اپنے بچوں کو دنیا کیساتھ جینا سکھائیں۔۔۔ضیغم قدیر

سب سے پہلے اگر ہم دنیا کے ماحول کو دیکھیں تو یہاں ہمیں جابجا مختلف قسم کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ جو لوگ بڑا کام کررہے ہوتے ہیں انکو کسی مجمعے سے کبھی کبھار خطاب بھی کرنا پڑجاتا ہے، لیکن پبلک انٹرکشن یا  سپیکنگ کا نام لیتے ہی بہت سے لوگوں کی ہوا نکل جاتی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

لیکن چونکہ انکو بچپن سے ہی جھڑک جھڑک کر رکھا جاتا ہے اس لئے ان میں خوداعتمادی کی کمی آ جاتی ہے۔۔ جبکہ وہ والدین جو اپنے بچوں کو فیصلہ سازی، بہن بھائیوں کو لیڈ کر نے اور مختلف کھیل  جیسا کہ کرکٹ وغیرہ کھیلنے دیتے ہیں ان میں خود اعتمادی باقی   بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

جھڑکیاں  اور روک ٹوک بچے کی شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہیں، چونکہ ہماری  اکثریت  مڈل کلاس ہے جوائیٹ فیملی سسٹم ہے سو اس سسٹم میں جب بھی والدین میں سے  کسی ایک کو بھی خاندان کے کسی   فرد  پہ غصہ آتا ہے تو وہ اِسے اپنے بچوں پہ ہی نکالتے ہیں۔ جو کہ انکو مستقل طور پہ خوداعتمادی میں کمی کا شکار بنا دیتا ہے۔
وہیں وہ والدین جو اپنے بچوں کو جھڑکتے تو نہیں ہیں لیکن انکی کوئی خاص راہنمائی بھی نہیں کرتے،ان پر چیک اینڈ بیلنس مکمل طور پہ نہیں رکھتے، بدلے میں وہ بچے بھی بگڑ جاتے ہیں سو اس معاملے میں اعتدال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔

اب بات کریں سٹوری میکنگ کی تو ہماری  اکثریت  کہانی سازی سے بالکل نابلد ہوتی ہے جبکہ انسانوں کے تمام بنیادی سسٹم کہانیوں پہ ہی اپنا وجود رکھتے ہیں۔آپ نظام معاش سے چلیں اور سیاست تک آجائیں، سب سسٹم کہانیوں پہ ہی مشتمل ہیں، اور ان سسٹمز میں کامیاب وہی ہے جو سب سے اچھی کہانی بنانا جانتا ہے۔ آپ تمام بڑے لیڈروں کی زندگی کا مطالعہ کر لیں ان کی  اکثریت بچپن سے ہی پبلک سپیکنگ اور کہانی سازی میں مہارت رکھتی تھی اور یہی مہارت انکو بعد کی زندگی میں بڑے سے بڑے مجمعے کو کنٹرول کرنے اور ان سے اپنی بات منوانے میں کام آئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم اپنے بچوں کی پبلک سپیکنگ اور کہانی سازی کی صلاحتیوں کو کس طرح اُبھار سکتے ہیں ان پر بعد میں آپکے ساتھ بات ہوگی، گو بہت سے تعلیمی ادارے بچوں میں یہ خوبیاں لاتے ہیں لیکن کلاس کے صرف دس سے پندرہ فیصد بچے ہی انکے فوکس میں آتے ہیں باقی کے پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ اس لئے سکول پر  مت رہیں بلکہ خود اپنے بچوں کو جینا سکھائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply