مولوی یا کانٹا؟۔۔حسان عالمگیر عباسی

عہد وفا، وہ ڈرامہ ہے جس میں ایک طبقے نے تمام دیگر طبقات کو محض جوتے کی نوک پہ ہی نہیں رکھا بلکہ ٹھڈے بھی مارے ہیں۔ مولوی طبقہ بھی اس نیچ ‘جملہ بازی’ سے نہیں بچ پایا۔

بڑے خاندانوں میں بیاہ رچایا گیا، تمام معززین مدعو ہیں، خوش گپیوں میں مصروف ہیں ،طرفین کی طرف سے مہمانان کو ‘خوش آمدید’ کہنے کا سلسلہ جاری ہے، ایسے میں ‘مولوی صاحب’ جو اس شادی کے اتمام میں کلیدی کردار نبھانے کو بلوائے گئے ہیں’ کسی کی توجہ کا مرکز ہی نہیں بن پارہے، اکیلے کرسی پہ بیٹھے اوپر نیچے ،دائیں بائیں نظریں گھما رہے ہیں۔

اپنا جائز حق تو لے نہ پائے، الٹا ‘ڈرامے’ کے اہم کردار ان کا مذاق بنا رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ یہ ‘مولوی’ ٹھیک نہیں لگ رہا، کہیں نکاح ہی غلط نہ پڑھا لے، معلوم نہیں کلمہ بھی آتا ہو، پہلا کلمہ تو سبھی کو آتا ہے چھ کلمے سننا ضروری ہیں، کہیں نکاح میں غلطی نہ ہو جائے وغیرہ۔

اب وہ حضرات جو کسی کی دلآزاری و ہجو کو سننے و دیکھنے والوں کی دل لگی و ضیافت کا سامان مانتے ہیں، یقیناً ہائی آفیشلز، معززین علاقہ، سوٹڈ بوٹڈ اور ڈائنڈ وائنڈ کی ہرزہ سرائی کو بھی وہی معیار تصور کرتے ہوں گے لیکن ڈرامے میں کہیں بھی ایسا دیکھنے کو نہیں آیا۔

کیا مخلص و ایماندار طبقہ ہی قربانی کے لیے رنگے جانوروں میں سے ہے؟ اس کلپ کے نظر سے گزرتے ہی، کچھ خیالات امڈنے لگے۔

مولوی وہ ہے جس کا دل خدا کی محبت سے بھرا پڑا ہے۔ وہ سب سے غریب ضرور ہے لیکن جتنا خدا نے اسے دیا ،اسی پہ اکتفا کرتے ہوئے رازق کو بتا دیا ہے کہ وہ اس کے دین(givings) پہ خوش ہے کیونکہ اسے جو نعمت دین کی شکل میں ملی ہے اس کے ہوتے ہوئے باقی چیزیں نہ ہونا محض وقتی امتحان ہے۔

جو سکون و سرور مولوی صاحب کی صورت پہ دیکھنے کو ملتا ہے، (حالانکہ بچے پوسنا بھی مشکل سے کرتا ہے) ویسا سکون کروڑ پتیوں کو بھی شاید میسر نہ ہو۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ پتنیاں بھی ہیں۔ مولوی صاحب کی ‘صاحبہ’ کا ‘شبستان’ مسجد کا حجرہ بھی رہے تو شاید وہ شکایت نہ کرے۔

مولوی صاحبان سے ہمارا تعلق بہت ہی دردناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہمارے قاری صاحبان کی محنت سے ہی ہمارے تلفظ کی ادائیگی درست ہوئی ہے، کچھ آیات کو ذہن نشین کروا کے قاری صاحب نے ‘دل’ کو اجڑنے سے بچا لیا۔ یقیناً قاری صاحب ہی ہیں جن کی وجہ سے قرآن سے رسمی ناطہ تعلق باقی ہے وگرنہ یہ قرآن نکلنے کو اونٹ کی رفتار سے نکلتا ہے۔

یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے کہ ہم ایک فرد کی وجہ سے تمام طبقے کو برا کہنے لگ جاتے ہیں۔ ایک مولوی سے بوجوہ نفرت اس حد تک گرنے پڑنے سے بھی نہیں کتراتے کہ اس کے اپنی ہی بیٹی کو چومنے کو اس کی خباثت سے جوڑ دیتے ہیں (چند دن پہلے کی ویڈیو کا منفیت کے جنگل میں آگ کی طرح پھیلنا اس قوم کی سوچ کا عکس ہے)۔

یہ بھی کہنا غلط ہے کہ مولوی صاحب سیاست سے کنارہ کش ہیں۔ وہ جہاد کی بات نہیں کرتے۔ پشاور میں ختم نبوت کے لیے ٹھاٹھیں مارتے دو سمندر ‘مولویوں’ کی ہی وجہ سے تل دھرنے تک کے لیے بھی نہ رہے۔

افضل جہاد ہی وہ کر رہے جو وقت کے یزیدیوں کو للکار رہے۔ سیاست کے میدان بھی ان مولوی لوگوں سے کوئی خالی نہیں کروا سکا۔

یہ مولوی لوگ تبلیغی چلے بھی کاٹ رہے، سیرت النبی کانفرنسس بھی ترتیب دے رہے، میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ کی تنظیم بھی ہو رہی ،ٹریننگز ورکشاپس بھی منعقد کر رہے، امام حسین رض کی شہادت کی وجوہات اور قربانی کا مقصد بھی بیان کر رہے ،بڑے بڑے جلوس بھی نکال رہے اور جامعات میں ان کی پی ایچ ڈیز بھی چل رہی ہیں۔

یہ اس زمین میں بسنے والے مولوی لوگ ہیں جس کے بارے میں میر عرب ص نے ٹھنڈی ہواؤں کے پیش گوئیاں کی ہیں۔ کہتے ہیں ‘میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے/ میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے۔’

یہ ہود بھائی جیسوں کے لیے کانٹا ہیں اور اللہ والوں کے لیے روشن ستارے! ان کو سکولز میں اس بات کا غم کھائے جا رہا ہے کہ بچہ حفظ کیسے کرے گا؟ دعائے قنوت کیسے یاد کرے گا؟ سیڑھی چڑھنے کی دعا کیسے از بر ہوگی؟ بھائی تم ‘حزب الشیطان’ میں ہو ،اسی کی چاکری کرو۔ دعائیں یاد کروانے کے لیے مولوی لوگ ابھی دھرتی پہ موجود ہیں۔

یہ نکاح بھی اور جنازے بھی پڑھا لیں گے۔ ہاں بھئی تمھارے بھی پڑھا لیں گے! تب تک پڑھائیں گے جب تک باپ کا جنازہ پڑھانے کے لیے بیٹا اہل نہیں ہو جاتا۔ تب تک پڑھائیں گے جب تک بیٹی کا نکاح باپ کے بس میں ہوا۔

بھائی تم لگے رہو۔ تمھاری پھونکوں سے یہ چراغ نہیں بجھنے، یہی خدا کا اٹل فیصلہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یریدون لیطفئو نور اللہ بافواھھم واللہ متم نورہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مولوی یا کانٹا؟۔۔حسان عالمگیر عباسی

  1. بلکل یہ مولوی ہی تو ہیں جو اسلام کی تعلیمات کو تھامے ہوئے ہیں۔ یہی تو ہیں جو مسجد اور مدرسے میں بچوں کی گانڈ مارتے ہیں ۔۔۔ یہی تو وہ تعلیمات ہیں جو یہ ہر سو پھلا رہے ہیں ماشاللہ

  2. ویسے ایک بات بتاوں جو بچہ فزکس، کیمسٹری، انجئنرنگ کی کتابیں یاد کر سکتا ہے وہ یہ چند لائِنوں کی دعائیں بھی یاد کر سکتا ہے۔ پھر یہ مولوی ہی ہوگا جو چیخے گا یہ ہمیں بےروزگار کر دیا ۔۔۔ تھوڑا نہیں ذیادہ سوچو

Leave a Reply