روایتی جاگیرداری نظام اور سماج /دانش خان

قیوم نظامی کی کتاب پڑھ رہا تھا ایک جملہ نظر سے گزرا”جاگیرداری نظام جمہوریت کی  راہ میں رکاوٹ ہے ،اسے ختم کیے بغیر ملک میں جمہوریت  ہونا ناممکن ہے”۔
یہ وہ لائن ہے جو ہمارے اربن انٹلیکچولز  نے پکڑ رکھی ہے ساتھ ہی وہ انڈیا کی مثال دیتے ہیں۔

انڈیا میں جاگیرداری نظام ختم کیا گیا، ساتھ ہی برٹش آرمی کو نیشنل آرمی میں تبدیل کیا گیا، ثقافتی تنوع کو برقرار رکھتے ہوئے افراد کی وفاداری کو کسی مذہبی قومیت کے بجائے معیشت ثقافت اور مشترکہ تہذیب کے دھاگوں سے باندھا گیا۔

ہندوستانی فوج کو چند ضلعوں کی  بجائے ایک مکمل ملک کی فوج بنایا گیا، جہاں عملی طور پر ہر رنگ نسل کے لوگ موجود تھے اس ثقافتی تنوع نے کسی بھی جرنیل کو طالع آزمائی سے باز رکھا۔
ریاست کو افراد کے اچھے بُرے کی  ذمہ داری دی گئی۔

اس کے برعکس پاکستان بنانے والوں نے پہلے دن ثقافتی ورثہ کا مذاق بنایا اور مذہب کو قومیت کی بنیاد کہہ کر ریاستی سطح پر عوام کا استحصال کیا ،سب سے اہم یہ کہ وراثت میں آئے  چند ضلعوں پر مشتمل فوج کو ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا وارث قرار دیا ،جس سے چھوٹے صوبوں میں احساس ِ بیگانگی نے جنم لیا۔

پاکستان کے مخصوص سماجی حالات میں جاگیرداری نظام لوگوں کے لئے ایک تحفظ کا نام ہے یہاں سیاست طاقت کے حصول کے لئے کی جاتی ہے، تاکہ اپنے لوگوں کو غیر برادری کے خلاف تحفظ فراہم کیا جاۓ ،جاگیرداری  نظام  ختم کرنے کے لئے اکثر اصلاحات کی بات کی جاتی ہے اور عمومی طور پر یہ اصلاحات ناکام ہوتی آئی ہیں، اس  تحفظ کی وجہ یہ  ہے کہ اربن علاقوں میں پولیس یا رینجرز کا جبر دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے۔

یہ کہنا غلط ہے کہ لوگ جبر کے تحت کسی جاگیر دار کا ساتھ دیتے ہیں ،سماجی صورتحال میں ایسا  الیکشن میں ممکن نہیں لوگ ایسے فرد کے پیچھے کھڑے ہونے سے انکار کر دیتے ہیں جو لمبے عرصے تک جبر کا شکار بناۓ۔

اربن انٹلیکچولز نے دیہاتی نظام کو سمجھے بغیر ہمیشہ جاگیرداری کو جمہوریت کا دشمن قرار دیا ،جب کہ شہری علاقوں سے اٹھنے والے سیاست دان اپنی سرشت میں مقتدرہ کے وفادار ساتھی ثابت ہوئے، ساتھ ہی یہ اپنے لوگوں کے لئے کچھ حاصل نہ کرسکے، دوسری طرف جمہوریت فوجی جبر کے سامنے ڈٹ جانے اور جان دینے والے جاگیردار تھے، جنہیں اپنے لوگوں کے سامنے سرخرو ہونا تھا۔

جاگیرداری نظام کے دو پہلو ہیں، پہلے کا تعلق سماج سے ہے، برداری یا قبیلے کا سب سے بڑا فرد ہونے کے ناطے اپنے لوگوں کی حفاظت کرنا جاگیردار کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہ ہی ذمہ داری اسے سیاست میں لے جاتی ہے، جمہوری نظام میں چونکہ بارگین کرنے کی گنجائش اور اپنی طاقت منوانا زیادہ آسان ہے اس لئے جاگیر دار جمہوریت کو سپورٹ کرتا ہے بانسبت شہری علاقوں سے آئی ہوئی سیاسی لاٹ کے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے لئے جاگیردار کا رویہ اور قربانیاں زیادہ ہیں۔

اس میں ایک نسلی تفاخر بھی شامل ہے جو جاگیر دار کو اپنا شملہ اونچا رکھنے کے لیے  دباؤڈالتا ہے ،بھٹو کی پھانسی زرداری کی قید اور بینظیر کے قتل میں یہ نسلی تفاخر شامل تھا۔
اربن انٹلیکچولز کی جاگیر داری نظام سے چڑنے کی ایک اہم وجہ ثقافت اور زبان کا فرق ہے، جاگیردار اپنے اپنے علاقے میں سماجی تبدیلیاں قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور ساتھ ہی وہ خود کو ثقافتی ورثہ کا محافظ بنا کر پیش کرتا ہے، یہ محض ایک خواب ہے ،کہ جاگیرداری کو روایتی سوشلسٹ طریقوں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

تعلیم اور چھوٹی صنعتوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے  جاسکتے ہیں، لوگوں کو جب یہ معلوم ہو کہ انہیں روٹی کے لئے کسی کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا ،تو جاگیردار کی اپنے ہی قبیلوں اور برادری پر سماجی گرفت کمزور پڑے گی، جس سے لوگ اس سے زیادہ مضبوطی سے جڑتے ہیں، یہاں تک کہ  ثقافت کے نام پر استحصال  سہہ جاتے ہیں،پہلے یہ ہوتا تھا کہ سردار باپ کی طرح اپنے قبیلے کا خیال کرتا تھا اس نظام سے چھیڑ چھاڑ نے جاگیردارانہ استبداد کو جنم دیا،الل ٹپ طریقوں سے جاگیرداری ختم کرنے کے طریقوں سے وہ ختم تو نہ ہو سکی، البتہ عدم تحفظ کے باعث کاروکاری قرآن سے شادی جیسی رسوم پیدا ہوئیں اور قبائلی جھگڑوں میں شدت آئی۔

جاگیرداری نظام کی اپنی خوبیاں خامیاں ہیں لیکن اسے جمہوریت دشمن کہنا بالکل غلط ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

درست اقدام ہوگا کہ یکلخت کی  بجائے سماجی ارتقاء  سے نظام کو تبدیل کیا جاۓ، ٹیکنالوجی تعلیم و ہنر صحت کی بہتر سہولیات اور روزگار کے وافر مواقع روایتی جاگیرداری نظام میں ایک بڑی سماجی تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں، جو ہر دو فریق کے لئے مفید ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”روایتی جاگیرداری نظام اور سماج /دانش خان

  1. اچھا لکھا جناب
    دراصل ہم سب ہی اپنی ہی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں اور ہونا بھی چاہیے مسئلہ تب بنتا ہے جب ہم بضد ہو جاتے ہیں سب ویسا ہی دیکھیں اور سوچیں جیسے ہم دیکھتے اور سوچتے ہیں

Leave a Reply