وزیراعظم یا اینکر پرسن ؟۔۔ذیشان نور خلجی

سابق چیف جسٹس حاجی ثاقب نثار دامت برکاتہم کی زیر ِ نگرانی مہمند ڈیم تعمیر ہو چکا ہے۔ اب وہ کالا باغ ڈیم پر چوکیدار کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ ان کی اور موجودہ حکومت کی نیک نیتی ہی ہے کہ تمام قوم پرست جماعتیں اختلافات بھلا کر ڈیم کی تعمیر کے لئے راضی ہو چکی ہیں۔ مہمند ڈیم کی بدولت پاکستانی عوام کو بالکل فری بجلی میسر ہے۔ جب کہ محکمانہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ضرورت سے زائد بجلی انڈیا اور چائنا کو بیچ دی جاتی ہے۔ اور میٹھے پانی کے اتنے وسیع ذخائر میسر آچکے ہیں کہ اسے ٹھکانے لگانے کے لئے اب تھر میں بھی نہریں کھودی جا رہی ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ اسی قسم کا ایک منصوبہ کراچی کے لئے بھی زیرِ غور ہے کہ اہل شہر کی ٹینکر مافیا سے جان چھوٹ سکے۔ آٹے چینی اور دوسری اشیائے ضروریہ کے نرخ بیس سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور عوام پیٹ بھرنے کے لئے روٹی کی بجائے حقیقتاً کیک اڑاتے پھر رہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات عدالتوں میں ثابت ہو چکے ہیں۔ لہذا اکثر کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ چینی اور گندم بحران سے جن اراکین اسمبلی نے فوائد حاصل کیے تھے انہیں بھی دھر لیا گیا ہے۔ جب کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار جیسے سیاسی لیڈروں نے انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت جائز ذرائع  سے حاصل کی ہوئی دولت بھی کرونا فنڈ میں جمع کروا دی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ سارا حکومتی ٹولہ ہی حاجی ثناءاللہ اور آئمہ مساجد پر مشتمل ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی جگہ ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی تعمیر ہو چکی ہے جہاں صرف مڈل کلاس گھرانوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ایوان صدر اور تمام صوبوں کے گورنر ہاؤسسز بھی ریسرچ سینٹرز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے اپنے سینکڑوں کنال پر مشتمل بنی گالا والے محل کو قرنطینہ میں بدل دیا ہے اور خود زیرو پوائنٹ کے پاس ایک کرائے کے کوارٹر میں شفٹ ہو چکے ہیں۔ شنید ہے کرونا وباء کے خاتمے کے بعد اس محل کو بھی سرکاری خزانے میں جمع کروا دیا جائے گا۔ لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں خطرناک حد تک گر چکی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی پٹرول اور ڈیزل انتہائی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ لیکن وزیراعظم پھر بھی دفتر آنے کے لئے سائیکل ہی کا استعمال کرتے ہیں۔

ٹھہرئیے، صاحب ! آپ کیوں بھول گئے؟
وزیراعظم کے پاس تو اتنے وسائل ہی نہیں کہ اپنا سائیکل خرید سکیں۔ کیوں کہ انہوں نے تو اپنے سارے اثاثے کرونا فنڈ میں جمع کروا دئیے ہیں۔ اور ویسے بھی انہیں کون سا کوئی لالچ ہے، کہ نہ ان کا کوئی آگے ہے نہ پیچھے۔
تو جناب من ! وہ تو صدر صاحب سے لفٹ لے کے آتے ہیں۔
سوچیے تو، کیسا خوبصورت منظر ہے صدر پاکستان سہراب کمپنی کا ایک سال خوردہ سائیکل چلا رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان پیچھے بیٹھے ہوئے، ان کے کندھوں پہ ہاتھ دھرے، بغل سے ‘سری’ نکالے جھانک رہے ہیں۔ کہ اچانک بیچ رستے سائیکل کی چین اتر جاتی ہے۔ وزیر اعظم صدر پاکستان پر برہم ہوتے ہیں کہ کل بھی اسی وجہ سے ہم لیٹ ہو گئے تھے۔ صدر صاحب بیچارگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ابھی مالی حالت تھوڑی سی پتلی ہے جوں ہی کچھ پیسے ہاتھ لگتے ہیں میں چین تبدیل کروا لوں گا۔

ابھی یہ باتیں جاری ہیں کہ صدر صاحب نے کمال مہارت سے چین چڑھا لیا ہے اور پھر بڑے خلوص سے اپنے گریس میں لتھڑے ہاتھ وزیراعظم کی ‘موری’ والی قمیض سے پونچھ لئے ہیں۔ صدر مملکت کے اس التفات پر وزیراعظم اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ہیں۔

اب پتا نہیں کہاں مر گیا ہے وہ کیمرہ  مین، جسے خاص ایسے موقعوں کی تصویر کشی کے لئے رکھا گیا ہے۔ دراصل مملکت خداداد میں خوشحالی کا کچھ ایسا دور دورا ہے کہ عوام نے کبھی کسی کو آنسو بہاتے دیکھا ہی نہیں ہے سو یہ ڈیوٹی بھی وزیراعظم کے ذمہ ہے۔

لیں جی، ابھی کالم اختتام کو پہنچا نہیں کہ دفتر آ گیا ہے۔ اب پھر ذرا دفتر کا حال ملاحظہ فرما لیں۔

یہ ایک عام سا دس ضرب سولہ کا کمرہ ہے جس میں صرف ایک ہی میز کرسی ہے اور وہ بھی صدر صاحب کے لئے مخصوص ہے۔ کیوں کہ وزیراعظم تو ایک درویش منش آدمی ہیں سو اپنی عاجزانہ طبیعت کے باعث زمین پر بیٹھنا ہی پسند فرماتے ہیں۔ لہذا ان کے بیٹھنے کے لئے کھجور کی چٹائی بچھائی گئی ہے۔ یہاں ہر قسم کے خوش آمدیوں کا داخلہ سختی سے منع ہے۔ گو وزیراعظم ایک روحانی شخصیت کے حامل ہیں لیکن پھر بھی درباری قسم کے ملاؤں سے پرہیز ہی کرتے ہیں۔ ہاں، ایک عدد سرکاری دعا گو حسب ضرورت بلا لیا جاتا ہے۔ جس کی پٹاری میں حسب موقع دعائیں مع بہت سے ٹسوؤں کے ہمہ وقت موجود رہتی ہیں۔
واہ واہ، سبحان اللہ !
کیسا خوبصورت منظر ہے۔ قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔
ہمارا پیارا وزیر اعظم۔۔
ایک یہی حکمران ہے کہ جس نے ریاست مدینہ کا نام تو لیا ہے۔ ورنہ کسی کو اتنی توفیق کہاں۔ فرط عقیدت سے آنکھیں بھیگی جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

صاحبو ! فرض کیجیے، ہم واقعی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور وزیر اعظم کے دکھائے گئے تمام خواب سچ مچ پورے ہو چکے ہیں۔ لیکن کیا پھر بھی مصیبت کی اس گھڑی میں، جب کہ کرونا اور بھوک کی ننگی تلوار عوام کے سروں پر لٹک رہی ہے، ہمارے وزیراعظم کو یہی کرنا چاہیے جو کچھ وہ کر رہے ہیں؟ کیا ہر دوسرے دن صرف اپنا رخ انور ٹی وی پر دکھا دینے سے ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟ خدا خدا کر کے  اگر کفر ٹوٹ ہی چکا ہے اور انہیں معلوم ہو ہی چکا ہے کہ اب وہ ڈی چوک والے کنٹینر پر نہیں چڑھے ہوئے، بلکہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں تو پھر انہیں اس بات کا احساس بھی ہو جانا چاہیے کہ ہم نے انہیں ایک وزیراعظم منتخب کیا ہوا ہے نہ کہ کوئی ٹی وی اینکر۔ لہذا خدا راہ ! اس مشکل وقت کا احساس کریں اور بجائے میڈیا پر آ کر حالات حاضرہ پر تبصرے کرنے کے، کچھ عملی اقدامات بھی کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply