گزشتہ سے پیوستہ۔۔حسان عالمگیرعباسی

جب کسی کو یاد کیا جائے تو عموماً ایک پیغام ارسال کر کے جواباً الفت بھرے پیغامات لیے جاتے ہیں یا محبت سے بھرے ایموجیز کا تبادلہ ہی ‘زندگی ٹھیک جا رہی ہے’ کی شہادت دے رہے ہوتے ہیں۔ پریشانی انسانی دل و دماغ میں اپنی جگہ ضرور بناتی ہے لیکن جدید خط و کتابت سے یہ کافی ہو چلا  ہے کہ انسان کم از کم سروائیو کر رہا ہے یا یوں کہیں کہ معاشرتی حیوان ابھی مکمل ٹوٹا یا بکھرا نہیں ہے۔ ابھی اس کے چاہنے والے موجود ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں جب کسی کو یاد کرتا ہوں تو خود سے کہتا ہوں، “زملونی” اور خیالات، انگوٹھے، سمارٹ فون اور متعین وقت کی مدد سے ماضی اوڑھ لیتا ہوں۔ ایک خاص وقت کا تعین ضروری ہے کیونکہ ایک دانشورانہ و دانشمندانہ ‘سوچ’ کا ماننا ہے کہ اول دن سے خوراک تالاب میں چھوڑنے سے مچھلیاں یکدم نہیں آئیں گی لیکن جب معمول اختیار کر لیا جائے تو مچھلیاں یعنی خیالات پہلے سے عین وقت پہ پائے جائیں گے۔

ایک ایسی شخصیت نے خوابوں خیالوں کو گھیر لیا ہے جس نے کبھی اپنی زندگی میں گھیرا تنگ نہیں ہونے دیا۔ ان کی کمٹمنٹ، سوچ کی پختگی، مقصد سے محبت، منزل کا تعین اور محنت سے لگن جیسے خیالات میں مکمل وضاحت (clarity) کی گواہی نہیں گواہیاں بنا ڈھونڈے باآسانی مل سکتی ہیں۔ مذکور کا اسم گرامی ‘حبیب الرحمٰن’ ہے۔ ان کو ایموجی پیغام کبھی نہیں دیا کیونکہ وہ مخلص اور زندہ دل انسان اس سوشل میڈیا کی دنیا سے کوسوں دور ہے۔ ان کی کالز موصول ہوتی رہتی ہیں جو انتہائی مکمل ہے۔ ان کے ساتھ اسلامک یونیورسٹی میں چار سال گزارنا، داخلے کے بعد اول روز ان کے ساتھ اسلام آباد شہر گھومنا، ہائیکنگ ٹورز، مری کی سیر، نتھیا گلی (مشکپوری) میں ایک بہترین اور اصولوں کے مطابق ہائیک، گاؤں کی طرف جانا، رات میں وہیں رہائش، قیام اللیل، بیداری، گاؤں کی اییکسپلوریشن، بابرکت ناشتہ، اور واپسی پہ سڑک تک چھوڑنا طرز کی سرگرمیاں روٹین کا حصہ تھیں جن میں ایک آپ کے نام کرتا آگے بڑھ رہا ہوں۔

سیدکی۔۔عارف خٹک

آپ پشاور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ آپ کی پی ایچ ڈی اور اس سے پہلے کی زندگی محنتوں اور ان کے ثمرات سے بھری پڑی ہے۔ عمر چالیس سے اوپر ہو چلی ہے۔ آپ نے پی ایچ ڈی کو ذہن میں رکھ کر باقی معاملات چلائے ہیں۔ آپ کی تحریک اسلامی سے الفت بتاتی ہے کہ ترجیحات کو کیسے بے انتہا معاملات کے ہوتے ہوئے معمول پہ لایا جاتا ہے۔ آپ جماعت اسلامی پاکستان کے رکن ہیں۔ میں چار سال میں کم ازکم اڑھائی یا تین سال ان کے ساتھ رہا۔ صبح سے لے کر رات تک کی سرگرمیوں میں مماثلت میری یونیورسٹی کی زندگی میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یونیورسٹی میں لوگوں، اسٹاف، لائبریری، جامعہ کے باغات، طلباء، بسز، ہاسٹل، دروس قرآن و حدیث میں شرکت اور مسجد سے تعلق کی نوعیت قابل تقلید ہے اور معمولات کی یہ مینجمنٹ  کی تصویر اب انتہائی نایاب ہو چکی ہے۔

ان کے ہوتے ہوئے مجھے کسی قسم کی پریشانی نظر نہیں آئی۔ وہ رات میں پراٹھے  کھانے  بھی ساتھ نکل پڑتے۔ روزانہ جامعہ کی گول سیر ہوتی اور ایڈمن کا طواف کیا جاتا۔ باغات میں کینو توڑے جاتے۔ نیچر کی گود میں بیٹھتے۔ آپ ان مخصوص اوقات میں آنکھوں کے سامنے والی تمام چیزوں کا بتاتے۔ اگر ستارے کا پوچھ لیتے تو ایسی گفتگو ہوتی کہ بندہ سنتا جائے۔ اگر نظر آنے والے جانوروں سے واسطہ پڑ جائے تو ان کے بارے بتانے لگتے۔ درختوں، اشجار، پتوں، تاریخ، ادب، فلسفہ، دین، قرآن، حدیث، تحریک اور ہر موضوع کلام کو لے کے ان سے سیکھا۔ ویسے تو یہ دارالاسلام کے سابقین کے استاذ تھے جو ان کے ساتھ قیام پذیر تھے لیکن میرے براہ راست کسی ادارے میں استاذ نہ ہونے کے سبب بہت اور پیارے دوست بھی تھے۔ بہرحال آپ میرے براہ راست استاذ ہی ہیں۔ آپ جامعہ کے ہر شعبے سے جان پہچان بناتے تھے۔ ہاسٹل میس کے ملازمین، کیفیٹیریا سے لے کر اوپر تک سب کے لیے آپ معزز تھے۔ آپ کے ساتھ چہل قدمی ہوتی تو جامعہ کا ہر آدمی جھک کر سلام پیش کرتا۔ آپ کو جس نے بھی مدد کے لیے پکارا حاضر ہو گئے۔ ایک اسٹوڈنٹ کے لیے لیپ ٹاپ سے زیادہ پرائیویٹ اور اہم ڈیوائس کیا ہو سکتی ہے لیکن آپ وہ بھی طلباء کو مہیا کرتے حتی کہ غیر ملکیوں سے تعلق بھی دیدنی تھا۔ جامعہ میں موجود ہر جانور خصوصاً بلی کو بہت پیار دیتے۔ ہر بلی حبیب صاحب کا انتظار کرتی رہتی۔ رات ڈنر ہمیشہ ساتھ ہوتا اور ہاسٹلز کی بلیاں ساتھ لے جاتے تاکہ ہڈیوں اور گوشت سے اس کا انتظام و انصرام ہو سکے۔

ہم کھانے کے بعد یونیورسٹی کا راؤنڈ لیتے۔ ایک دن میں نے جذبات میں آکر کہا کہ یہ پندرہ سے بیس منٹس کی چہل قدمی ہے۔ آپ نے میری بات کو سنجیدگی سے لے لیا اور پولیس لائن سے نکلنے کے بعد کشمیر ہائی وے بلکہ سری نگر ہائی وے والے گیٹ سے واپس داخل ہوئے۔ راستے میں کینو بھی کھائے  اور تھکن سے چور اس یاد کو محفوظ کرتے ہوئے ہاسٹل نکل چلے۔ رات میں چائے کا میز علمی و ادبی حضرات سے بھرا ہوتا۔ حافظ عدنان بھائی بھی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔

ایک دن میں نے کہا کہ روزانہ پراٹھا چائے مزہ نہیں کرا رہا اور یہ کہ نئی صبح کچھ نیا ہونا چاہیے۔ آپ نے کہا تیار رہنا اور ہاسٹل کا رخ کر لیا۔ صبح ہوتے ہی فجر سے پہلے جگانے آ گئے اور اپنی باجماعت نماز پڑھتے ہی ہم تسمے باندھنے لگے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ منزل کیا ہو سکتی ہے۔ پیدل نکلے، کم از کم ڈیڑھ گھنٹے کے بعد منڈی موڑ پہنچا دیا۔ پوچھنے پہ بتایا کہ یہاں کیا کرنا ہے۔ یہ سوال پہلے بھی ہو سکتا تھا لیکن جب وہ چل رہے ہوتے ہیں تو اتنا فرق باقی چھوڑنے لگتے ہیں گویا انسان زمین سے ستاروں کو دیکھ رہا ہو۔ وہ بیٹھتے یا آرام فرماتے ہوں گے لیکن کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ فجر کے بعد منڈی میں جانے کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اچانک وہ سبز تربوز کے ساتھ نمودار ہوئے۔ چھری چاقو کی عدم دستیابی سے فایدہ اٹھاتے ہوئے اسے سر پہ مارتے ہوئے بیچ سے علیحدہ کرنے کا فن بھی سیکھ لیا۔ چند مہینوں بعد یہی درخواست دہرائی۔ اس بار وہ پھر سے منڈی ہی لے آئے اور ہم دھڑی انار اٹھائے ہاسٹل آ گئے۔ یہاں آ کر چھت میں اناروں سے دانوں کو نکالنا شروع کیا اور آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد کسی چھلکے کو رکاوٹ نہیں آنے دیا۔ یہ ناشتہ اول الذکر سے زیادہ دل کے قریب ہے۔ اس دفعہ انار کے دانے نکالنے کا آسان نسخہ سمجھ آیا۔ ساتھ ہی رزق کی اہمیت بھی ڈسکس ہوئی کہ کیسے کسی باغ میں تیار ہونے والے انار کا دانہ منڈی اور بازار کا چکر لگا کر کسی کے نصیب میں آتا ہے!

ریاست ماں ہوتی ہے۔۔زین سہیل وارثی

حبیب الرحمٰن صاحب سے تعلق کی نوعیت ایسی تھی کہ ان الفاظ کو کبھی بھی ان کی محتاجی نہیں تصور کی اور یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ تک کچھ لکھنا سوچا تک نہیں تھا۔ آج بھی اگر کچھ لکھ رہا ہوں تو ان کا احاطہ کرنا مقصد نہیں ہے کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا اور وہ میں نہیں کرتا جو میں نہیں کر سکتا۔ یہ اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ کچھ یادوں کو مہکنے دیا جائے۔ میں اپنی ضرورت کے لیے ان الفاظ کا سہارا لے رہا ہوں۔ آپ حضرات تک یہ تحریر پہلے اس لیے پہنچے گی کیونکہ ان تک یادوں سے بھرپور پیغام پہنچانے کے لیے انھیں پہلے سمارٹ فون گفٹ کرنا پڑے گا۔ وہ اس سوشل میڈیا کی دنیا سے کیوں دور ہیں وہی بتا سکتے ہیں۔ آپ کے پاس انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار فون ہے جو آپ لمبے عرصے تک پاس رکھے ہوئے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ اسلام آباد آکر پتہ چلا کہ فون پشاور رہ گیا ہے۔ جتنا واپسی کا کرایہ ہے اتنے میں نیا موبائل فون ممکن تھا لیکن واپسی کی راہ لی اور شاید آج بھی آپ کے پاس وہی فون ہے۔ آپ دار الاسلام میں بحیثیت معلم پڑھاتے رہے اور اب پشاور میں آپ کا پی ایچ ڈی حتمی مراحل سے گزر رہا ہے۔ دعا ہے کہ آپ ہمیشہ یونہی زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ:

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply