ڈرامائی گرفتاری اور پھر رہائی ۔۔۔ آخر کیوں؟ … مزمل فیروزی

گزشتہ دنوں سندھ سیکریٹریٹ کے سامنے چند اساتذہ احتجاج کررہے تھے ۔ ہم نے وہاں موجود اساتذہ سے دوران گفتگو سیکریٹریٹ کے اسپیلنگ پوچھی تو انکا جواب نفی میں تھا۔ اس پر ہماری دلچسپی بڑھی تو ہم کچھ آسان الفاظ کے اسپیلنگ اور پوچھ بیٹھے مگر اس بار بھی جواب نفی میں ہی تھا۔ اس موقع پر ہمارا ان حضرات سے کہنا تھا کہ ا حتجاج تو آپ کے علاقے والوں کو کرنا چاہئے جہاں پر آپ تعینات ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری سندھ پولیس کا حال یہ ہے کہ ہماری پولیس کو قاعدے قانون کے بارے میں کچھ خاص معلوم نہیں ہوتا، بس ان کو کاروائی سے مطلب ہے اور سرخیوں میں آنے کا شوق ہے۔

گزشتہ روز ہونے والی دبنگ ڈرامائی گرفتاری ، کراچی پولیس آفس منتقلی اور پھر رہائی نے سندھ پولیس کی قلعی کھول کر دی ہے۔ جس وقت سند ھ کے قائد حزب اختلاف، وزیراعلی سندھ سے ان کے ہاؤس میں ملاقات کر رہے تھے، اس وقت جس طرح پولیس نے ان کے گھر پر دھاوا بولا چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا، جبکہ اس وقت ان کے گھر پر کوئی مرد موجود نہیں تھا اور ہماری دبنگ پولیس بغیر کسی سرچ وارنٹ اوربغیر لیڈی سرچر کے ان کے گھر میں گھس گئی اور تلاشی لیتی رہی، وہ قابل مذمت تھا۔ ایک عام آدمی اور اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میں فرق ہوتا ہے قانونی ماہرین کا کہنا ہے قائد حزب اختلاف ہی نہیں، کسی بھی رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے سے پہلے اسپیکر اسمبلی کے علم میں لانا ضروری ہوتا ہے اور کہیں بھی تلاشی کے لئے تو سرچ وارنٹ اور لیڈی سرچر کوساتھ لے جا ئے بغیر کاروائی مکمل نہیں کی جاسکتی مگر ہماری سندھ پولیس کے معطل دبنگ آفیسر ایس ایس پی راؤ انوار تو ان سب باتوں سے انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک آفیسر کو کسی مجرم کو گرفتار کرنے کیلئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور اس طرح کے بہانے ان کو کام کرنے سے روکنے کیلئے ہیں، مجھے معطل کرنے کا فیصلہ جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ میرے معطل ہو نے کے بعد شہر کی صورتحال سے خود ہی نمٹ لینا کا بیان ان کی خود پسندی کا شاخسانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ بقول ان کے وہ واحد آفیسر ہیں جو دھشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی کی دیوار بنے کھڑے ہیں اور انہیں کسی کی ناراضی کا کوئی خوف نہیں۔

imageایک سرکاری آفیسر کی طرف سے ایسے بیانات سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ راؤ انوار ہمیشہ سے ہی سرخیوں میں رہنے کے شوقین ہیں۔ میئر کراچی کی گرفتاری ہو یا فیصل واوڈا کی گرفتاری، وہ ہمیشہ ہی پیش پیش رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ تین سال میں تین بار معطل ہوچکے ہیں۔ پہلی بار وہ مارچ 2013میں معطل ہوئے اور جلد ہی بحال کردئے گئے ، دوسری بار اپریل 2105میں پھر تین ماہ بعد دوبارہ بحال کردیا گیا اور ایس ایس پی ملیر تعینات کیا گیا اوراس بار وزیراعلی سندھ نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر ان کو معطل کیا حالانکہ وہ پی پی پی کے ان چند منظور نظر آفیسرز میں سے ہیں جن پر بڑے رہنماؤں کا  آشیرباد ہے پھر بھی چیف سیکریٹری سندھ نے ان کی معطلی کا حکم نامہ جاری کیا اور ان کو  آفس کو استعمال کرنے سے بھی منع کیا جبکہ دوسری طرف آئی جی سندھ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر راؤ انوار کے خلاف کاروائی بھی شروع کر دی جبکہ سندھ حکومت کو  آئی جی سندھ کو معطل کرنا چاہئے تھا کیونکہ ان کے زیر سایہ کام کرنے والے افسر نے یہ کاروائی کی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔

معلوم ہوتا ہے کہ اس بار راؤ انوارکو قائد حزب اختلاف سندھ کی گرفتاری مہنگی پڑ گئی۔ ایک دم سیکیورٹی اداروں میں ہلچل مچ گئی اور یہ گرفتاری سندھ حکومت پر بھاری پڑی اور سندھ کے سیاسی منظرنامے پر گرماگرمی نظر آئی کیونکہ وزیراعظم نے وڈے سائیں کو فون کر کے پوچھا اور کہا کہ اسپیکر کی اجازت کے بغیر قائد حزب اختلاف کی گرفتاری غیر قانونی ہے، پولیس آفیسرکے خلاف کاروائی کریں اور یہ طریقہ کار غلط ہے۔ اگر ایسے ہی صرف اف آئی آر پر ہی گرفتاریاں ہوں تو میاں صاحبان پر بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر مقدمہ درج ہے۔ تو ایسے میں وڈے سائیں کی سبکی نہیں تو کیا ہوگا؟

راؤ انوار تو جلد بحال نہیں ہوپائیں گے تاہم ان تمام حالات کو سامنے رکھیے تو ایک بات سامنے آتی ہے، کیا ایک پولیس آفیسر سندھ حکومت سے زیادہ طاقت ور ہوگیا ہے کہ اے ڈی خواجہ کو خود گڈاپ تھانے جانا پڑا اور تقریبا 5گھنٹے لگے قائد حزب اختلاف کو گڈاپ تھانے سے نکال کرکراچی پولیس آفس لانے میں۔ اس تمام صورتحال سے تو یہ لگتاہے کہ سندھ حکومت بے بس ہے اور کوئی ان دیکھا ہاتھ زیادہ طاقت ور! کہیں وڈے سائیں کو یہ باور کرانے کی کوشش تو نہیں کی جارہی کہ حکومت سندھ سے نہیں دبئی سے چلتی ہے۔ آپ اپنے آپ کو زیادہ ہیرو نہ سمجھیے۔

قائد حزب اختلاف کی ڈرامائی گرفتاری اور پھر رہائی ۔۔۔ آخر کیوں؟؟؟چلیں مان لیتے ہیں ان پر دھشت گردی کے مقدمات ہیں اور وہ مطلوب ہیں مگر عوام کے منتخب نمائندے کو بغیر کچھ بتائے اتنی بے عزتی سے گرفتار کرنا دراصل یہ عوام کی تذلیل ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال میں شہر کراچی میں کیسے امن قائم ہو سکتاہے۔ یہ تو سراسر امن کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے کہ جہاں صوبے کا وزیراعلی ہی پولیس کی کاروائیوں سے لاعلم ہو اورسندھ پولیس اپنی من مانیاں کرتی پھرے مگر دوسری طرف ایسے بے لگام پولیس آفیسرز ہماری پوری سندھ پولیس کا چہرہ نہیں ہوسکتے۔ اس لیے جب تک پولیس نظام ٹھیک نہیں ہوگا اس وقت تک اس ملک کا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ہر دور میں سندھ پولیس کے کئی افسران نے یہ ثابت کیا ہیں یہ نااہل اور خوشامد میں نچلی ترین سطحوں کو چھو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ حکومت کی طرف سے نظر انداز کیا گیا اور سخت محکمہ جاتی کاروائی نہیں کی گئی اور دوسری طرف پولیس کو سیاسی پشت پناہی حاصل رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پولیس کو روایتی پولیس کے دور سے نکال کر ایک جدید پولیس بنایا جائے۔ انہیں جدید تربیت کے ساتھ اخلاقی ذہن سازی کی اشد ضرورت ہے تاکہ پولیس غیر جانبدار ہو کر اپنا کام کرے اور معاشرے میں پھیلتی ہوئی معاشرتی برائیوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرے۔  بصورت دیگر پڑھے لکھے لوگ اور ہماری خواتین اسی طرح سر راہ رسوا ہوتے رہیں گے اور پولیس ان دیکھے ہاتھوں کی لونڈی بنی رہے گی اور یوں بے گناہ لوگ اس فرسودہ نظام سے بغاوت کر کے غلط راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت پرہو گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مزمل احمد فیروزی بلاگر، کالم نگار اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ رکن مجلس عاملہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ بھی ہیں اور اسکول آف جرنلزم میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply