قوم کے معمار ذہنی بیمار۔۔ایس معشوق احمد

ریاست جموں و کشمیر میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی ایک بڑی کھیپ ہائر ایجوکیشن میں عارضی طور تعینات ہوکر قوم کے مستقبل کو روشن کرتی رہی، لیکن خود ان کا مستقبل تاریک کیا گیا۔ انہوں نے اپنی جوانی ، زندگی کے حسین سال ، بڑی محنت و مشقت سے، دولت خرچ کرکے اور کئی طرح کی قربانیاں دے کر اعلیٰ تعلیم پائی تھی اس امید کے ساتھ کہ ان کا مستقبل سنور جائے گا اور یہ اپنے بوڑھے والدین کا سہارا بنیں گے، لیکن ان کے مقدر میں روزگار نہیں لکھا تھا، بلکہ یہ تو دھکے کھانے ، بے عزتی سہنے اور روز جذباتی طور  پر مجروح ہونے کے لیے دنیا میں آئے ہیں۔ اعلیٰ  تعلیم سے بہرہ مند ہونے کے بعد گھر والے ان سے اب امیدیں باندھنے لگے تھے ،کہ یہ اب کمانے لگ جائیں گے لیکن بے روزگاری کی آندھی اتنی تیز ہے کہ یہ اپنے گھونسلوں سے باہر نہیں آسکتے۔ پَر ہونے کے باوجود یہ اُڑان  نہیں بھرتے کیونکہ انہیں وہ گگن میسر نہیں جس میں یہ جی بھر کر اڑان بھر سکیں۔ ان کے پاس یا تو پرائیوٹ  سکول بچ جاتے ہیں جو مشکل سے چار ہزار دینے کو تیار ہوتے ہیں یا  سکول ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن میں کنٹریکٹ پر ہونا۔ ہائر ایجوکیشن میں کام کرنے والے اساتذہ اور اعلیٰ  حکام کے درمیان پچھلے ایک دو سال سے تنازعے نے جنم لیا اور ریاست کے مختلف کالجوں میں عارضی طور  پر کام کرنے والے تقریباً  تمام استاتذہ نے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے خلاف کیس دائر کر دیا۔ان کی مانگ رہی کہ انہیں مستقل کیا جائے یا ان کے حق میں جاب پالیسی بنائی جائے۔ان کے ساتھ تو پچھلے کئی سالوں سے استحصال ہو ہی رہا تھا لیکن جب سے انہوں نے عدالت میں عرضی دائر کی اور ان ہی کالجوں میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی جن میں ایک سال قبل تعینات کئے گئے تھے تب سے یہ اچھوت بن گئے ہیں۔ ان کے ساتھ بھید بھاؤ اور انہیں تنگ کرنے اور ذہنی اذیت دینے کے وہ تمام حربے ہائر ایجوکیشن نے اپنائے جن کا  تصور کرنے سے ہی بے چینی ہوتی ہے اور وہ سلوک کرنا شروع کیا جو جانوروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا جاتا۔ہر سال ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ مختلف کالجوں میں پڑھانے کے لیے عارضی اساتذہ کو تعینات کرتے ہیں۔کہیں سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے جس سے نہ صرف تعلیمی سر گرمی کو جاری رکھنے میں آسانیاں ہوتی ہیں بلکہ ان پڑھے لکھے کم نصیبوں کے گھر کا چولھا بھی جلتا ہے۔کالج میں آنے اور پڑھانے کے دوران ان کو جن طعنوں، مصائب و مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور جو بے عزتی اور پریشانیاں سہنی پڑتی ہیں وہ الگ ۔ہر سال ان کو لائن میں رہ کر نئے فارم بھرنے پڑتے ہیں اور ہر سال ان کی رزق کے دانے الگ الگ کالجوں میں بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ان رزق کے دانوں کو چگنے کے لیے بوریا بستر باندھ کر نکل پڑتے ہیں۔دسمبر آتے ہی انہیں پھر سے  یہی  فکرستانے  لگتی ہے۔مارچ تک ایک کالج میں کام کرنے کے بعد یہ نیا فارم بھرتے ہیں اور کسی اور کالج میں اپنے فرائض انجام دینے پہنچ جاتے ہیں۔ پچھلے تین چار سالوں سے یہ مارچ سے نئے سال کے مارچ تک وہ فرائض کالجوں میں نبھاتے رہے جو ان کو دیے گئے۔ گزشتہ سال نے نہ صرف پوری دنیا کو ماتم کدہ بنایا بلکہ ان کو بھی مجبور کر دیا کہ یہ گھر کی دیواروں کو دن رات تکتے رہے۔گزشتہ سال جہاں دفعہ 370 کا اختتام ہوا ، کرونا جیسی مہلک بیماری  نے اموات کے در کھولے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو مبتلا کیا اور ہزاروں کی زندگی کا دیا بجھایا وہیں  ان کم نصیبوں نے اپنے مستقبل کی فکر میں آکر ہائر ایجوکیشن کے خلاف عدالت میں کیس کردیا کہ انہیں مستقل طور پر رکھا جائے اور ہر سال لائن میں رہنے اور فارم بھرنے کی کوفت سے آزاد کر دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہائر ایجوکیشن محکمہ ہر سال ان کم نصیب پڑھے لکھے لوگوں کو ہائر تو کرتا ہے لیکن ان کو وہ مقام ،عزت اور قدر نہیں ملتی جس کے یہ حقدار ہیں۔ان کی پڑھائی ،محنت اور جانفشانی بے مول مانی جاتی ہے ۔ان کی ڈگریوں کو وہ پرچیاں تصور کیا جاتا ہے جن میں تمباکو لپیٹ کر دوکاندار اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں۔
یہ کاغذی پیرہن پہنے فریاد کرتے ہیں لیکن اعلیٰ حکام کو ان کی فریاد   سننے اور حالت زار کو دیکھنے کی فرصت نہیں۔باقی تمام محکموں کے لیے پالیسیاں ہیں ،ان کے لیے نہیں۔ان قومی معماروں کو ذہنی بیمار نہ بنایا جائے ۔ان کے جائز مطالبات کو پورا کیا جائے اور ان کو مزید اذیت اور پریشانیوں  سے بچانے کے لیے موثر اقدامات یے جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply