کیا عامر تہکال کو انصاف ملے گا؟۔۔نصیر اللہ خان ایڈووکیٹ

پشاور میں عامر تہکال نامی شخص کو پشاور تہکال پولیس کی  جانب سے برہنہ کرکے غلیظ گالیاں دی گئیں ۔ واقعہ  دراصل یہ ہے کہ عامر تہکال پشاور کے ایک شادی ہال میں وباء سے پہلے منیجر کے فرائض سرانجام دے رہےتھے ۔ کورونا وبا ء اور لاک ڈاون کی وجہ سے ان کی نوکری چلی گئی ۔ جس سے وہ کافی دلبرداشتہ ہوا۔ عامر تہکال نے حالات کی وجہ سے سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف ایک ویڈیو وائرل کی ۔ جس میں پولیس کو گالیاں دی گئی تھیں، جو کہ میں سمجھتا ہوں غلط تھا ۔ جس کے خلاف پشاور تہکال تھانہ پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عامر کو ننگا کرکے زدو وکوب کیا اور ان کی برہنہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی ۔ جس کے خلاف سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا پولیس پر غصہ کافی نفرت اور حقارت پر مبنی ہے۔  اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاران سمیت اعلی ٰ پولیس حکام کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم پڑتی ہے۔اس کا لازمی اثر مجموعی پولیس ڈپارٹمنٹ پر پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔اور جس سے حکومت کی پولیس کے متعلق اقدامات و اعلانات کی قلعی کھل گئی ہے۔اگرچہ مذکورہ پولیس والوں کے خلاف سطحی قسم کے اقدامات کئے گئے ہیں اور ان پر پرچہ کرکے معمولی قسم کی دفعات شامل کی  گئی  ہیں  جس سے مذکورہ پولیس والوں کی آسانی کے ساتھ ضمانت ہوسکتی ہے۔جوکہ میراخیال ہے بد نیتی پر مبنی ہے۔

پولیس قانون اور عوام کی محافظ اور ایک لحاظ سے عوام کی خادم ہوتی ہے۔پولیس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض کو جرم کی  روک تھام ،تفتیش اور عوامی نظم و نسق اورامن وامان کی بحالی کے لئے موثر انداز میں انجام دیں۔ پولیس رولز 2017 خیبر پختونخوا کے مطابق جمہوری اداروں کے ذریعے پولیس کو عوام کو جوابدہ کرنے کے لئے اورغیر سیاسی بنانے کے لئے نگرانی کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔ اس طرح قانون مذکورہ میں پولیس کو آپریشنل ، انتظامی اور مالی خودمختاری دی گئی ہے۔جرائم میں کمی لانے کے لئے پولیس کی ٹریننگ عمل میں لائی جاتی ہے۔ لیکن سردست حالات میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ وہی پرانا طریقہ کار ہے۔دوسری طرف ضابطہ فوجداری ،تعزیرات پاکستان اور دوسرے جرائم سے متعلق مخصوص قوانین میں پولیس کو لامحدود اختیار ات دئیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے مذکورہ بالا فارمولا الٹا ہوگیا ہے۔ جو فورس عوام کی خادم تھی وہ متکبر اور مطلق العنان بن گئی ۔ اختیارات میں زیادتی کی وجہ سے لاء انفورسمنٹ ایجنسیز عام لوگوں کو بلڈی سویلین خیال کرتے ہیں۔ تھانہ میں جو رویہ عام سائلین اور شکایت کنندگان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے ۔اس کا تصور اور تذکرہ کرنا محال ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سارے پولیس اور اعلی حکام کرپٹ اور رشوت خور ہے۔ بلکے اس میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سرے سے انسانوں کو انسان خیال نہیں کرتے ۔ ان کو مطلوبہ ٹریننگ ہی نہیں ملتی ہے ۔ ان کے سکولنگ پر توجہ نہیں دی جاتی۔ بھرتیاں اکثر اوقات سفارش اور اقربا پروری کے بنیاد پر ہوتی ہے۔ نہ ان کو تفتیش کا پتا ہوتا ہے اور نہ ہی مقدمہ کو بنانے کے لئے دستیاب وسائل ہی ان کو فراہم ہوتے ہیں۔ دراصل جب طاقت اوراختیار میں توازن پیدا نہیں ہوتا ہے تو اس کے معاشرے اور عوام پر خراب نتائج نکلنے ہوتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں پولیس کیس اس وقت بناتی ہے جب وہ اپنی تفتیش مکمل کرکے کسی بھی ملزم پر تمام واقعاتی اور تائیدی ثبوتوں کے بنیاد پر دعویداری کرکے ملزم پر مقدمہ ثابت کرتے ہیں۔ بعد ازاں ان کو عدالتوں اور قانون کی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا قوانین کے تحت پولیس قابل دست اندازی جرائم میں فوری ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں یا کسی بھی شخص کی شکایت پر درج کرتی ہے۔ نا قابل دست اندازی جرم میں پولیس کو مجسٹریٹ یا متعلقہ افسر مجاز سے اجازت لینا درکار ہوتی ہے۔جرم ہونے کی صور ت میں فوری تفتیش اور تحقیق کا آغاز ہوتا ہے۔ غیر قانونی ضبطی، خلاف قانون کسی کے گھر میں گھسنا وغیرہ مروج قوانین کی رو سے جرم تصور ہوتا ہے۔ ملزم یا مستغیث کے کہنے پر جائے واردات کا نقشہ موقع مرتب کردیا جاتا ہے۔ گواہان کے بیانات قلمبند ہوتے ہیں۔ فرد مقبوضگی بنایا جاتا ہے۔ پارچات اور آلہ جرم قبضہ پولیس کی جاتی ہے۔ ارمڈ ایکسپرٹ کو الہ جرم کو بغرض جرم میں استعمال ہونے کے تصدیق کے لئے بھجوایا جاتا ہے۔مراسلہ، نقل مد اور روزنامچہ ڈائری بنائی جاتی ہے۔ خون کے دھبوں کو کلیکٹ کرکے فورنسک ایویڈنس کے لیے لیبارٹری میں بھیجا جاتا ہے۔ فون ٹریسنگ کی جاتی ہے۔ جائے واردات کو سیل کردیا جاتا ہے۔ مقتول کی پوسٹ مارٹم اور مجروحین کی میڈیکل ڈاکٹری چیکنگ کرکے زخمات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ یہ سب قانونی ذمہ داریاں ہے جو کہ پولیس فورس کو ضابطہ قوانین کے اندر سرانجام دینا ہوتے ہیں۔ ان میں جر م کے اوقات ، فاصلہ از تھانہ وغیرہ اور جائے وارادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ درج بالا ضابطہ اور اصول ہائے کے بغیر پولیس کا ہر ایک قدم غیر قانونی تصور ہوتا ہے۔ جس کا فائدہ ملزم کو ملتا ہے۔ تاہم پولیس کو جو ذمہ داری قانونی طور پر ادا کرنی ہوتی ہیں ۔اکثر و بیشتر اس کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف خود ساختہ اور فرضی مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ کسی ملزم کو علاوہ مجسٹریٹ کے اجازت کے بغیر تھانہ میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ بااثر افراد کے سفارش پر مقدمات قائم ہوتے ہیں۔ سائلین کو سالوں سال کورٹ کچہری کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔ غلط کیس بنانے کے پاداش میں پولیس کے خلاف محکمانہ یا عدالتی کارروائی کا کوئی تصور موجود نہیں۔اگرچہ مذکورہ قوانین میں پولیس کے خلاف کچھ برائے نام دفعات اورغیر قانونی و ناجائز کیس بنانے کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ تاہم سب کچھ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر غور سے دیکھا جائے تو پولیس کے بنائے گئے تقریباً سارے مقدمے بوگس، جعلی، سازشی، خلاف حقیقت، خلاف قانون، اور خلاف انصاف ہوتے ہیں۔

عامر تہکال کے مقدمے میں جوڈیشل انکوائری، پولیس معطلی اور گرفتاری ،مقدمے کا ہر گز حل نہیں۔ میرا خیال ہے کہ پولیس رولز جو کہ انگریز دور کے بنائے ہوئے قوانین ہے۔ جوکہ غلام عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے بنائے گئے تھے۔ جس میں اب کچھ ترمیمات ہوکر اس سے نئے پولیس رولز2017 خیبر پختنونخوا بنائی جا چکی ہے۔ لیکن پولیس رولز کے ترمیمات اور قوانین سے پولیس کے معیار اور کلچر میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔دعوےویسے ہی کئے جاتے ہیں۔ ہزاروں کیسسز اس کے شاھد ہے۔ اس لئے پولیس رولز کو جدید پولیس رولز بنانے کے لئے حکومت کو قانون سازی پر توجہ دینی چاہئے۔ کم ازکم پولیس فورس کو مذکورہ قوانین کی نسبت سختی کے ساتھ عمل پیرا کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک مستعد پولیس فورس ، عدالت، اسٹیک ہولڈرز، اور دیگر محکموں کے سفارشات پر مبنی ایک نیا پولیس رول بنانا چاہئے۔ جس میں پولیس کو ریگولیٹ کرنے کے علاؤہ پولیس کے لئے ضابطہ اخلاق مرتب کرنی چاہئے۔ یہاں تک کے پولیس کے بھرتی سے لیکر پولیس کے اپوائنٹمنٹ کے طریقہ کار ، ضابطہ اخلاق ، رویہ اور سکولنگ وغیرہ پر غور کیا جائے۔ان کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کیا جائے۔ پولیس کے لئے کونسلنگ اور تفتیش کے طریقہ کار از سر نو جائزہ لیکر قانون مرتب کیا جائے۔ ان کودستور اور اخلاق پر مبنی ٹریننگ دی جائے۔ حالات اور واقعات کو سمجھ کر عوام کی امنگوں کے مطابق قانون تشکیل دیا جائے۔عوامی سطح پر پولیس ریفارمز کے لئے آواز اٹھانا چاہئے۔ اس طرح ہی عامر تہکال جیسے افراد کو انصاف ملے گا ۔ ایسا سوچنا بھی محال ہےکہ پولیس ازخود ٹھیک ہوجائیگی اس کے لئے عدالت ، حکومت ، میڈیا اور عوام کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ختم شد

Advertisements
julia rana solicitors

سماج نامہ

 

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply