قصہ شہر بدر کا(11)-شکور پٹھان

شکورپنج ستارہ ز( فائیو اسٹار ) ہوٹل کی ملازمت ایک نیا تجربہ تھی۔ نیا تجربہ تو پردیس آمد بھی تھا,اور یہ تجربات ہی تو زندگی کا نام ہیں۔ پاکستان میں سرکاری ملازمت بھی ایک تجربہ تھی کہ دنیا میں سرکاری دفاتر میں اس طرح کہیں کام نہیں ہوتا۔ پاکستان کی غیر سرکاری یعنی نجی شعبے میں ملازمت بھی اپنی مثال آپ ہے کہ اس طرح ملازمین کا استحصال کہیں نہیں ہوتا، خیر یہ ایک بحث طلب موضوع ہے۔ فی الحال تو میری بحرین بیتی سن لیں۔

ہوٹل کی ملازمت دراصل ایک نئی دنیا سے تعارف تھا۔ہوٹل کی اپنی دلچسپیاں اور ساتھی ملازموں کے ساتھ ہوٹل سے باہر کی سرگرمیاں جنہیں بتانا بھی مشکل ہے اور چھپانا بھی۔ حال ہی میں ہمارے ایک مقبول رہنماء نے بھی فرمایا کہ جھوٹ میں بولتا نہیں اور سچ میں کہہ نہیں سکتا۔ یہی کیفیت کچھ میری ہے۔ خیر آپ کو اس سے کیا۔ جو کچھ بتارہاہوں وہی سن لیجئے کہ وہی کچھ بتانے قابل ہے۔

ہوٹل کی ملازمت کا سب سے دلچسپ پہلو اس کے مہمان ہیں۔ جی ہاں یہاں گاہک، صارف یا خریدار نہیں ہوتے، ہوٹل میں مہمان ( Guests) ہوتے ہیں چاہے وہاں قیام پذیر ہوں یا لذت کام و دہن کے لئے ہوٹل آئے ہوں۔ دنیا بھر کے لوگوں کے مزاج، رہن سہن، زبان ، غذا، روایات ، اعتقاد ات اور کیا لچھ نہیں ہے جو جاننے نہیں ملتا۔ مثلاً اگر دنیا کے کسی ہوٹل میں مہمان کہے کہ میں گوشت نہیں کھاتا تو آپ سمجھ جاتے ہیں کہ اس کا تعلق سرزمین ہند سے ہوگا۔ یا اگر مہمان پوچھے کہ کمرے میں قبلہ کس جانب ہے، یا مجھے جاء نماز مل سکتا ہے تو آپ پہچان جائیں گے کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ ( حال ہی میں برطانیہ کے ایک چار ستارہ ہوٹل میں جاء نماز کا پوچھا اور مجھے جاء نماز مل گئی)۔

کچھ مہمان ہوٹل میں مستقل یا طویل مدت رہائش بھی اختیار کئے ہوتے ہیں ۔ یہ عموماً کسی کمپنی یا ادارے کی جانب سے یہاں ٹھہرے ہوتے ہیں ۔ ان سے ہوٹل کا عملہ اچھی طرح آشنا ہوتا ہے۔ کچھ ایسے مہمان بھی ہوتے ہیں جو اکثر وبیشتر آتے جاتے ہیں جیسے کاروباری حضرات جو بغرض کاروبار کسی شہر میں آتے رہتے ہیں اور اپنی پسند کے ہوٹل میں ہی قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن یہ ائیرلائن کریو ( فضائی عملہ) ہیں، جو ہوٹل میں باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں اور ہوٹل کے اسٹاف خصوصاً استقبالیہ ( ریسیپشن)، ہاؤس کیپنگ اور روم سروس کا اسٹاف اور ریسٹوران کے ویٹر وغیرہ سے تعلقات بلکہ دوستیاں بھی ہوجاتی ہیں۔ ہمارے دوست ان سے لندن، سنگاپور اور پیرس وغیرہ سے چیزیں منگواتے تھے۔ بہت سے دوست ہندوستان، پاکستان میں اپنے گھر والوں کے لئے خطوط ان کے ہاتھ سے بھیجتے تھے۔ کچھ دوستوں نے تو ان کے ہاتھ سے پیسے بھی بھجوائے۔ ان کریو ممبران کے ساتھ ہم شام کو بازار جاتے، انہیں شہر کی سیر کراتے، ان کے ساتھ چائے کافی پیتے یا کھانا کھاتے، فلمیں وغیرہ دیکھتے یا نائٹ کلب میں جاتے۔ ( سعودیہ میں ہمارے کریو دوستوں کا وسیع حلقہ تھا۔ ان میں ائیر ہوسٹس سے لے کر کپتان تک شامل تھے)۔

ہلٹن، بحرین کا پہلا پنج ستارہ ہوٹل تھا اور ایک طرح سے سرکاری قیام گاہ کا درجہ رکھتا تھا۔ یہاں حکومت بحرین کے مہمان ٹھہرائے جاتے۔ یہ مہمان وی آئی پی سویٹ میں ٹھہرتے۔ مجھے یاد ہے امریکی ارب پتی نیلسن راک فیلر جب ہلٹن میں ٹھہرا تھا تو ایک پورا فلور صرف اس کے لئے مختص تھا جہاں حکومت بحرین کی سکیورٹی کے علاوہ راک فیلر کے  اپنے  ذاتی سکیورٹی والے بھی وہاں موجود تھے۔ اور یہ بھی یاد ہے کہ نیلسن صاحب نے جاتے جاتے ہوٹل کے ہر عملے کو سو ڈالر ٹپ دی تھی ( اس زمانے میں اکثر کی یہ پورے ماہ کی تنخواہ ہوتی تھی) ۔

بہت سے وی آئی پی یا مشہور لوگ وہ ہوتے جو بحرین میں مختصر قیام ( ٹرانزٹ) میں وہاں رکتے۔ لیکن اکثریت ان کی ہوتی جنہیں بحرین کی وزارت خارجہ یا محکمہ مہمانداری وہاں ٹھہراتا۔ ہلٹن کے ریسیپشن یا لابی میں میری ملاقات آغا حسن عابدی صاحب سے ہوئی۔ ان کے علاوہ مشہور فلمساز اور ہدایتکار اے جے کار دار ( فلم جاگو ہوا سویرا، قسم اس وقت کی والے) سے بھی گپ شپ ہوئی۔ ایک دبنگ سے گورے کے متعلق میرے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ “راڈ اسٹائیگر” ہے۔ یہ امریکی اداکار تھے جو ہانگ کانگ سے امریکہ جاتے ہوئے یہاں ٹھہرے تھے۔

میں نے اسی ہلٹن میں اپنے آپ کو اچانک “ سیدنا برہان الدین صاحب” کے روبرو پایا تھا جو اس وقت بوہری برادری کے روحانی پیشوا تھے ، جس کا مفصل حال میں ایک علیحدہ مضمون میں بیان کرچکا ہوں۔ اسی ہوٹل میں بھٹو صاحب کے زمانے میں پاکستان کے وزیر داخلہ ( جنہیں سرحد کا مرد آہن بھی کہا جاتا تھا) خان عبدالقیوم خان بھی حکومت بحرین کے مہمان تھے اور انہیں دیکھ کر سمجھ نہیں آیا کہ انہیں مرد آہن کس لئے کہا گیا کہ وہ اس وقت خاصے پلپلے سے تھے۔

ہلٹن میں بھٹو صاحب کے ایک اور مشہور اور مقبول وزیر “ مولانا “ کوثر نیازی بھی ٹھہرے تھے جن کی روانگی کے وقت ان کے کمرے کا “ منی بار” Mini Bar چیک کرتے ہوئے روم سروس کے لڑکے نے دیگر مشروبات کے ساتھ اطلاع دی کہ ایک سوڈے کی بوتل بھی کم ہے۔ عام طور پر ہاضمے کے لئے لوگ سوڈا پیتے ہیں لیکن ہمارے گوانیز ریسیپشنسٹ دوست مارٹن کا کہنا تھا کہ “ کھالی پیلی سوڈا کوئی نہیں پیتا” ۔ اللہ جانے وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔
لیکن جس شخصیت کا دیدار زندگی کے چند لمحات کو یادگار بنادیتا ہے وہ تھافلسطین کی تحریک آزادی کے مرد مجاہد “ یاسر عرفات”۔ لابی سے جب وہ گذر رہے تھے تو ہمارے فلسطینی اور دیگر عرب دوستوں نے عربی میں پرجوش نعرے لگائے تھے اور مجھے اپنے بازؤوں پر رؤاں کھڑا ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ ان دنوں یاسر عرفات اور کرنل قذافی اسلامی دنیا کے ہیرو مانے جاتے تھے۔

ہوٹل کے مہمانوں کے علاوہ ہوٹل میں منعقد ہونے والی تقریبات اور شامیں یا راتیں بھی ایک یادگار چیز ہیں۔ ہلٹن میں جمعے کی رات “ ویسٹرن نائٹ” یا “ کاؤبوائے نائٹ “ منائی جاتی۔ اس میں سوئمنگ پول پر پارٹی ہوتی جسے کاؤبوائے فلموں کی طرح سجایا جاتا۔ ویٹر وغیرہ بھی کاؤبوائے جیسے کپڑوں میں ہوتے اور زیادہ تر مہمان بھی اسی وضع قطع میں آتے۔ ہوٹل کا بینڈ ویسٹرن میوزک بجاتا اور کاؤبوائے فلموں کے گیت گاتا۔ کھانے بھی اسی طرح کے ہوتے۔ میں اکاؤنٹس میں تھا اور میرا وہاں کچھ کام نہیں ہوتا تھا لیکن کسی نہ کسی بہانے سے وہاں پہنچ کر تماشا ملاحظہ فرماتا۔

ہوٹل کی ملازمت سے جہاں انسانوں کے بارے میں جاننے ملا وہیں بہت سی رسموں اور روایات سے آگاہی ہوئی۔ جس دن ملازمت شروع کی وہ ایسٹر کا دن تھا جس کا پاکستان میں صرف نام ہی سنا تھا۔ کرسمس اور نئے سال کی شام جب ہوٹل میں ہلا گلا ہوتا تو اسٹاف بھی اس میں شامل ہوتا۔ لڑکوں کو موقع ملتا اور وہ میری کرسمس یا ہیپی نیو ائر کہنے کے بہانے مہمان خواتین و حضرات سے “ گھل مل” جاتے۔ ویسے یہ گوروں کا ہی ظرف ہے کہ نہ صرف ہوٹل کے ویٹر وغیرہ جیسے “ کمترین” لوگوں کو مبارکباد دیتے بلکہ اسی گرمجوشی سے پیش آتے۔

اور آج جب پاک و ہند والے بھی “ گورے” بنے ہوئے ویلینٹائن ڈے اور “ ہالوین ڈے” گوروں سے زیادہ زور و شور سے یوں مناتے ہیں جیسے جنم جنم سے مناتے آئے ہوں۔ اس زمانے میں یعنی ستر کی دہائی میں ہندوستان اور پاکستان میں کسی کو ویلینٹائن اور ہالوین وغیرہ کی الف بے کی بھی خبر نہیں تھی، ہم ہلٹن میں امریکیوں اور دوسرے گوروں کو ویلینٹائن، ہالوین اور “ تھینکس گیونگ” ڈے مناتے دیکھتے۔ جس دن “ بازار گرل” ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے کے سامنے فرش پر گندم، چاول، دالوں کے بورے اور آلو پیاز کے ڈھیر سے سجی “ غلہ منڈی “ دیکھی تو پتہ چلا کہ آج ان  امریکیوں کا “ تھینکس گیونگ ڈے “ ہے۔ Thanksgiving سے ابھی تک ہمارے “ روشن خیال” نوجوان شناسا نہیں ہوئے ہیں۔

جب پہلی بار ہوٹل کے ریستوراں میں پیلے گھّیا کدّوؤں کے ساتھ چراغ جلتے دیکھ کر مارٹن سے پوچھا کہ یہ کس لیے ؟ تو اس کا جواب تھا “ یہ سالا گورا لوگ کا کچھ ہوتا ہے”۔ یاد رہے مارٹن کی “ جات” ( ذات) والے وہ ہیں جو پاک و ہند میں سب سے زیادہ مغربی رسوم و رواج سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان رسومات کے منانے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ لیکن ان دنوں میرے گوانیز دوست بھی ویلنٹائن اور ہالوین وغیرہ سے واقف نہیں تھے۔
ہوٹل کی زندگی میں صرف ہیپی نیو ائر اور میری کرسمس ہی نہیں بلکہ اور بہت کچھ سیکھا۔ کچھ باتیں بتانے والی ہیں اور کچھ نہ بتانے والی۔
بتانے والی بقیہ باتیں اگلی قسط میں۔ تب تک کے لئے گڈ نائٹ اینڈ “ سی یو”۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply