بانی سلطنت مغلیہ ظہیرالدین بابر کی وفات کے تین روز بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا نصیرالدین ہمایوں تخت نشین ہوا۔ ہمایوں علوم و فنون سے خاص رغبت رکھتا تھا، کم عمری میں ہی اس نے ترکی عربی اور فارسی میں کافی مہارت حاصل کر لی، ریاضی فلسفہ، نجوم اور علم ہیت بھی سیکھے۔ علم وادب سے اس کے لگا ؤکا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کی ذاتی لائبریری میں کتابوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی، کئی دفعہ وہ پورا پورا دن لائبریری میں مطالعہ کرتے گزارتا، وہ ہندوستان سے بھاگ کر جب جلا وطن ہوا تو اس وقت بھی جو سامان اپنے ساتھ لے کر گیا ان میں چیدہ چیدہ کتب کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ہمایوں نے دہلی میں ایک مدرسہ بھی بنوایا ،کہتے ہیں کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں آج ہمایوں کا مقبرہ ہے۔
نصیرالدین ہمایوں کی عمر ابھی صرف اٹھارہ سال ہی تھی کہ اس نے ابراھیم لودھی کے جرنیل حمید خان کو شکست دے کر حصار فیروزہ پر قبضہ کر لیا، اور صرف بیس سال کی عمر میں اسے بدخشاں کا گورنر بنایا گیا۔ 1529 میں ظہیرالدین بابر نے اسے بدخشاں سے واپس بلا لیا اور سنبھل کی جاگیر کا انتظام سنبھالنے کیلئے بھیج دیا، یہ شدید بیمار ہوا اور واپس دارالحکومت آ گیا۔ یہاں بابر کے انتقال پر وہ تخت نشین ہو گیا۔
پہلے دن سے ہی اس کو سازشوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہمایوں کا بھائی مرزا کامران اس وقت کابل اور قندھار کا حکمران تھا بظاہر اس نے ہمایوں کو بادشاہ بننے کی مبارک باد دینے کے لیے پنجاب کی جانبپ پیش قدمی کی لیکن مقاصد حکومت پر قبضہ کرنے کے ہی تھے۔ لاہور میں بابر کے دور سے میر یونس علی ایک وفادار گورنر تھا جو سلطنت میں کسی بھی خرابی کی اصلاح ہی اپنا فرض جانتا تھا۔ اسی لئے مرزا کامران نے اپنے دربار میں چال چلی اور اپنے سرکردہ امیر کیراچہ بیگ کو دربار میں دکھلاوے کےلیے جھوٹ موٹ برا بھلا کہا اور کیراچہ بیگ بظاہر اپنے ساتھیوں سمیت فرار ہو گیا لاہور میں میر یونس سے پناہ طلب کی، میر یونس نے اسکی عزت افزائی کی اسی دوران ایک رات کیراچہ بیگ نے گوریلا کاروائی کی اور لاہور کے دروازوں پر قبضہ کر لیا اور مرزا کامران کیلئے لاہور کے دروازے کھول دئیے، لاہور پر قبضہ ہو گیا۔ پھر مرزا کامران نے پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔
ہمایوں نے کابل قندھار اور پنجاب پر اپنے بھائی مرزا کامران کی حکومت کی توثیق کر دی اور اپنے والد کی وصیت کے مطابق مرزا ہندال کو الور جبکہ مرزا عسکری کو سنبھل کا علاقہ دیا، لیکن پھر بھی اسکے بھائیوں نے اس کے ساتھ بے وفائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
افغانوں کو محمود لودھی کی شکل میں قابل سردار مل گیا، والی گجرات بہادر شاہ اور بنگال کا بادشاہ نصرت شاہ تخت پر قبضہ کے خواب دیکھ رہے تھے تو راجپوت بھی ازسرنو قوت بن کر ابھر رہے تھے۔ دہلی میں بیٹھا ہمایوں چاروں طرف سے گھر چکا تھا۔
یہاں اس نے فیصلہ کیا کہ راجپوتوں سے اتحاد کرنے میں ہی بہتری ہے، میواڑ کے حاکم رانا سانگا کے دربار میں دوستی کا عہد نامہ بھیجا اور اسکی بیوی کرتا دیوی کیلئے راکھی بھیج کر اسے اپنی بہن بنا لیا۔ رانا سانگا انتقال کر گیا، سلطان بہادر والئی گجرات نے سلطان مظفر سے مل کر ریاست چتوڑ پر حملہ کر دیا تو رانی کرتا دیوی نے ہمایوں کو خط لکھا کہ بہن کی مدد کرے، ہمایوں بنگال کی مہم ترک کر کے راستے سے ہی میواڑ کا رخ کیا۔ اس وقت ریاست میواڑ کا حاکم رانا بکرم جیت رانا سانگا کا بیٹا تھا اور محمود خلجی کیساتھ جنگ میں مصروف تھا ، چتوڑ میں کوئی اہم سپہ سالار نہ تھا اس لئے رانا بکرم جیت کی رانی جواہر بائی نے فوجوں کی کمان سنبھالی رانا اودھے کی عمر اس وقت صرف تین سال تھی، اس صورتحال میں ہمایوں فوج لے کر پہنچ گیا، مظفر شاہ نے ہمایوں کے آنے کی خبر سنی تو واپس گجرات بھاگ گیا ہمایوں نے تعاقب کیا اور گجرات فتح کر لیا۔ ادھر رانا بکرم جیت نے محمود خلجی کو شکست دی اور پھر چتوڑ پہنچ گیا، ہمایوں نے واپس چتوڑ پہنچ کر رانا بکرم جیت کی کمر سے تلوار باندھی جو پختہ دوستی کا عہد نامہ تھا۔
اب کہانی کا ایک دوسرا رخ شروع ہوتا ہے، شیر شاہ سوری نے ظہیرالدین بابر کے زمانہ میں فوج میں ملازمت کی تھی وہ ہمایوں کی کمزوریوں سے واقف تھا، اس نے ہمایوں کو پیغام بھجوایا کہ “میں مغلوں کا پرانا نمک خوار ہوں مجھ سے شہنشاہ کو کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے بلکہ میں توقع رکھتا ہوں کہ شہنشاہ میری سرپرستی فرمائیں گے۔” اور اپنے بیٹے قطب خان کی قیادت میں پانچ سو سپاہیوں کا دستہ ہمایوں کی فوج میں بھیج دیا۔ یہ مصالحت زیادہ دیر نہ چلی، ہمایوں بھی اپنے باپ کی طرح عیش و عشرت اور جشن منانے کا دلدادہ تھا، کامیابی پر عظیم جشن منایا جاتا، اس ڈیڑھ سالہ جشن میں نیا شہر “دین پناہ” کے نام سے تعمیر کیا، ڈیڑھ سالہ جشن بہت کچھ لے گیا۔ نتیجتاً 1537ء میں شیرشاہ سوری نے بنگال پر قبضہ کر لیا۔
ہمایوں کو ایک موقع اور ملا، اس نے شیرشاہ سوری کے بیٹے جلال خان کو شکست دے کر چنار اور غور پر قبضہ کر لیا، لیکن یہاں بھی وہی جشن منائے گئے نو ماہ تک راتیں رنگین کی گئیں۔
شیرشاہ سوری نے پھر طاقت پکڑی اور بنارس پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا فورا ہی چنار ، جونپور اور قنوج بھی اس کے قبضہ میں چلے گئے،جبکہ شہنشاہ ہند نصیرالدین ہمایوں اس وقت تک بنگال میں پڑا داد عیش دیتا رہا جب تک فوج کر رسد کی شدید کمی محسوس نہ ہوئی۔
اب وقت گزر چکا تھا، ہمایوں نے اپنے بھائی مرزا ہندال کو بہار میں رہنے کا حکم دیا تھا وہ بہار چھوڑ کر آگرہ آ گیا اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ ہمایوں بنگال سے واپس روانہ ہوا تو راستے میں شیرشاہ سوری فوج لے کر آگیا، اپریل 1539ء میں ہمایوں اور شیرشاہ سوری کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، تین ماہ تک صلح کی کوششیں ہوتی رہیں بالآخر شیرشاہ سوری نے مغل فوج پر حملہ کر دیا ہمایوں کی فوج کو شکست ہوئی۔ ہمایوں جان بچانے کیلئے بھاگا اور گھوڑا دریا میں ڈال دیا عین درمیان میں اسے پاؤں گھوڑے کی رکاب سے نکل گئے اور وہ ڈوبنے لگا یہاں نظام سقہ نے اپنی مشک کے زریعے اسکی جان بچائی اور بعد میں اس کو ایک دن کی بادشاہت دی۔
ہمایوں آگرہ پہنچ گیا، اسکے بھائی مرزا کامران نے بیس ہزار سپاہ کیساتھ اسکی مدد کیلئے آنے کی پیشکش کی ہمایوں کو اس پر اعتماد نہ تھا مرزا کامران واپس لاہور چلا گیا۔ ہمایوں نے پھر چالیس ہزار فوج جمع کر کے شیرشاہ سوری سے ٹکر لی مگر شکست کھائی اب شیرشاہ سوری نہ رکا اور دہلی پر قابض ہو گیا اور ہمایوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا اور بابر کی یہ تنبیہ درست ثابت ہوئی کہ “بیٹا پٹھان سے ہوشیار رہنا”۔
شیر شاہ سوری کے بعد اس کا بیٹا سلیم شاہ سوری حاکم بنا لیکن اسکی وفات کے بعد سُوری خاندان کمزور تر ہو گیا تو ہمایوں 1555ء کے آغاز پر چودہ سال کی جلاوطنی کے بعد دریائے سندھ کو پار کر کے دہلی پر قبضہ کیلئے آگیا، پہلے لاہور فتح کیا اور پھر دہلی اور آگرہ کو بھی فتح کر لیا۔ لیکن حکومت اسکے نصیب میں نہ تھی جنوری 1556ء میں اسے تخت نشین ہوئے ابھی چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اپنے کتب خانے میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا کہ نماز مغرب کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تو وہ تیزی سے مسجد کی طرف لپکا اسے ٹھوکر لگی اور سیڑھیوں سے پھسل کر لڑھکتا ہوا نیچے آ گرا ،انہی زخموں سے چند روز بعد اسکا انتقال ہو گیا۔
ہمایوں زندگی میں اپنے نام کی طرح خوش بخت نہ رہا ،ساری عمر ٹھوکریں کھائیں ۔اپنے پرائے کی بے وفائی اور دشمنوں کی ٹھوکروں سے چودہ سال کی جلاوطنی کی ٹھوکریں بھی مقدر رہیں لیکن یہ آخری ٹھوکر جو موت دے گئی صرف اسی کو خوش بخت نیک بخت کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ کے حضور سجدہ کیلئے جاتے ہوئے ٹھوکر تھی۔
مشہور یورپی مؤرخ سٹینلےلین پول کے مطابق “اس نے تما م عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا“
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں