سلمیٰ سید کی تحاریر

درد۔۔۔سلمیٰ سیّد

دیکھو ہمیں اب بیٹھ گئے پاس تمھارے کر آؤ منادی ،نہ ہمیں کوئی پکارے محفل کے یہ آداب کہیں دیکھے ہیں تم نے؟ کرتے ہو ہمیں دور سے آنکھوں کے اشارے ہر شکل میں توہے، تری خوشبو تری آواز جائیں←  مزید پڑھیے

شکایت۔۔سلمیٰ سیّد

مجھے محروم رکھا ہے ہوا سے روشنی سے بھی نئے ر نگوں کی خوشبو چاشنی سے بھی تعلق دل کے رشتوں کا شجر ممنوعہ ٹھہرا ہے نہ میرے دامن دل میں نہ میری روح کے اطراف شفق رنگوں کا میلہ←  مزید پڑھیے

صحراؤں کو باغ بنایا جاسکتا ہے۔۔سلمیٰ سیّد

‏صحراؤں کو باغ بنایا جاسکتا ہے ان باغوں میں خواب اگایا جاسکتا ہے گلی میں چوڑی والے کی آواز لگا کر اُس کھڑکی پہ چاند بلایا جاسکتا ہے دل کی آگ سے آگ لگائی جاسکتی ہے اور پانی میں اشک←  مزید پڑھیے

خواہش۔۔سلمیٰ سیّد

سب کے اندر ننھا بچہ ہوتا ہے اس کو زندہ رکھنا، سچا ہوتا ہے تنہائی جب آنکھ بھگونے لگتی ہے دل میں تیری یاد کا چرچہ ہوتا ہے اک دوجے پہ جان لٹانا لازم ہے ؟ کاروباری دل کا رشتہ←  مزید پڑھیے

احساس۔۔سلمیٰ سیّد

فضاء میں تیرتی ٹھنڈک ہوا میں ناچتی بارش نے میری نیند توڑی تھی گئے برسوں کی چاہت روح کے اطراف بکھری تھی کسی کے لمس کی خواہش بدن میں جاگ اٹھی تھی محبت ہی محبت بس رگوں میں رقص کرتی←  مزید پڑھیے

مقبوضہ کشمیر۔۔سلمیٰ سیّد

یہ میرے خون کے دھبےکہو کیسے مٹاؤ گے میرے صبر و تحمل کو تم کتنا آزماؤ گے یہاں ڈولی نہیں سجتی یہاں رشتے نہیں ہوتے ہوا میں خوف اتنا ہے یہاں بچے نہیں روتے فضا میں موت پلتی ہے یہاں←  مزید پڑھیے

ایک دیرینہ دوست کے نام۔۔۔سلمیٰ سید

رفیق میرے تمھاری آنکھوں میں زرد موسم ٹھہر گیا ہے وہ زندگی سے جڑی تمنا وہ ساحلوں سی سبک روانی تمام جذبوں میں گندھ کے نکھری سنہری مٹی سی مست جوانی گھنے اندھیروں میں روشنی کی قلم لگانے کا خواب←  مزید پڑھیے

سُنونا بابا۔۔۔۔سلمیٰ سیّد

سنو نا بابا کہا بھی تھا کہ مجھے اندھیرے ڈرا رہے ہیں ابھی نہ جانا ابھی تو میں نے تمھارے پہلو میں سانس لی ہے مجھے زمانے کے سرد و گرم کا پتا نہیں ہے کہا بھی تھاکہ مجھے سکھانا←  مزید پڑھیے