٹری اور میڈیا بھی یہ تعصب پھیلانے میں برابر کا کردار ادا کر رہاہے۔خوبصورتی کو گورے رنگ سے متعارف کروا رہے  ہیں ،ہیرو کی شکل میں۔ اور ولن ہمیشہ براؤن یا کالا ہو گا، بعض اوقات تو شلوار قمیض پہنے ہوئے بھی ملے گا۔۔

ہمارے اوپر فیئرنس کریم کمرشلز کی صورت میں جو عذاب نازل ہوا ہے جن کا کام ہی صبح شام زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے گورے رنگ کو ضروری دکھایا جانا ہے،اللہ کی پناہ!

یہی نہیں ،روزانہ ہمارے مارننگ شوز میں بھی کوئی نا کوئی ڈاکٹر، حکیم ٹیکوں،گولیوں اور جڑی بوٹیوں سے گورے ہونے کے نسخے بتا رہا ہوتا ہے ۔یہ سب ہمیں لاشعوری طور پر یہی بتا رہے ہیں  کہ گورا رنگ ہی سب کچھ ہے۔

اسی کی بنیاد پر ہم مذاق ہی مذاق میں اپنے کالے دوست کی تذلیل کیے دیتے ہیں۔ اور کوئی کالا بچہ پیدا ہو جائے تو لوگ ایسے تاثرات دے رہےہوتے جیسے کوئی ایلین آگیا ۔۔ یہی نہیں ہم تو گوری رنگت والے کو اخلاقیات کا سرٹیفکیٹ تک تهما دیتے ہیں، بِنا بات کیے اور اگر کسی کالے بیچارے سے غلطی،گناہ ہو جائے تو “یہ تو شکل سے ہی ایسے لگتا ہے”۔
کیا واقعی؟
گورے رنگ کو آپ کیسے خوبصورتی کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں؟خوبصورتی تو دل میں ہوتی ہے،کردار میں ہوتی ہے نا کہ رنگ میں!

لیکن  نہیں، خود کالے بهجنگ،کوئلے جیسے لیکن بیوی چاہیے گوری چمڑی والی۔۔ بچے چاہے بعد میں پیدا ہوں،پانڈے جیسے، پتا نہیں ہم کب اس کالے گورے کے فرق سے نکلیں گے۔
اور ہاں فیصل آبادی ہے تو بھانڈ،لاہوری ہے تو کھوتے کھاتا ہو گا،آرائیں ہے تو پیاز، شیخ ہے تو کنجوس، پٹھان ہے تو بیوقوف۔۔۔
اور تو اور فیس بک تک پہ نوٹ کیا کہ اس گروپ میں اہل تشیع کا آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ

اور جہاں تک مجھے لگتا  ہے ہمارے ہاں تعصب کی سب سے دردناک مثال کہ بیٹے کی پیدائش پہ مٹھایاں تقسیم کرنا اور جشن جب کہ لڑکیوں پر الٹا دکھ اور افسوس کا اظہار  کیا جاتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ انکی پرورش تک میں تعصب برتا جاتا ہے۔

اپنے ہی ملک میں بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ کے حساب سے قتل کرنا اور مسجدوں،امام بارگاہوں،بازاروں میں دھماکہ کرنا اس میں شامل نہیں ہے شا ید۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ اور اس جیسے  دیگر  ہزاروں واقعات میں ذلت و پستی کا یہی وه رویہ ہے جو ہماری رگ رگ میں رچ بس گیا ہے اور یہی تعصب زدہ رويہ معاشرے میں عدم مساوات اور باہمی منافرت کا ذمہ دار ہے۔ مذہبی مفكر  سپینگلر لکھتا ہے کے “انسانیت کا عدم احترام اور تعصبات جہاں باہمی انتشار کو بڑھاتے ہیں  وہاں ریاست کو بھی دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply