خدمتِ خلق خدا۔۔حسان عالمگیر عباسی

خدا کو پہچاننے کے جہاں بہت سے ذرائع ہیں، وہیں مخلوقِ خدا کی خدمت بھی ایک ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ چاہے تو اپنے حقوق کی تلفی معاف فرما دے ،سوائے یہ کہ  اس کے ساتھ شرک کیا جائے لیکن مخلوقِ خدا کی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اللہ کو قابل قبول نہیں اور اگر اس ضمن میں گناہ سرزد ہو جائیں تو اللہ کی معافی بندے کی معافی سے مشروط ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کتنے ہی ایسے اللہ کے مددگار ہیں ، کتنے ہی ایسے پانچ وقت کے نمازی حضرات ہیں جو مخلوق خدا کی خدمت اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے نالاں ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ شخص جنت کا مستحق ہو ہی نہیں سکتا جو مخلوق خدا سے قطع تعلق ہو جائے کیونکہ ارشاد ہے “لا یدخل الجنة قاطع”.کیا انہیں معلوم نہیں کہ  خدمت خلق ہی جنت کی ضمانت ہے۔۔؟ عبادت خداوندی بہت ہی عظمت والا کام ہے اور اسی مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ، لیکن عبادت کیا مسجد کی چار دیواری میں غلامی یا رمضان المبارک کے روزوں میں جھک جانے کا نام ہے؟۔ نہیں ! بلکہ عبادت یہ ہے بندہ ایسے عبادت کرے جیسے ایک غلام اپنے مالک کے تابع ہوتا ہے۔ اس کا کوئی متعین وقت یا معاوضہ نہیں ہوتا ، جو متعین وقت اور معاوضے کا طالب ہو وہ عابد یا غلام نہیں بلکہ ایک نوکر ہوتا ہے جو اپنے ہی ذاتی مقاصد کے لیے کسی سے معاہدہ کرتا ہے۔ جہاں ایسے لوگوں کا ہجوم ہے جو نمازی بھی ہیں ، تہجد گزار بھی ہیں ، نفلی روزوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں، ایسے میں کچھ لوگ نفلی نمازوں سے فرصت ملتے ہی خدمت خلق کے لیے نکل پڑتے ہیں ، نماز تراویح کے اہتمام کے بعد نمازیوں کے گھروں میں جاکر کے ان کی مشکلات و پریشانیوں کا سدباب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، رمضان کے روزے بھی رکھتے ہیں اور روزے داروں کی روزی کا بندوست کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے جو کرسکتے ہیں کر جاتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ  “لیس للانسان الا ما سعی” انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ وہ جانتے ہیں جتنا بوجھ ان کے ذمے ہے وہ خدمت خلق کی ادائیگی ہی ہے اور اللہ وسعت کے مطابق ہی بوجھ ڈالتا ہے ، وہ خود فرماتا ہے کہ : لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ‘ کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص پر اتنا ہی بوجھ ڈالتا ہے جتنا وہ برداشت کر سکے۔
شاعر بھی کیا خوب فرماتا ہے :
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے  کرّوبیاں!

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یہی درد دل رکھنے والے لوگ دنیا کی خوبصورتی ہیں۔ انہی  کی وجہ سے دنیا قائم و دائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ فرشتہ صفت ہی نہیں بلکہ فرشتوں سے بھی افضل ہیں۔ یہی وجہ ہے کے انسان اشرف المخلوقات کا اعزاز رکھتا ہے۔ اطاعت تو فرشتے بھی کرتے ہیں اور یہی کام انسان بھی اپنی اپنی قدروں اور شکلوں میں کر رہے ہیں۔ یہی کام چرند پرند حتیٰ  کہ  درندے بھی اچھے سے کر لیتے ہیں۔ وہ کیا کام ہے جو انسان کو عظمت کا مینارہ بناتا ہے ؟ وہ کام خدمت خلق اور مخلوق خدا سے محبت ہے۔ اور اگر انسان پانچ وقت کی نماز اور تہجد گزاری میں اتنے مشغول ہو جائیں کہ  ان کو اپنے ارد گرد کے معاملات سے بے خبری ہو ، اور اتنے مصروف عمل ہو جائیں کہ  ان میں سیاسی شعور نام کی چیز ہی نہ ہو تو سید سلیمان رح نے فرمایا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب تہجد تو دور پانچ وقت کی نماز بھی ان کے لیے مشکل بنا دی جائے گی۔ اسی لیے انسان کو شرف مقبولیت ہے کہ وہ جزوی اطاعت ہی نہیں بلکہ کلی اطاعت کرتا ہے۔۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ‘ کہ اللہ سے محبت کا عملی تقاضا یہ ہے کہ  اس کے نبی سے محبت کی جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا عملی نمونہ ان کی حیات مبارکہ ہے ‘ فرمان ہے کہ ‘کان خلقہ القرآن’ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہے، ایک جنگ کی حالت میں آیت نازل ہوئی کے “لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ” کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ  جنگ کے عین وقت اس آیت کا نزول جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے  صحابہ کرام اپنے پیٹ میں پتھر باندھے ہوئے ہوں ، پتہ دیتا ہے کہ  عبادت محض نماز ، روزے ،کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ یہ آیت ہمیں ‘ادخلوا فی السلم کافہ’کہ پورے کے پورے دین میں داخل ہو جاؤ کی طرف دعوت دیتی ہے۔ اور یہی وہ ‘جذبہ خدمت’ انسان کو فرشتوں سے بھی افضل بناتا ہے ، اگر انسان مخصوص چیزوں کو ہی ‘کلی دین’ سمجھے گا تو وہ جہالت کے اندھیروں میں ہو گا۔ اور وہی انسان جو اشرف المخلوقات ہے ، جو خلیفہ خدا ہے ، جس کے لیے جنت مزین کی گئی ہے’ نچلی سطح کی مخلوقات سے بھی بدترین قرار پائے گا ، اسے “اسفل السافلین” قرار دینے میں وقت نہیں لگے گا۔ حتی کہ وہ جانوروں سے بھی بدتر قرار پائے گا جیسا کہ ارشاد ہے ‘اولئک کا الانعام بل ھم اضل’ کے وہ چوپایوں کے مانند بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ یہی وجہ ہے کے انسان ایک مقام عظیم پر فائز ہے اور یہی مقام اسے فرشتوں سے بھی افضل گردانتا ہے۔ لیکن انسان بننا آسان نہیں ہے بلکہ محنت طلب کام ہے ، اس مقام پر وہی فائز ہے جو مخلوق خدا کی خدمت کے ذریعے اللہ کی خدمت میں مصروف ہے اور اللہ کا مددگار ہے ۔
شاعر کا ماننا ہے کہ:
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر لگتی ہے اس میں محنت زیادہ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply