خود ہی کچھ کرنا پڑے گا/راؤ کامران علی

اس ملک کے حالات تباہی کی طرف لیکر جارہے ہیں! اگر آپ “تیز ہے نوک قلم” کے قاری یا فالور ہیں تو یہ صورتحال دردناک ہے لیکن unpredictable یا غیر متوقع نہیں! اس پر متواتر تجزیے موجود ہیں!

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف جرنیل جج اور سیاستدان اسکے ذمہ دار ہیں! جواب ہے نہیں!
اسکی ذمہ دار عوام ہے!
مذہب معیشت سیاست صحت تمام فیلڈز میں منطقی اور مدلل سوچ کے اندر خود ساختہ عقائد اور جذبات کا “ڈالڈا” ملا رکھا ہے!

آبادی کے روک تھام کی بات کرو تو جواب ملتا ہے، “ہر بندہ اپنا رزق لیکر آتا ہے” تو حکمرانوں سے کیسا شکوہ؟ خود کشیاں کیوں؟

معیشت کی بات کرو تو دیکھیں جئ عمران کس قیمت پر ڈالر، پٹرول اور آٹا چھوڑ کر نکالا گیا اور اگر ان سے پوچھیں کہ نواز شریف 2017 میں یہ سب کس قیمت پر چھوڑ کر نکالا گیا تو ناراض ! گو کہ یہ دونوں ہی نااہل اور بڑے وژن سے محروم تھے لیکن قالین کے نیچے ڈالا پرانا گند آنے والے کو صاف کرنا پڑتا ہے!

زرداری اور نواز کا قالین کے نیچے کا گند عمران نہیں سنبھال سکا اور اسکے بعد شہباز کس کھیت کی مولی ! شکر ہے کاکڑ مل گیا ہر جماعت کے پالتو صحافی کو وی لاگ کرنے کے لئے! آجکل طلعت حسین سے لیکر چوہدری سرور ایسے چلا رہے ہیں جیسے کاکڑ اسکا ذمہ دار ہے۔

یہ صورتحال سوچ کی تبدیلی تک بہتر نہیں ہوگی! بھوک یا روزہ بہت سی غلط کاریوں کا علاج ہے! آج بجلی کے بل سے بلبلاتے بھوکے سے کہیں یار ذرا ساتھ والے محلے میں قادیانی کی مسجد گرانی ہے یا شیعہ کافر قرار دینا ہے یا ہندو لڑکی مسلمان کرنی ہے تو کیا جواب دے گا؟ یہی کہ اپنی پڑی ہے؛ نفسی نفسی

چار بچوں کو زہر دیکر مارنے والے باپ سے پوچھنا بنتا ہے کہ نہیں کہ کنڈوم کا استعمال حلال ہے کہ حرام؟ مقصد کسی کے زخم پر نمک چھڑکنا نہیں بلکہ حالات کی ہر پہلو سے بہتری ہے!

صحت کی بات کرلیں تو بتائیں چینی کیوں کھانی ضروری ہے! شوگر یا ذیابیطس کا شکار ہونے والے بھی تو چینی چھوڑتے ہیں؛ تو اس کے بغیر کیوں نہیں!
پٹرول مہنگا ہے لیکن چار سے پانچ میل کے اندر سائیکل کیوں نہیں چلاتے! پانچ دس بڑے شہروں کو نکال کر ہر چھوٹے شہر میں گاؤں سے ڈاؤن ٹاؤن (شہر کا مرکزی حصہ) چار یا پنچ میل سے زیادہ نہیں! پورا یورپ یہی کرتا ہے۔ سلمان خان سائیکل غربت کی وجہ سے تو نہیں چلاتا!لڑکیاں بھی سائیکل پر اسکول جا سکتی ہیں! ایک دو ہوں تو عجیب لگے گا لیکن ہر گھر سے جائے گی تو نہیں لگے گا۔

تین ٹائم کھانا کون کھاتا ہے؟ امیر ترین لوگ صحت کے لئے intermittent fasting کرتے ہیں یعنی ایک وقت کا کھانا کھائیں! یہاں بات ہی تین وقت کے کھانے سے یا محاورہ ہی “دو وقت کی روٹی” کا ہے! ایک وقت کی روٹی اور درمیان میں کچی سبزی جیسے گاجر مولی شلجم گوبھی کھائی جاسکتی ہے! یہ حساس موضوع ہے مقصد کسی کی غربت پر نصیحت کے نشتر چلانا نہیں بلکہ لائف اسٹائل کی تبدیلی ہے!

ہمارے شہر کے خوشحال ترین لوگوں کے گھر بھی فریج کافی دیر سے آئی تھی! تازہ پکانے اور کھانے والوں کے گھر میں فریج کا کیا کام؟ نکال باہر کریں! پیسوں اور بجلی دونوں کی بچت! گھڑے کے پانی کے سامنے فریج کا پانی کیا بیچتا ہے؟ ٹھنڈا پانی نقصان دہ ہے۔مجھے یاد نہیں کہ امریکہ میں بھی آخری بار فریج کا پانی کب پیا تھا! مڈل کلاس تک کے پاس اتنے کپڑے نہیں ہوتے تھے کہ واشنگ مشین لگی ہو! ایک یا دو اسکول کی یونیفارم؛ دو چار گھر پہننے کے سوٹ اور ایک یا دو سوٹ الماری میں سنبھال کر رکھے جو شادی بیاہ پر پہننے! نئے کپڑے بس سال میں ایک بار چھوٹی عید پر بنتے ہیں۔کیا ہاتھ سے کپڑے دھونا بری بات ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

معذرت کے ساتھ یہ تو برے وقت کا آغاز ہے انجام نہیں ! ایسا ملک جس کی صرف بیس فیصد عورتیں کام کرتی ہوں اور آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہو اسے کوئی حکمران نہیں بدل سکتا! آپ دنیا کے دس امیر لوگوں کو دیکھیں اور ان سے کم خرچ زندگی گزارنا سیکھیں!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply