حیات قائد کے گمشدہ گوشے۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

بانی پاکستان قائد اؑ عظم محمد علی جناح کی حیات کے حوالے سے آج تک بہت کچھ لکھا گیا،ہر ایک لکھاری نے اپنے علم اورفہم و ادراک کے مطابق جناح کے بارے تحریر قلم بند کی،علاوہ ازیں الیکڑ نک میڈیا پر بھی بھارت و پاکستان ہر دوممالک نے مختلف ادوار میں ڈرامے اور فلم کی شکل میں حیات قائد کے مختلف گوشے اپنے ناظرین کے سامنے پیش کئے،جن میں قائد اعظم کی حیات اور سیاسی خدمات پر لکھااور دکھایا گیا،تاہم ہمارے ہاں شروع سے ہی ایک ایسا طبقہ زور پکڑ گیا ،جس کو قائد اعظم کی حیات اور تعلیمات سے بیر تھا لہذا جان بوجھ کر قوم کے سامنے جناح کی وہ زندگی،سیاسی بیانات نہیں لائے گئے جن میں قائد کی اصل سیاسی تعلیمات کا پتہ چلتا ہے،مثال کے طور پر 11اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی قائداعظم کی تقریر ،جس کو گوشہ گمنامی میں ڈال دیا گیا،یہ سارا عمل مختلف حکومتوں کے دور میں سرکاری سرپرستی میں ہوا،اور نتیجتاًہمارے سامنے بانی پاکستان کی وہ تعلیمات جن کا تعلق ہماری سیاسی و ملی زندگی سے تھا اور جن کی روشنی میں ہم نے اپنی آئندہ کی زندگی اور حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کرنی تھی ،وہ سب ہماری نظروں سے اُوجھل ہو گیا،ماضی میں قائد اعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظرعام پر آسکے ،جن کا منظر عام پر آنا حکومتوں کو منظور تھا ،حیات قائد اعظم کے وہ درخشاں پہلو جو ہماری ریاست اور ریاستی حکمرانوں کی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے بڑی ہوشیاری سے یا تو تلف کردئے گئے یا پھر جان بوجھ کر قوم کی نظر سے ہٹا کر انھیں پس پردہ ڈال دیا گیا،بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف قائداعظم کے تصورات و افکار اور ان کے طرز فکر کو سمجھنے میں ٹھوکرکھائی بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا،ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا،جنھوں نے قائد اعظم کی تعلیمات اور نظریات کی من مانی تاویلات پیش کیں،یہ سلسلہ تاجاری ہے ،اور اس کے اثرات اتنے دور تک جا چکے ہیں،کہ اب دانش حاضر کی پہلی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ فی الفور قائداعظم کے ان تصورات کا کھوج لگائیں جن پر امتداد زمانہ کی گرد ار تحریف پسندوں کی ضرب پڑ چکی ہے،وہ تو بھلا ہو انٹر نیٹ کا جس نے علم و تحقیق کا ایک نیا باب کھول دیا ،جس سے دنیا کا ہر شخص اب بنا کسی لائبریری جائے یا کوئی مہنگی کتاب خرید ے کسی بھی موضوع پر تحقیق کرسکتا ہے،قائد اعظم کی حیات اور افکا رکو پوری طرح جانے بنا ہم اپنی منزل کی جانب بڑھنے کی بجائے ہم بھٹکتے رہیں گئے،قائد اعظم کی حیات کے مختلف گوشوں پرگہری نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کی لئے شخصی اور مذہبی آزادی،بنیادی حقوق اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑے،اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے آپ نے آل انڈیا نیشنل کانگرس میں شمولیت اختیار کی اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے،لیکن جب ہند ؤ وں کا اندرون بھیانک چہرہ دیکھا تو آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی،قائد اعظم نے لندن میں ر ہ کر پارلیمانی جمہوریت کا بغور مطالعہ کیا اور اس نظام کی خوبیوں خامیوں کو جانچا ،گو شروع میں آپ ہند ومسلم اتحاد کے سفیر تھے اور برصغیر میں مسلمانوں اور ہندؤوں کے لئے سیاسی ومذہبی آزاد ی کے لئے کوشاں رہے،لیکن جب آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شرکت کی تو پھو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ آپ کا مطمع نظر ٹھہرا اور تادم مرگ جناح اس کے لئے سرگرم عمل رہے،جب کسی نے آپ سے اس بارے میں سوال کیا کہ آپ تو ہندو مسلم اتحادکے داعی تھے یہ یکایک تبدیلی کیسے تو فرمایا کہ میں کبھی پرائمری میں بھی پڑھتا تھا،سوچ کی یہ تبدیلی اس بات کی مظہر ہے کہ جناح ہندؤوں کے مسلمانوں کے بارے میں تعصب سے آگہی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور مسلمانوں کے ایک الگ ریاست کے لئے سرگرم عمل ہوئے،اور جناح کی زندگی دھارا بدل گیا،بلاشک وشبہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ،لیکن یہ اسلام مولوی کا روایتی مذہب نہیں تھا،بلکہ جناح کی نظر میں پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت ہوگا جہاں صرف قرآن مجید کے آفاقی اور اٹل قوانین کی روشنی میں آئین پاکستان کی تشکیل ہونا تھی ،جہاں مسلمانوں سمیت پاکستان میں بسنے والی تما م اقلیتوں کو برابر شہری حقوق کی ضمانت دینا مقصود تھا،قائداعظم برطانوی یا مغربی جمہوریت کو ہر قسم کی خرابی سے پاک کر کے پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کے لئے قرآنی نظام حیات کے مطابق بنانا چاہتے تھے،ایک ایسی جمہوریت جہاں ملٹری آمریت کی بجائے قوم کے نمائندوں پر مشتمل دستور ساز ادارے اپنا فعال کردراد اد کرسکیں،لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بانی پاکستانی وفات کے بعد کچھ مفاد پرست سیاستدانوں اور طالع آزماؤں نے پاکستان کو اس منزل سے کوسسوں دور کر دیا ،جس کے لئے جناح نے اپنا تن من دھن سب لٹا دیا،آج بھی ہم سے قائداعظم کی وہ تقاریر اور بیانات چھپائے جاتے ہیں ،جو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اقائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟پاکستان کی اولین کابینہ میں غیر مسلم اراکین کی موجودگی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ قائد اعظم تھیوکریسی کے مدمقابل قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں سیکولر ریاست چاہتے تھے جہاں مملکت کسی قسم کے مذہبی تعصب اور فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر شہریوں کی فلاح کے لئے کام کرے،آج ہم نے سیکولر ازم کو مذہبی کے مترادف سمجھ لیا ہے جو کہ غلط ہے سیکولر ازم کا مطلب لادینی نہیں بلکہ سیکولر ازم روایتی کٹھ مذہب کے مخالف ایک ایسا نظام ہے جہاں ریاست کے شہریوں کی جان مال عزت و آبرواور پرورش کی ذمہ داری ریاست کی ذمہ داری ہو،کیو نکہ قرآ ن مجید صرف مسلمانوں یا کسی خاص طبقے یا فرقے کیلئے نازل نہیں ہوا نہ ہی محمد ﷺ کسی مخصوص مذہب،مخصوص قوم ،فرقے یا طبقے کے لئے تشریف لائے،جناح ریاست مدینہ کی طرزایک ایسی ہی مملکت چاہتے تھے،اور جب کبھی بھی قائداعظم نے اپنے کسی بیان یا انٹرویو یا کسی کے نام خط میں پاکستان کے لئے آئین کا ذکر کیا تو آپ کی نظر میں ایسا پاکستان ہی تھا،لیکن ہم نے اس کی بجائے وہی روایتی مذہب اپنا لیا ،جس سے ہماری منزل بھی کھوٹی ہوئی اور ہم نہ دین کے رہے نہ دنیا کے۔ٖضرورت اس امر کی ہے کہ حیات قائد کے گمشدہ گوشے بے نقاب کئے جائیں اور ان کو روشنی میں اپنے نظام کو درست سمت گامزن کرنے کے اقدامات کئے جائیں،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply